اسرائیلی فوج کے ترجمان نے اعتراف کیا ہے کہ ہمارے فوجی تھکے ہارے ہیں اور وہ جنگ کے بھاری بوجھ سے پریشان ہیں اور ڈیڑھ مہینے سے میدان جنگ میں ہیں۔ ہمیں مشکل اور پیچیدہ حالات کا سامنا ہے جس کا پہلے کبھی سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اپنے ہی ساتھیوں کے ہاتھوں تین اسرائیلی قیدیوں کی ہلاکت کے سلسلے میں اسرائیلی فوجی ترجمان نے دعویٰ کیا کہ ہمارے فوجیوں نے جنگ کے قوانین کی پابندی نہیں کی اور انھیں یرغمالیوں کے قریب ہوتے وقت فائرنگ نہیں کرنی چاہیے تھی۔ یرغمالیوں کے قتل ہونے کے واقعے نے اسرائیلی فوج پر لرزہ طاری کردیا ہے اور ہم اس سلسلے میں بیان جاری کررہے ہیں اور اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ حماس کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کا بھرپور جواب دیا جا رہا ہے جس کیلئے حماس کے جنگجو غزہ کے مختلف علاقوں میں اسرائیلی فوج پر راکٹوں، مارٹر گولوں اور اسنائپر رائفلز سے حملے کر رہا ہیں۔اسرائیلی کمانڈرنے انکشاف کیا ہے کہ کس طرح فلسطینی تحریک اپنے ہتھیاروں کے ذخیرے کو استعمال کر رہی ہے اور غزہ کی سڑکوں کو اسرائیلی فوجیوں کے لیے ایک جان لیوا بھول بھلیوں کا روپ دے چکی ہے۔ حماس کے افراد سرنگوں کے بڑے نیٹ ورک کے بارے میں اپنے علم سے بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ جنگجو گھات لگانے کے لیے ہر ممکن حد تک قریب آ رہے ہیں۔ حماس کے جنگجو میدان اور زمین کی معلومات کے اپنے تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ وہ معلومات ہیں جسے صرف وہ جانتے ہیں دوسرے نہیں۔حماس نے 5 روز میں 100 سے زائد اسرائیلی فوجی گاڑیاں تباہ کرنے کا دعوی کیا ہے۔غزہ میں اسرائیلی مظالم کے خلاف اور مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے امریکہ،برطانیہ سمیت دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہر ے کئے گئے ہیں۔ شمالی لندن میں احتجاجی ریلی کے دوران مظاہرین اسرائیلی سفیر کے گھر کے سامنے پہنچ گئے جہاں انہوں نے فلسطین آزاد کرو اور غزہ میں جنگ بند کرو کے نعرے لگائے۔سوئیڈن میں بھی فلسطین کے حق میں احتجاج کیا گیا اور دارالحکومت اسٹاک ہوم میں فلسطینی پرچم تھامے سینکڑوں افراد کی جانب سے جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا۔اسپین میں بچوں اور بڑوں کی بڑی تعداد نے پارلیمنٹ کے سامنے مظاہرہ کیا اور اسرائیلی فوج کی سفاکیت کا شکار غزہ کے بچوں سے اظہار یکجہتی کیا۔ نیو یارک میں غزہ پر اسرائیلی حملوں کے خلاف احتجاج ہوا جس میں مظاہرین نے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے غزہ میں نہتے شہریوں پر اسرائیلی فوج کے حملوں کو دہشت گردی قرار دے دیا۔پوپ فرانسس نے ہفتہ وار دعائیہ خطاب میں اسرائیل کے چہرے سے نقاب اتار پھینکا اور عالمی برادری کا ضمیر جھنجھوڑنے کی ایک اور کوشش کرتے ہوئے کہا کہ غزہ پر اسرائیلی حملے جنگ نہیں، دہشت گردی ہیں۔عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے غزہ میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں دو مسیحی خواتین کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ غزہ سے مسلسل سنگین اور دردناک خبریں آرہی ہیں، نہتے شہریوں کو بموں، گولیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ مقدس مقامات کے اندر بھی ایسے حملے ہو رہے ہیں، اسنائپرز نے چرچ میں خاتون اور اس کی بیٹی کو مارا، دیگر کو زخمی کیا، کچھ کہتے ہیں یہ دہشت گردی ہے، یہ جنگ ہے، ہاں یہ دہشت گردی ہے، خدا جنگ روکتا ہے۔دوسری طرف جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کیلئے بھی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس ضمن میں قطر اور اسرائیلی حکام کی ناروے میں ملاقات ہوئی ہے جس پر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا کہنا ہے قطری وزیراعظم سے موساد کے سربراہ کی ملاقات ہوئی ہے۔ قطری حکام قیدیوں کی رہائی کیلئے کوششیں کر رہے ہیں۔ ملاقات میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کیلئے بات چیت ہوئی۔ دونوں اطراف سے یرغمالیوں کی رہائی پر زور دیا گیا۔ حماس کے القسام بریگیڈ کے ترجمان ابو عبیدہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل اپنے یرغمالیوں کے حوالے سے جوا کھیل رہا ہے، اسے یرغمالیوں کے گھر والوں کے جذبات کی بھی پرواہ نہیں۔برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون اور جرمن وزیر خارجہ انالینا بائر بوک نے برطانوی جریدے سنڈے ٹائمز میں مشترکہ کالم لکھتے ہوئے غزہ میں پائیدار جنگ بندی کا مشترکا مطالبہ کر دیا۔ مشترکہ کالم میں دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے لکھا کہ غزہ میں بہت زیادہ شہری مارے گئے، جنگ کو جاری نہیں رکھا جا سکتا، اسرائیل کو دفاع کا حق حاصل لیکن اسے عالمی انسانی قانون کی پاسداری بھی کرنی چاہیے۔دونوں وزرائے خارجہ نے لکھا کہ اسرائیل کو حماس کی طرف سے لاحق خطرہ ختم کرنیکا حق ہے لیکن دونوں نے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرنے سے گریز کیا اور کہا کہ ہمارا مقصد صرف آج کی لڑائی کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ دنوں، برسوںاور نسلوں تک پائیدار امن ہونا چاہیے، اگر پائیدارامن ہو تو غزہ میں جنگ بندی کی حمایت کرتے ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ملازمین کے بعد محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی کے درجنوں ملازمین نے امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں جنگ رکوانے کے لیے کرادار ادا کریں۔اپنے خط میں انہوں نے کانگریس، امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی، محکمہ خارجہ اور ایگزیکٹو برانچ ایجنسیوں میں اپنے ساتھیوں کی شمولیت کی تصدیق کی جنہوں نے اسی طرح کے خدشات کا اظہار کیا۔