کالم

اسماعیل ادیب ایک منفرد اور جداگانہ شخصیت

یہ دنیا فانی ہے یہاں کئی قدر شناس آتے رہتے ہیں اور اپنے حیات فانی کے دن پورے کر کے رخصت ہو جاتے ہیں یوں یہ سلسلہ تاقیامت جاری رہے گا۔ تاہم کچھ یگانہ روز شخصیات کا تذکرہ رہتی دنیا تک برقرار رہے گا ۔ ایسی ہی ایک شخصیت اسماعیل ادیب کے نام سے نہ صرف میدان صحافت میں اپنی خدمات بلکہ اپنے کردار کے بعض پہلو¶ں سے بھی یاد رکھی جائے گی۔ ایک عظیم صحافی ایک اچھے انسان تھے۔روزنامہ زمیندار میں مولانا ظفر علی خاں جیسے عظیم مجاہد کی صحبت میں کام کیا۔ہر اہم ایشوز پر آواز اٹھائی، سیاسی، سماجی، صحافتی لوگ بھی ان کی اس خدمات کے معترف ہیں۔وجہ اور کچھ بھی نہیں کہ وہ ہمیشہ اپنی ذات کی نفی کر کے اجتماعی عوامی مفاد کو مدنظر رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ انہیں آج بھی یاد کرتے ہیں اور اچھے لفظوں میں پکارتے ہیں۔ انہوں نے ضلع قصور کی صحافت میں جو چار چاند لگائے ہیں انکی اس روایت کو کوئی نہ توڑ سکا ہے۔ قلم اور ضمیر فروشوں کو کبھی معاف نہ کیا اور ان کی اصلاح کرتے رہے، یہی وجہ تھی کہ سبھی ان کا بے حد احترام کرتے تھے۔ آپ ہمیشہ فخر سے کہتے تھے کہ مولانا ظفر علی خان کی شاگردی میرے لیے اعزاز ہے اور سرمایا زندگی بھی۔مذہبی منافرت کو اچھا نہ سمجھتے تھے ہر مکتبہ فکر کے علماءاور لوگ ان کا بے حد احترام کرتے تھے۔صحافت میں انہوں نے بڑے بڑے جاگیرداروں کو چت کیا جس کا ان کے مخالفین بھی اقرار کرتے تھے۔ ان کی بے لاگ صحافت کو روکنے کے لئے بڑے بڑے جاگیردار،سرمایہ داراور کرپٹ افسران ان کی راہوں میں آئے مگر ان کی ہر سازش کا مقابلہ کیا، خاکسار تحریک سے وابستہ ہونے کے ناطے سے علامہ المشرقی عنایت اللہ خاں کے دست راست تھے اور اس جماعت نے انہیں ہر قسم کے خوف وڈر سے بے نیاز کر دیا تھا،پاکستان اور اسلام کے لیئے ہر وقت مر مٹنے اور ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔اسماعیل ادیب ادارہ قومی تشخص،تحریک فلاح پاکستان،خاکسار تحریک اور انجمن فلاں کمبوہاں سمیت دیگر کئی فلاحی،سماجی و صحافتی تنظیموں سے وابستہ رہے،آپ نے اردو اور پنجابی فاضل کے اضافی امتحانات پاس کیے،ہومیو پیتھک سسٹم آف میڈیسن بورڈ کا امتحان 1965ءمیں پاس کیا، اس کے بعد حکمت کا امتحان پاس کیا، 1979ءکو طیبہ کمیٹی قصور نے انہیں اعزازی سند پیش کی۔اسماعیل ادیب مرحوم نے ضلع قصور کی صحافت میں جو گرانقدر خدمات سر انجام دیں وہ صحافت کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ آپ نے صحافت کے پیشے کو پاکیزگی عطاءکی،ہمیشہ صاف شفاف بلیک میلنگ سے پاک صحافت کی، اپنے قلم سے ہمیشہ ملک دشمن عناصر کا بِلا خوف و خطر مقابلہ کیا ،اپنے صحافتی قلم سے کبھی بھی کسی بے گناہ کانہ گلا کاٹانہ کسی کی پگڑی اچھالی اور نہ ہی کسی کو بلیک میل کیا۔ایسے فعل کا تصور صحافتی اقدار کے خلاف متصور کرتے تھے۔ایک انتہائی دردمند سچے اور کھرے انسان تھے۔ مرحوم ایک بار فرماتے ہیں کہ ” مجھے نہیں معلوم میں کیا ہوں ہاں میں اتنا جانتا ہوں کہ بس ایک انسان ہوں اور ہمیشہ انسان ہی رہوں گا ظلم اور استحصال کے خلاف قلمی جہاد کرتا رہوں گا میری زندگی ایک سفر ہے میرا یہ سفر کبھی ختم نہیں ہو گا یہاں تک کہ زندگی کا آخری لمحہ آجائے گا“۔نو جوان صحافی چوہدری وقار عظیم ادیب بتاتے ہیں کہ” اسماعیل ادیب مرحوم نے ساری زندگی صحافت کو اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا ، انتہائی صاف گو انسان تھے۔جو کچھ انہیں کہنا ہوتا صاف صاف بلا جھجھک کہہ دیتے تھے چاہے وہ کسی کو برا ہی کیوں نہ لگے ایک حساس دل کے مالک تھے ۔ لوگ ان کی اس کمزوری سے بعض اوقات فائدہ اُٹھا کر اپنا مطلب نکال لیتے تھے۔ وہ بڑے نڈر آدمی تھے کسی خطرے سے نہیں ڈرتے تھے انہیں جو رائے یا نظریہ پسند نہ آتا تو بے دھڑک اپنی رائے کا اظہار کرتے تھے۔ہر ایک کی بات پوری توجہ سے سنتے اور ان کے مسائل کو حل کروانے کی پوری کوشش کرتے تھے ،پچاس برس تک شعبہ صحافت سے وابستہ رہے ،آپ نے صحافت کو کبھی داغ دار نہیں ہونے دیا،حقیقت کو کبھی نہیں چھپایااورافواہوں کو کبھی اہمیت نہیں دی۔اگر عوام کے مفادات میں اہل اقتدار کو نفع پہنچتا ہو تو اسے شائع کرنے میں بخل سے کام نہیں لیا اور اگر حکومت عوام کے حقوق پامال کرے تو اگلے روز قومی اخبارات میں شہ سرخی حاکم وقت کے ظلم و ستم کے خلاف ہوتی تھی۔ ساری زندگی صاف ستھری صحت مند بے باک اور باضمیر صحافت کیلئے وقف کر رکھی تھی۔اپنے قلمی جہاد کے دوران پاکستان کے دشمنوں کے خلاف ہمیشہ سینہ سپر رہے ،حق کی آواز بلند کرنا ہی آپکی زندگی کا مقصد تھا، آپ نے ساری زندگی سماجی سیاسی اور مذہبی برائیوں کے خلاف جہاد جاری رکھا اور سماجی برائیوں کے خاتمہ کیلئے اپنے قلم کو وقف رکھا اسی وجہ سے آپ پر مشکلات آتیں لیکن کبھی حق گوئی اور حق نوازی سے پہلو تہی نہ کی، خدمت امانت دیانت شرافت جذبہ حب الوطنی جرات و استقامت حق گوئی کے ساتھ مظلوم کا ساتھ دے کر ظالم کو للکارنا ان کا طرہ امتیاز تھا۔اسماعیل ادیب انتہائی بارعب شخصیت تھے۔ایسے درد دل رکھنے والے انسان دنیا میں کم کم ہوتے ہیں“۔کئی سالوں تک صحافت کے ذریعے عوام کی خدمت و رہنمائی کرنے والا قیام پاکستان کا عظیم مجاہد ،استحکام پاکستان کا اصلی داعی ، اسلام وملک کا حقیقی ترجمان 13جون 2003 کو دنیائے صحافت سے غروب آفتاب کی مانند اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اِک شخص سارے جہاں کو ویران کرگیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے