گزشتہ سے پیوستہ
خود جہانگیر ترین صاحب کی اپنی ساکھ اتنی متاثر کن نہیں ہے، نہیں یقین تو تحریک انصاف کے دور ہی میں بننے والے چینی سکینڈل کو یاد کر لیں کہ جب تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں چینی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں تو شوگر کمیشن کی تفتیشی رپورٹ جاری کی گئی جس میں ذمہ داروں کا تعین کرتے ہوئے جہانگیرترین کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ بہرکیف عرض اتنی کہ تحریک انصاف کی SPACEیہ پارٹیاں نہیں لے پائیں گی۔ عمران خان کی آشیر باد ہی انکی سیاسی وراثت کا تعین کرے گی۔مقتدرہ قوتوں کی سوچ کہ عمران خان دو ماہ بعد پردہ پر نہیں ہونگے، قرین از حقیقت ہے۔ عمران خان کی سوچ کے تین ماہ بعد اسٹیبلشمنٹ کا رعب دبدبہ، دہشت ماند پڑ جائے گی اور اقتصادی زبوں حالی کی موجودگی میںان کی سیاست دوبارہ سراٹھائے گی، بات میں وزن ہے کہ ماضی میں بھی پہلے چند سالوں اندر سیاست مارشل لاو¿ں کو چھٹی کا دودھ یاد دلا چکی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہاں ایک بار پھر تاریخ کو دہرایا جا رہا ہے ، بالکل اسی طرح جس طرح حسین شہید سہروردی کو غدار قرار دے دیا گیا۔ اس سے بڑاظلم یہ ہوا کہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو بھی غدار بنا دیا گیا۔ الیکشن ہوا تو ایوب خان کا پھول جیت گیا، لالٹین ہار گئی۔ شاید روشنی کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ شیخ مجیب الرحمن کا جرم یہ بھی تھا کہ وہ محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھی تھا۔ شیخ مجیب الرحمن کہتاتھا مجھ سے بات تو کرو، جواباً تھپڑ رسید کر دیا جاتاتھا۔ 70کے الیکشن میںعوامی لیگ پر زمین تنگ کر دی گئی۔ زبیر عمر کے والد جنرل عمر عوامی لیگ کے خلاف پیسے بانٹتے رہے اور بقول بریگیڈیئر حامد سعید جو بھی عوامی لیگ کا امیدوار بنتا، اسٹیبلشمنٹ کفن اور کافور پر مشتمل پارسل اس کے گھر بھیجتی۔ بعض لوگ ڈر گئے تو ان کی جگہ بہادرآگئے۔ قصہ مختصر کہ اس وقت جو جماعت عوام کے لیے بنائی گئی ہے، جسے اس وقت کارکنوں کی اشد ضرورت ہے۔ میرے خیال میں انہیں ان کی اہمیت کا اس وقت اندازہ ہوگا جب یہ لوگ عوام کے درمیان آئیں گے۔ بادی النظر میں عوام کے درمیان ایک سیاسی جماعت کو بزور قوت پیچھے دھکیلنے کے حوالے سے جو غم و غصہ پایا جاتا ہے وہ یقینا ان پر نکل سکتا ہے۔ یہ وہ غصہ ہوگا جو عوام برداشت کر کے بیٹھے ہوئے ہیں، اور پھر اہم بات یہ ہے کہ یہ لوگ عوام میں جا کر کس قسم کی جھوٹی قسمیں کھائیں گے؟ کونسے وعدے وعید کریں گے؟ بے شرمی کی انتہا تو یہ ہوگی کہ جب یہ لوگ عوام میں آکر جھوٹ بولیں گے کہ انہوں نے عمران خان کو کیوں چھوڑا؟ یا تحریک انصاف کو خیر آباد کیوں کہا؟کیا یہ لوگ یہ کہیں گے کہ عمران خان کرپٹ آدمی ہے؟ یا یہ کہیں گے کہ عمران خان نے لندن، پیرس اور سوئٹزر لینڈ میں اپنی جائیدادیں بنا لی ہیں تب پاکستان کا قرضہ بڑھا ہے۔ یعنی یہ لوگ کس منہ سے ووٹ مانگنے کی پوزیشن میں ہوں گے؟ اور رہی بات عمران خان کی تو وہ اس وقت یقینا ساری صورتحال دیکھ رہے ہوں گے اور دھیمی دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ اپنے ہی دوستوں کو گل کھلاتا دیکھ رہے ہوں گے۔ ان کے لیے میں صرف یہی کہوں گا کہ بعض اوقات دوبارہ وزیراعظم بننے سے زیادہ اہم ملک کا مستقبل ہوتا ہے۔ برطانوی وزیراعظم چرچل کی مثال لے لیں۔ چرچل نے جنگ عظیم دوم جیتی لیکن پھر بھی الیکشن ہار گیا۔ چار سال بعد پھر الیکشن لڑا اور جیت گیا۔ اندازہ کریں برطانوی قوم نے اس وزیراعظم کو ووٹ نہیں دیا جس نے انہیں جنگ عظیم دوم میں فتح دلائی تھی تو کیا چرچل تاریخ میں ختم ہوگیا یا دوبارہ وزیراعظم نہیں بنا؟تاریخ واضح نہیں ہے ورنہ اس وقت ہو سکتا ہے کہ چرچل کے خلاف امیدوار کی کسی نے غیب سے مدد کی ہو۔ لیکن حالات صدا ایک جیسے نہیں رہتے۔ یقینا حالات بدلیں گے، سیاست جیتے گی اور ایک فون کال پر پارٹی چھوڑنے والے ہمیشہ کی طرح عبرت کا نشان بنیں گے۔۔۔۔(ختم شد)
کالم
استحکام پاکستان پارٹی: عوام میں جاکر دکھائے!
- by web desk
- جون 13, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 390 Views
- 2 سال ago