کالم

اعلیٰ عدلیہ کے جج نے مسجد بنادی شب بھر میں

گزشتہ سے پیوستہ
اس وقت کے وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹونے کمشنر ملتان ہمایوں رسول صاحب کو فون کیا اور ان کو ہدایت کی کہ ملتان کے دونوں حلقوں سے پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی کامیابی کا اعلان کر دیا جائے۔ ہمایوں صاحب نے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسرچودھری محمد صدیق خاں اور ریٹرننگ افیسر سردار اسلم جلوانہ کو فون کیاکہ پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی کامیابی کا اعلان کر دیا جائے۔ راقم الحروف اس وقت ضلع کچہری ملتان میں موجود تھا۔ اور چودھری صدیق صاحب نے اپنے ایک اہلکار کے ذریعے مجھے بلوایا۔ میں ان کے پاس گیا تو چودھری (ایڈیشنل ڈپی کمشنر جنرل)سردار اسلم جلوانہ اور چودھری محمد حفیظ اللہ وہاں موجود تھے۔ چودھری صاحب نے کہا کہ بھٹو صاحب نے یہ ہدایت کی ہے کہ اگر آپ کمشنر صاحب کے پاس پی این اے کے لوگوں کو لے کر چلے جائیں اور ان سے فوراً ملاقات کر لیں ورنہ ہم تو پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی کامیابی کا اعلان کرنے پر مجبور ہوں گے۔ اس وقت کچہری میں قومی اتحاد کے سینکڑوں کارکن موجود تھے۔ راقم الحروف نے ان سب سے کہا کہ اندرون شہر سے جتنے لوگ بھی فوراً نکل سکتے ہیں، ابدالی روڈ پر واقعہ کمشنر ہاو¿س پہنچ جائیں۔ جیسے ہی ہزاروں لوگ کمشنر ہاو¿س پہنچے تو لوگوں نے پیپلز پارٹی اور بھٹو صاحب کے خلاف بلند آواز میں نعرے لگانے شروع کر دیے۔ اسی اثنا میں کمشنر ہمایوں صاحب کو بھٹو صاحب کا فون آیا کہ آپ نے ابھی تک پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی کامیابی کا اعلان کیوں نہیں کیا۔ ہمایوں صاحب نے انہیں بتایا کہ ہزاروں شہریوں نے کمشنر ہاو¿س کا گھیراو¿ کر رکھا ہے اور وہ کمشنر ہاو¿س میں داخل ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں اگر ہم نے خلاف قانون کوئی قدم اٹھایاتو لوگ کمشنر ہاو¿س کو بھی آگ لگا دیں گے اور شہر میں ہنگامے شروع ہو جائیں گے۔ اس پر بھٹو صاحب نے کمشنر سے کہا کہ پھر ملتان کے دونوں حلقوں کے اصل نتائج کا اعلان کر دیا جائے تو اس طرح بابو فیروز دین انصاری کے مقابلے میں مولانا حامد علی خان اورسپیکر قومی اسمبلی صاحب زادہ فاروق علی کے مقابلے میں شیخ خضر حیات کی کامیابی کا اعلان کر دیا گیا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی پورے ملتان میں جشن کا سماں تھا۔ راقم الحروف یہاں یہ بھی بتانا چاہتا ہے کہ بھٹو صاحب مولانا جان محمد عباسی صاحب کو حوالات میں بند کر کے بلا مقابلہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے اسی طرح پنجاب سندھ ،بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے چاروں وزرائے اعلیٰ بھی ریٹرننگ افسروں کے دفاتر کاگھیراو¿ کر کے بلامقابلہ کامیاب ہوئے تھے اور انہوں نے قومی اتحاد کے امیدواروں کواپنے کاغذات نامزدگی داخل کر نے سے محروم کر دیا تھا۔ شیخ صاحب نے پراسیکیوٹر کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کیا تھا تاہم چند سال کے بعد انہوں نے سرکاری ملازمت چھوڑ دی اور ملتان میں وکالت شروع کی۔ محترم اکرم شیخ صاحب ، ملک دین محمد قاضی ایڈووکیٹ اور شیخ خضر حیات صاحب کافی عرصے تک اکٹھے پریکٹس کرتے رہے۔ 4 جولائی کو مارشل لاءکے نفاذ کے بعد مولوی مشتاق حسین لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے جنہوںنے بھٹو صاحب کو بیرسٹر احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان مرحوم کے قتل میں سزائے موت دی ۔ واضح رہے کہ بھٹو صاحب کے خلاف قتل کے مقدمہ کی سماعت کرنے والے پانچوں جج فوجداری کے مقدمات کے ماہر تھے۔ بھٹو صاحب کے خلاف شیخ آفتاب حسین نے فیصلہ لکھا تھا اور باقی ججوں نے ان سے اتفاق کیا تھا۔انہی دنوں چودھری محمد صدیق خاںلاہور ہائی کورٹ میں پریکٹس کر رہے تھے اور شیخ خضر حیات ہائی کورٹ کے احاطے میں داخل ہوئے تو ان کی اچانک چودھری صدیق خاں صاحب سے ملاقات ہوئی ۔ چودھری صدیق صاحب بہت ہی باخبر ، زیرک افیسر تھے انہوںنے شیخ خضرحیات صاحب کو دیکھتے ہی کہاکہ آپ حلف اٹھانے کےلئے آرہے ہیں۔چودھری صدیق صاحب مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں مولوی مشتاق حسین اور عرفان احمد انصاری سابق وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل کے کلاس فیلو تھے اور مولوی صاحب جب چیف الیکشن کمشنر بنے تو انہوں نے چودھری صدیق صاحب کو پنجاب کا الیکشن کمشنر تعینات کر دیا۔ انہوں نے ڈاکٹر علامہ اقبال ؒ کے خطوط اور ان کی کتاب Reconstruction of Religious Thought in Islam کا اردوترجمہ کیاتھا اور بزم اقبال لاہور نے یہ کتاب فکر اسلامی کی تشکیل جدید کے نام سے شائع کر رکھی ہے۔ مرحوم سید نذیر نیازی، راقم الحروف اور چودھری صدیق صاحب کے دیرینہ اور گہرے دوست تھے اور ہم ہفتے میں کئی بار کئی کئی گھنٹوں تک اکٹھے بیٹھا کرتے تھے۔ سید نذیر نیازی مرحوم بڑے درویش صفت انسان تھے اورانہیں مالی مشکلات کا بھی سامنا تھا۔ چودھری صدیق صاحب مرحوم اور راقم الحروف نے ہمیشہ اپنے دوست کا حتیٰ المقدور خیال رکھا۔ اللہ انہیں غریق رحمت کرے۔ ان کی مغفرت فرمائے۔ علم دوست شخصیت کے مالک تھے۔ علامہ اقبال ؒ جو مختلف اصحاب کو خطوط بھیجتے تھے یہ تمام مکتوبات سید نذیر نیازی صاحب کے ہاتھ کے تحریر کردہ تھے۔ راقم الحروف شیخ خضر حیات صاحب کا ذکر کر رہاتھا ۔ شیخ صاحب اور منیر خان مرحوم (رحیم یارخان)دونوں فوجداری امور کے ماہر تھے۔ دونوں ہی اکٹھے لاہور ہائی کورٹ کے جج بنے تھے۔ شیخ صاحب ہائی کورٹ کے مختلف بنچوں بشمول بہاولپور تعینات رہے۔ چونکہ شیخ صاحب علوم اسلامیہ سے بخوبی آگاہ تھے اس لئے انہیں اسلامی مشاورتی کونسل کا رکن ہونے کا اعزاز بھی حاصل رہا۔
٭٭٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے