امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب نے کہا ہے کہ اقتدار کی بندر بانٹ۔ ایک دوسرے کو راضی کرنے کی بجائے غریبوں کے مسائل حل کیے جائیں۔ اسمبلیاں ربڑ سٹمپ ۔کوئی آئین کی حکمرانی کے لیے تیار نہیں۔ فیصلے ملک سے باہر ہوتے ہیں۔ حالات اسی طرح رہے تو جمہوریت مستحکم ہو گی نہ ملک آگے بڑھ سکے گا۔ انتخابات صاف اور شفاف نہ ہوئے تو نتائج کوئی تسلیم نہیں کرے گا۔حقیقت تو یہ ہے کہ مہنگائی کے خلاف دھرنے دینے والے آج خاموش ہیں۔ 13سیاسی جماعتیں 15مہینوں میں ایک شعبے میں بھی بہتری نہ لاسکیں۔ سیاست چند خاندانوںکے گرد گھومتی ہے۔ انصاف کے اداروں پر حیرانی ہے کہ جیسے ہی کوئی اقتدار میں آتا ہے اس کے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔جماعت اسلامی قرآن کے نظام کے لیے جدوجہد کررہی ہے۔ اسی مقصد کے لیے پاکستان آزاد ہوا۔ قوم نے اپنی تقدیر کا فیصلہ خودکرنا ہے۔ آزمائے ہوئے چہروں کو مزید نہ آزمایا جائے۔ لوگ ووٹ کی طاقت سے ظالموں اور لٹیروں کا احتساب کریں۔ یہ ملک شہزادے اور شہزادیوں کی حکمرانی کےلئے نہیں بنا۔ عام پڑھے لکھے شخص کو اسمبلیوں میں ہونا چاہئے۔ قوم جماعت اسلامی کے ساتھ تعاون کرے۔ بہتری کا واحد آپشن جماعت اسلامی ہے جو اقتدار میں آ کر پاکستان کو کرپشن فری اسلامی فلاحی ریاست بنائے گی۔ انصاف اور احتساب نہیں چل چلاو¿اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا نظام ہے۔ 24کروڑ عوام کا ملک ایڈہاک ازم کی بنیاد پر چل رہا ہے۔ حکمران سیاسی جماعتوں نے جمہوریت کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ پی ڈی ایم ۔ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی ناکام ہوگئیں۔ قوم نے سب کو آز ما لیا۔ 75برسوں میں تمام تجربات ہوئے۔ عوام کی حالت نہیں بدلی۔ ملک قرضوں کے پہاڑ کے نیچے ہے ۔ آنےوالی نسلیں بھی مقروض ہوگئیں۔نام نہاد جمہوری حکومتوں اور فوجی مارشل لاز کی وجہ سے وسائل سے مالا مال ملک کا ہرشعبہ تباہ ہوگیا۔ وسائل پر دو فیصد اشرافیہ قابض ہے۔ حکمرانوں نے مال بنایا۔ آف شور کمپنیوں کے ذریعے بیرون ملک جائیدادیں خریدی گئیں۔ پاناما لیکس اور پنڈوراپیپرز میں سبھی حکمران جماعتوں میں شامل افراد کے نام آئے۔ بنکوں سے قرضے لے کر معاف کروائے گئے۔ نیب کی فائلوں میں حکمرانوں کی کرپشن کی داستانیں ہیں۔ کسی کو کوئی نہیںپوچھتا۔ غریب فاقوں مر رہے ہیں۔ اسی فیصد آبادی مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہے ۔ لاکھوں نوجوان ملک چھوڑ گئے ۔ لاکھوں بے روزگار ہیں۔شرافیہ اقتدار کے حصول کےلئے باہم دست و گریباں ہے۔ معیشت روبہ زوال، پاکستان کو ڈِفالٹ کے خطرات لاحق ہو چکے ہیں ۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود زراعت تباہی سے دو چار ہے۔ صنعتیں بند ہو چکی ہیں۔ غریب عوام کےلئے روٹی کا حصول ناممکن ہو گیا ہے۔ وطن عزیز اور ہماری اسلامی ریاست قیام پاکستان کے مقاصدکھو رہی ہے۔ آزادی کی حفاظت، استحکام اور خوشحالی کےلئے پوری قوم کی متحدہ جدوجہد ناگزیر ہے تا کہ بگڑتے حالات، بکھرتا شیرازہ، دو قومی اسلامیہ نظریہ کی بنیاد پرازسرنومتحرک کیا جائے۔ قومی آمریتوں، اسٹیبلشمنٹ، ریاستی، سیاسی انتخابی بندوبست اور اقتدار پرستی میں پاپولر نمائشی قیادت نے پاکستان کے وجود کو بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ ہوس، اقتدار اور اپنے اپنے مفادات کے تحفظ، اختیارات کے غیرقانونی استعمال کے عمل نے ریاستی سرکاری سیاسی انتخابی پارلیمانی اداروں کو تباہ کر دیا ہے اور قومی سلامتی آزاد مختاری پرکمپرومائز کیا ہے ۔ پاکستان اپنی اصل کے اعتبار سے ایک منفرد اور امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان صرف خطہ زمین نہیں نظریہ پہلے اور مملکت بعد میں ہے۔ ریاست کا نظام چلانے کےلئے قرارداد مقاصد، آئین پاکستان ، اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات اور اقتصادی آزادی اسلامی معاشی نظام کےلئے آئینی اور عدالتی فیصلے موجود ہیں لیکن نااہل، مفاد پرست، کرپٹ حکمرانوں نے ذاتی گروہی پارٹی مفادات کو ترجیح دی اور قومی اتحاد کو پسِ پشت ڈالا، آئین، قرآن وسنت، جمہوری پارلیمانی اقتدار کو پامال کردیا۔ اتحادوں کی سیاست چھوٹے چھوٹے مفادات کی بھینٹ چڑھا دی گئی۔جمہوری تقاضوں کے مطابق موجودہ حکمرانوں کو اقتدار میں رہنے کا حق حاصل نہیں رہا۔عوام کو خودنئی نسل کا مستقبل محفوظ کرنا ہوگا۔ اقتصادی بحران بدترین شکل اختیار کرچکا ہے۔ مہنگائی، بیروزگاری، اقربا پروری کی چکی میں عوام پس رہے ہیں۔ غریب عوام کی طرح اب اپر مڈل کلاس کی حالت بھی ابتر ہوچکی ہے۔زراعت معیشت کی مضبوط بنیاد ہے جس پر حکومت کی کوئی توجہ نہیں ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کی رپورٹس ہیں کہ زراعت وتجارت کے فروغ سے ہی معیشت مستحکم ہوسکتی ہے۔یوٹیلٹی سٹورز کی حالت سب کے سامنے ہے۔ صنعت کا پہیہ بھی صحیح طرح نہیں چل رہا ۔ اسلامی نظام کے بغیر ریاست مدینہ کا تصور مکمل نہیں ہوسکتا جس کیلئے اہل و دیانت دار قیادت کی ضرورت ہے ہم ملکی سطح پر عوام کو متحرک کریں گے اور عوام کو لاوارث نہیں چھوڑیں گے۔