جنگ عظیم دوئم کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب ہزاروں کی تعداد میں بچے قتل ہوے۔ اقوام متحدہ کی بچوں کے حقوق کمیٹی کے مطابق سویلین علاقوں پر سات اکتوبر سے شروع ہونے والی اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں ابتک 3600 سے زائد بچوں کی شہادت کی تصدیق ہوچکی ہے اور ہزاروں زخمی ہیں۔ اس کے علاوہ 8800 افراد جان گنواچکے ہیں 23000 سے زائد زخمی ہیں جن میں بڑی تعداد خواتین کی شامل ہے۔ اسرائیل نے اپنے ننگے جرائم چھپانے کےلئے غزہ میں مواصلاتی چینلز اور انٹرنیٹ منقطع کررکھا ہے حقیقی اعداد و شمار اس سے کئی گنا زیادہ ہوسکتے ہیں۔ امریکہ و بہت سے یورپی ممالک کی پشت پناہی کے ساتھ اسرائیلی مظالم کا یہ تسلسل کئی دہائیوں سے جاری ہے جس کا زکر آتے ہی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں اور روح فرسا داستانیں گونجنے لگتی ہیں۔ اکیسویں صدی میں زمانہ جاہلیت کا عریاں ناچ غزہ کی پٹی میں اسرائیلی بربریت کی صورت میں جاری و ساری ہے۔ فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے کے لیے امریکہ و یورپ سمیت دنیا بھر میں مظاہرے کیے جارہے ہیں، اقوام متحدہ کی متعدد اپیلوں اور قراردادوں کے باوجود نیتن یاہو ڈھٹائی کے ساتھ غزہ میں بے گناہوں کے خون سے شیطانی ہولی کھیل رہا ہے۔ آتش و آہن کی اس موسلا دھار بارش کا نشانہ خاص اسپتال، اسکول، مساجد اور پناہ گزین خیمہ بستیاں ہیں۔ اس ابر ستم پر جہاں انسانیت نواز بے چین ہیں وہیں انسانی حقوق کے نام نہاد ٹھیکیدار اسرائیلی جرائم کی تائید و حمایت کرتے نظر آرہے ہیں۔ اس ضمن میں یورپی یونین کی بلاجواز اسرائیلی حمایت کی مذمت کرتے ہوے ہسپانوی وزیر برائے سماجی حقوق لون پلارا نے کہا کہ ”یورپی یونین ہمیں فلسطینیوں کی نسل کشی کا مجرم نہ بنائے”۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے نیویارک آفس کے سربراہ کریگ موخیبر نے کہا ”یہ ہر لحاظ سے جینوسائیڈ ہے اور حد یہ ہے کہ امریکہ و برطانیہ سمیت متعدد یورپی ممالک اس خوفناک جرم میں برابر کے شریک ہیں جو معاشی، سفارتی، سیاسی و فوجی امداد کی صورت اسرائیلی جارحیت کو مسلح کرنے میں فعال ہیں اور بطور احتجاج انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کو اقوام متحدہ کی جانب سے روکنے میں ناکامی پر مستعفی ہوگئے” ۔ عالمی قوانین کے ماہر پروفیسر فرانسس بوائل کے مطابق فلسطینیوں کی نسل کشی کا یہ سلسلہ گزشتہ سات دہائیوں پر محیط ہے، جس کی تصدیق خود اسرائیلی مورخ کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کے وکیل اور سی سی آر بی کے صدر مائیکل ریٹنر نے اسرائیلی مظالم کو crime against humanity قرار دیتے ہوے اسے فلسطینیوں کی نسل کشی قرار دیا ہے۔ نیتن یاہو انتظامیہ اس سے پہلے 2014 میں ”آپریشن پروٹیکٹیو ایج” کے نام پر عالمی قوانین و انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سمیت فلسطینیوں کی نسل کشی کے مرتکب ہوچکے ہیں جس پر ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ICC کو مخاطب کرتے ہوے بیان جاری کیا کہ اب فلسطین میں ہونے والے انسانیت کے خلاف سنگین جرائم کے کلچر کو روکنے کےلئے ICC اسرائیل کو کٹہرے میں لائے۔ اس کے علاوہ متعدد انسانی حقوق و عالمی قانون کے ماہرین پر مشتمل Russell Tribunal نے 2010 سے 2014 تک اس سوال پر تحقیق کی اور اس نتیجے پر پہنچے کہ بہت سے اسرائیلی رہنما اور فوجی افسران Crime Against Humanity کے مرتکب ہیں۔ انسانی حقوق کی نتظیم الحق، المیزان اور الدمیر کے ساتھ ساتھ متعدد ہولوکاسٹ سروائیورز نے 2014 کی اسرائیلی جارحیت میں ہزاروں فلسطینیوں کی شہادت کا ذمہ دار اسرائیل کو ٹھہراتے ہوے اسے فلسطینیوں کی پلانڈ نسل کشی قرار دیا۔ بولیویا کے صدر Evo Moraleنے احتجاجاً اسرائیل سفارتی تعلقات منقطع کرتے ہوے کہا تھا کہ
”What is happening in Palestine is Genocide”
مگر افسوس کہ اقوام متحدہ اس ننگے جرم کو روکنے میں مسلسل ناکام ہے اور ستم بالا ستم یہ کہ انسانی حقوق کے سب سے بڑے ٹھیکیدار امریکہ و برطانیہ اسرائیلی جارحیت و انسانیت کے خلاف سنگین جرائم کو مسلسل نظرانداز کرتے آرہے ہیں جوکہ امریکی قوانین و پالیسی کی بھی سنگین خلاف ورزی ہے۔1970 سے امریکی کانگریس نے قانون سازی کے ذریعے امریکی فوجی و سویلین امداد اور سرمایہ کاری کو کسی بھی ملک کے انسانی حقوق کے ریکارڈ سے مشروط کر رکھا ہے، ہر سال سیکشن 116 کے تحت اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ امریکی کانگریس کے سامنے رپورٹ پیش کرتا آرہا ہے 1984 سے ابتک مسلسل اسرائیلی جارحیت، عالمی قوانین و انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیاں درج ہونے کے باوجود امریکی کانگریس مسلسل اسرائیلی امداد جاری رکھے ہوے ہے جوکہ نہ صرف Foriegn Assistance Act 1961 کے سیکشن 502B کی خلاف ورزی بلکہ امریکی دوہرے معیار کا کھلا ثبوت ہے۔ آئرلینڈ نے اسرائیلی جارحیت کےخلاف زبردست احتجاج کرتے ہوے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کو لگام ڈالنے کےلئے یورپی اقوام اسرائیل کی ہر قسم کی امداد فی الفور بند کریں اور اسرائیلی انتظامیہ کو فلسطینیوں کی نسل کشی کے جرم میں ICC کے کٹہرے میں لاکر قرار واقعی سزا دی جائے۔ بولیویا نے 2014 کے بعد ایک بار پھر اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کرلیے ہیں، اس کے علاوہ کولمبیا، برازیل، وینزویلا، سا¶تھ افریقہ، اسپین بھی اس دوڑ میں شامل ہوگئے ہیں۔ عالمی قانون کے ماہرین اور انسانی حقوق کی تنظیمیں پرزور مطالبہ کر رہی ہیں کہ اب ہر صورت اس منظم نسل کشی کو روکا جائے۔ نیتن یاہو انتظامیہ کو ICC کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا جائے اور قرار واقعی سزا دی جائے- اقوام متحدہ نے لیدا جینوسائیڈ سے شروع ہونے والی اسرائیلی جارحیت کے بعد 1947 میں قرارداد نمبر 181 کے زریعے مسئلے کا حل Two State Solution قرار دیا اس کے بعد قرارداد نمبر 194 کے زریعے فلسطینیوں کا ان کی پراپرٹی پر حق قائم رکھتے ہوے UNCCP قائم کیا۔ 1974 میں قرارداد نمبر 3236 میں ایک بار پھر یہ واضح کیا گیا کہ فلسطینیوں کو ان کی پراپرٹی اور ان کے علاقوں پر پورا پورا اختیار ہے اس کے علاوہ بیسیوں ایسی قراردادیں پاس کی جاچکی ہیں مگر اسرائیل ڈھٹائی پر قائم رہتے ہوے عالمی قوانین کی پاسداری کا انکاری ہے۔ 29 نومبر 2012 کے دن اقوام متحدہ نے فلسطین کو آبزرور اسٹیٹ کا درجہ دیا اور فلسطینی صدر کی درخواست پر 2014 سے یہ علاقہ انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کی جیورسڈکشن میں شامل کرلیا گیا۔ 2023 کی انسانیت سوز اسرائیلی وحشت و جرائم کے خلاف ICC کی زمہ داری ہے کہ وہ نیتن یاہو انتظامیہ اور اس کے حمایتیوں کو اپنے کٹہرے میں لاکر مظلوم انسانیت کو سکھ کس سانس لینے دے اور دوسری طرف عالمی برادری کو زمہ داری کے ساتھ اس مسئلہ کا مستقل حل نکالنے کےلئے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل یقینی بنائے۔
٭٭٭٭
کالم
اسرائیل کو امریکہ و یورپی یونین کا آشیرباد
- by web desk
- نومبر 6, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 282 Views
- 2 سال ago