حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہجرت ِمدینہ کے دو سال بعد دو ہجری یعنی624عیسوی کو روزے فرض ہوئے ۔اللہ رب العزت قرآن مجید فرقان حمید سورة البقرہ آیت نمبر183 میںفرماتے ہیں کہ”اے ایمان والو!تم پر روزے فرض کردیے گئے ہیں، جیسے تم سے پہلے لوگوں پر روزے فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیز گار بن جاﺅ۔” اس آیت کریمہ سے عیاں ہوا کہ صرف امت محمدی پر روزے فرض نہیں ہوئے بلکہ اس سے قبل امتوں پر بھی روزے فرض کیے گئے تھے۔حضرت آدم علیہ السلام کے دور میں مہینے میں تین روزے رکھے جاتے تھے یعنی سال میں36 روزے رکھے جاتے تھے،حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہ طور میں 30 روزے رکھے ،پھر اس میں مزید 10 روزے رکھے یعنی چالیس روزے رکھے۔پہلے انبیاء پر 30 روزے فرض نہیں تھے بلکہ کچھ عاشور کے دن اور کچھ قمری مہینے کے 13، 14 اور15 کو روزے رکھتے تھے۔مدینہ کے لوگ محرم کے دس تاریخ کو روزہ رکھتے تھے، جب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ والوں سے پوچھا کہ تم اس دن روزہ کیوں رکھتے ہو؟ تو اہل مدینہ نے بتایا کہ ہم دس محرم کو اس لیے روزہ رکھتے ہیں کیونکہ اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے چنگل سے آزاد کیا تھا۔مکہ اور مدینہ میں بھی لوگ روزے رکھتے تھے لیکن ان کے طور طریقے اور قواعد وضوابط میں نمایاں فرق تھا۔یہودی اور دیگر مذاہب کے پیروکار وں میں بھی پورا دن فاقہ کرنے کا عمل موجود ہے۔اسلام میں روزہ تیسر ا رکن ہے، اسلام کے پانچ ارکان توحید، نماز، روزہ ، زکواة اور حج بالترتیب ہیں۔ روزہ کا اہم مقصد پر ہیز گاری ہے۔ اپنے آپ کو اپنے رب کی ناراضگی سے بچانا تقوی ہے اور یہی حقیقی کامرانی کا راستہ اور طریقہ ہے ۔ پرہیزگاری کے بے شمار فوائد ہیں۔اللہ رب العزت سورة البقرہ آیت نمبر194میں فرماتے ہیں کہ” اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ متقی لوگوں کے ساتھ ہے۔ جس کو اللہ رب العزت کا ساتھ نصیب ہوجائے ،وہ بے خوف زندگی بسر کرتا ہے۔ سورة یونس آیت 62 میں آتا ہے کہ”خبر دار ! اللہ کے اولیاءپر نہ کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ وہ کھبی غمگین ہونگے۔” سورة التوبہ آیت نمبر4میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ”بے شک اللہ تعالیٰ متقی بندوں سے محبت کرتا ہے۔” حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی سے محبت کرتے ہیں تو حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بُلا کر کہتے ہیں کہ اے جبرائیل !میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں،تم بھی اس سے محبت کرو،تو حضرت جبرائےل بھی اُن سے محبت کرنے لگتے ہیں، پھر آسمان میںآواز لگاتے ہیں کہ آسمان والو! فلاں بندے سے اللہ تعالیٰ محبت کرتے ہیں،تم بھی اُن سے محبت کرو، تو فرشتے بھی اُن سے محبت کرتے ہیں،پھر دنیا والوں کے دلوں میں اس کی قبولیت (یعنی اُن کے دلوں میں اس کی محبت ، عزت و احترام )ڈال دیا جاتا ہے ۔پرہیز گار لوگوں کومصائب سے راہ بنالیا جاتا ہے۔قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے کہ ” اور جو اللہ سے ڈرتا ہے،اللہ تعالیٰ اس کےلئے مصائب سے نکلنے کی راہ بنادیتے ہیں اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتے ہیں، جہاں اس کا گمان بھی نہیں ہوتا۔”روزہ درحقیقت معاشرتی تربیت کا نام ہے جو انسانی معاشرت کی تعلیم دیتا ہے۔روزے سے ارادہ مضبوط اور ہمت بلند ہوتی ہے۔روزہ دار دن بھر بھوک پیاس برداشت کرتا ہے تو دوسرے نفسانی خواہش سے بھی پرہیز کرتاہے۔صبر نہ کرنے سے غلط اقدام کا اندیشہ رہتا ہے لیکن روزے سے صبر واستقامت کا مادہ پیدا ہوتا ہے، وہ شرعی حدود سے تجاوز نہیں کرتا ہے، صبر کے باعث ڈھیروں مشکلات اور کافی پریشانیوں سے بچ جاتاہے۔ روزے کے باعث دیگر انسانوں کے ساتھ ہمدردی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔روزے سے معاشرے میںڈسپلن پیدا ہوتا ہے اور معاشرہ ایک خاص نظم وضبط میں ڈھل جاتا ہے، سب لوگ ایک مقررہ وقت پر سحری کرتے ہیں اور ایک ہی وقت میں افطار کرتے ہیں، ایک ہی وقت میں تروایح پڑھتے ہیں،روزے سے وقت کی پابندی کی عادت پیدا ہوتی ہے۔کھانا سامنے پڑاہوتا ہے لیکن کوئی کھاتا نہیں بلکہ مقررہ وقت سے پہلے ایک نوالہ بھی نہیں لیتا ہے،یہ ایک خوبصورت اور نظم وضبط کا سماں ہوتا ہے۔لوگ بڑی تعداد میں مساجد کا رخ کرتے ہیں، اس سے ایک دوسرے کا تعارف بھی ہوجاتا ہے جو لوگ تنہائی کا شکار ہوتے ہیں،وہ ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہوجاتے ہیں،ان کی زیست پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں، ڈپریشن ختم ہوجاتی ہے،معاشرے میں نفسیاتی بیماریاں کم ہوجاتی ہیں۔روزہ سے جسمانی بیماریوں سے نجات مل جاتی ہے، روزے سے معدہ اور انتڑیاں فاسد رطوبات سے صاف ہوجاتی ہیں،اس سے ان کے افعال اورکارکردگی میں بہتری آجاتی ہے۔روزے سے بھوک کنٹرول میں مدد ملتی ہے اور مٹاپے سے نجات مل جاتی ہے۔روزہ سے جسم میں کولیسٹرول کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے، شوگر کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے، روزے کے باعث سگریٹ نوشی کی لت کو چھوڑ اجاسکتا ہے،اسی طرح دیگر بری عادات سے چھٹکارا پاسکتا ہے۔قارئین کرام!اصل روح کے مطابق رمضان کے روزے رکھنے سے انسان تمام جسمانی اور روحانی بیماریوں سے پاک وصاف ہوجاتا ہے۔ رمضان کے روزے نعمت ِخداوندی ہے، رمضان کے مکمل روزے رکھیں اور اللہ رب العزت کا شکر ادا کریں۔ جو لوگ رمضان کے روزے رکھتے ہیں، وہ خوش نصیب اور کامیاب ہوتے ہیں۔اب آپ کی مرضی ہے کہ آپ خوش نصیب اور کامیاب لوگوں کی فہرست میں نام لکھوانا چاہتے ہیں یا اس کے برعکس فہرست میں نام چاہتے ہیں۔علاوہ ازیں تاجر برادری سے استدعا ہے کہ جائزہ منافع لیں لیکن مہنگائی اور ذخیرہ دوزی نہ کریں، وقتی اور عارضی فائدے کےلئے ہمیشہ کی زیست برباد نہ کریں، سمجھ دار اور عقل مند تاجر وہی ہے جو ہمیشہ کی کامرانی اور کامیابی کا راہ اپناتے ہیں۔اس حیات کی ایک منٹ کی گارنٹی نہیں ہے جبکہ موت کی 100فیصد گارنٹی ہے۔تاجربرادری کو چاہیے کہ اللہ رب العزت کے ساتھ بزنس کریں،اللہ پاک کے مخلوق سے کم منافع لیں، اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں کئی گناہ زیادہ منافع دے گا، انشاءاللہ العزیز۔دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں اچھا انسان بنائیں اور تمام جہانوں میں سرخرو اور کامران کرے۔ آمین