کالم

افغانستان، پرفیکٹ انٹرنیشنل پراکسی سٹیٹ

افغانستان، پرفیکٹ انٹرنیشنل پراکسی سٹیٹ

تحریر!میجر (ر)ساجد مسعود صادق
موجودہ انٹرنیشنل پولیٹیکل اسٹرکچر (ورلڈ آرڈر)جس میں مغربی طاقتوں کو ہمیشہ مشرقی ممالک پر بالادستی حاصل رہی ہے اسے سپورٹ کرنے کے لیئے مصنوعی "الف لیلوی اور دیومالائی افسانے” جن میں "افغانستان سپر پاوورز کا قبرستان ہے اور افغانی قوم ایک بہادر اور غیور قوم ہے” ان سب افسانوں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ افغانستان کی حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک "پرفیکٹ انٹر نیشنل پراکسی اسٹیٹ” ہے جسے ہمیشہ مغربی اور مشرقی سپر پاورز نے ہمیشہ ایک دوسرے خلاف استعمال کیا ہے۔ آج بھی پاک چین مشترکہ پراجیکٹ سی پیک اور گوادر پورٹ پراجیکٹ کو سبوتاژ کرنے کے لیئے افغانستان پاکستان میں دہشت گرد کاروائیوں کرنے والوں کے لیئے ایک لانچنگ پیڈ کا کام کررہے۔ Land Locked، غیر ترقی یافتہ، غلے کی خاطر بھی دوسروں پر تکیہ کرنے والا، بنیادی ضروریات پوری کرنے سے بھی قاصر اور بنیادی انسانی سہولیات سے محروم ملک ہوتے ہوئے افغانستان کو دوسرے ممالک کے خلاف استعمال کرنا انتہائی آسان ہے۔ افغانستان کی واحد انڈسٹری ڈرگز کی ہے جوویسے ہی ہر وقت بین الاقوامی ڈرگز مافیاز کے درمیان ایک وجہ نزاع رہتی ہے۔
جہاں تک بین الاقوامی سیاست میں افغانستان کی اہمیت کا تعلق ہے تو کاشغان سے دریافت ہوئے 25 مربع میل آئل اور گیس کے ذخیرے کو پائپ لائن سے سمندر تک پہنچانے کا سب سے چھوٹا روٹ افغانستان سے گذرتا ہے۔ مشہور پائپ لائن ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور انڈیا (TAPI) کا منصوبہ بنایا گیا۔ اس پائپ لائن کا کنٹریکٹ لینے کے لیئے ایک عرصہ تک بیلجیئم کی قومی کمپنی Bridas اور امریکی کمپنی UNOCAL (جس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں افغانستان میں امریکی سفیر زلمے خلیل زاد بھی شامل ہے) کے درمیان مقابلہ چلتا رہا اور بالآخر بیلجیئم کی کمپنی Bridas کو امریکی UNOCAL کمپنی کے حق میں اس پراجیکٹ سے دستبردار ہونا پڑا۔ اسی کنٹریکٹ کی وجہ سے ہی امریکہ اور طالبان حکومت کے درمیان 1990کی دہائی میں ان بن ہوئی۔ اسی کنٹریکٹ کی وجہ سے پاکستان میں امریکی سفیر کے خلاف بے نظیر نے امریکی حکومت کو خط لکھا۔ دنیا کی سب سے زیادہ ڈرگز کی پیداوار سمیت مشرق وسطی کی ریاستوں تک رسائی کے لیئے راستہ افغانستان سے ہوکر گذرتا ہے۔ امریکہ روس کے درمیان افغانستان پر وجہ تنازعہ کو "ڈرگز وار” بھی کہا جاتا ہے۔ اسی طرح تاریخی اعتبار سے آج تک برصغیر پر جتنی دفعہ لشکر شی ہوئی وہ افغانستان کی طرف سے ہوئی۔
جہاں تک جنوب ایشیائی سیاست میں افغانستان کے رول کا تعلق ہے ہمیشہ سے کٹھ پتلی افغانی حکمران ہمیشہ پاکستان کی لاکھ قربانیوں کی باوجودپاکستان کے خلاف منافقانہ پالیسی پر گامزن رہتے ہیں۔ پاکستان کو بھی اسی لیئے ہمیشہ افغانستان کے معاملات میں اپنی بقا کے لیئے دلچسپی رہتی ہے۔ اسی طرح مذہبی مسالکی بنیادوں پر افغانستان قدرتی طور پر اینٹی ایران سٹیٹ ہے اور افغان سعود ی گٹھ جوڑ پر ایران کے لیئے بھی پریشان کن ہے۔ چانکیائی سیاسی فلسفے کے مطابق بھارت افغانستان سے پاکستان دشمنی کی وجہ سے افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ اسی طرح جب بھی افغانستان میں کوئی بین الاقوامی کشمکش شروع ہوتی ہے تو پاکستان خود بخود اور نہ چاہتے ہوئے خواہ مخواہ ملوث ہوجاتا ہے۔ تقسیم ہندوستان سے قبل افغانستان اور مشترکہ ہندوستان کے درمیان برطانوی دور کی کھنیچی ہوئی لکیر "ڈیورنڈ لائن” بھی دونوں ممالک کے درمیان ایک وجہ نزاع ہے۔ گویا افغانستان ناصرف سپر پاورز بلکہ درمیانے درجے کے ممالک کے درمیان بھی ایک پراکسی سٹیٹ کا رول پلے کرتا ہے۔
اسلام کے بارے محدود ذہنیت پر مبنی جو افغانی قوم کے افکار ہیں انہیں غیر مسلم ممالک کے ساتھ علاوہ دیگر ترقی پذیر اسلامی ممالک بھی سخت ناپسند کرتے ہیں۔ اسی محدود مذہبی ذہنیت، معاشی و سماجی پسماندگی اور ضروریات زندگی کی عدم موجودگی کی وجہ سے افغانستان اور افغانی قوم پیسہ خرچ کرنے والی ہر قوم کا آسان شکار ہے۔اگر یوں کہا جائے کہ جو بھی افغانی قوم کی ضروریات پوری کرے وہ اسے اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرسکتا ہے تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ اس سے قبل افغانی قوم کو کمیونسٹ سویت یونین عیسائی سپر پاور برطانیہ اور عیسائی سپر پاور امریکہ کمیونسٹ روس کے خلاف اور ہندو بھارت اسلامی ملک پاکستان کے خلاف استعمال کر چکے ہیں۔ اور بین الاقوامی سیاست میں یہ افغانی کرادر کوئی تھوڑے عرصہ پر محیط نہیں بلکہ اس قسم کا افغانی کرادر صدیوں پرانا ہے جو تواتر سے مختلف کتابوں میں قلمبند ہوتا آیا ہے۔ بین الاقوامی سیاست میں افغانی رول جو کہ ٹھوس حقائق پر مبنی ہے افغانستان کو اسلامی ملک یا افغانی قوم کو بہادر، غیور اور جری کہنا اسلام اور جرت و غیرت کے تمام فلسفوں کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔
افغانستان کو ایک پرفیکٹ انٹرنیشنل پراکسی سٹیٹ ثابت کرنے کے لیئے انیس صدی کی اینگلو افغان وارز ہیں جس میں اس وقت کی مغربی سپر پاور کے خلاف اسے اس وقت کے سویت یونین (موجودہ روس) نے پراکسی اسٹیٹ کے طور پر استعمال کیا۔ بیسویں صدی میں امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں نے افغانستان کو روس کے خلاف ایک کامیاب پراکسی سٹیٹ کے طور پر استعمال کیا۔ اسی طرح تقسیم ہندوستان سے لیکر آجتک بھارت افغانستان کو پاکستان کے خلاف چانکیائی فلسفے کے تحت ایک پراکسی سٹیٹ کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے بھی افغانستان میں اسی لیئے ڈیرے جمائے تاکہ وہ روس اور چین کے عرب ممالک، افریقہ اور یورپ میں بڑھتے ہوئے اثرونفوذ کو روک سکیں۔ اسی طرح مسلکی بنیاد پر افغانستان میں ایران اور سعودی عرب ہمیشہ ایک دوسرے کے آنے سامنے رہتے ہیں اور مختلف افغانی گروہ ان دونوں ممالک کے ساتھ قریبی روابط میں رہتے ہیں گویا افغانستان سپر پاورز یا دیگر ممالک کے لیئے بھی ایک پراکسی سٹیٹ سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
دہشت گردی کی جنگ سے لیکر آج تک پاکستان دشمن مغربی طااقتیں اور ان کا اس خطے اتحادی بھارت قوتیں افغانستان کوایک لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کررہی ہیں۔ پاکستان کے مغربی صوبوں کے پی اور بلوچستان میں دہشت گردی کی وارداتوں اور پاک فوج پر حملوں میں یا تو افغانی خود ملوث ہوتے ہیں یا پھر ان کو افغانستان کی سہولت کاری میسر ہوتی ہے۔ اس بات کے ٹھوس شواہد جنرل مشرف دور میں پاکستانی وزیرخارجہ خورشید قصوری نے امریکہ اور افغانستان حکومت کو بھی دیئے تھی جس میں باقاعدہ طور پر وو افغانی وزیر اور بھارتی حکومت پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں ملوث پائے گئے (بحوالہ: خورشید قصوری کی کتاب Neither Dove Nor A Hawk)۔ پاکستان کو ایک تواس مسئلے کو ہر بین الاقوامی فورم پراٹھانا چاہیے اسی طرح افغانی طالبان کے ہم خیال "تحریک طالبان پاکستان” سے بھی بلا کسی رعایت کے آہنی ہاتھوں سے نپٹنا چاہیئے۔ پاکستان میں طالبان کے مذہبی اور سیاسی نظریات سے جن سیاسی پارٹیوں کی ذہنی مطابقت ہے انہیں بھی اپنے خیالات میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ اور اگر وہ پھر بھی حمایت ان کی جاری رکھیں تو پاکستانی حکومت کو ان کے خلاف سخت تادیبی کاروائی کرنی چاہیئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے