کالم

افغان سرزمین سے پاکستان میں دہشتگردی جاری!

کسے معلوم نہےں کہ پاکستان اور افغانستان برادر اسلامی ممالک ہیں اور افغانستان میں امن و استحکام پاکستان کے سٹریٹیجک مفاد میں ہے۔اس کے علاوہ پچھلے چالیس برسوں میں پاکستانی حکومت اور عوام نے اپنے افغان بھائیوں کے لےے جو قربانیاں دیں وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہےں لیکن اس کے باوجود افغانستان کا ایک حلقہ بڑے تسلسل کے ساتھ پاکستان کو موردو الزام ٹھہرائے تو اس کی بابت شائد یہی کہا جا سکتا ہے کہ
”لو وہ بھی کہہ رہے ہےں بے ننگ و نام ہے ،
یہ جانتا اگر نہ لٹاتا گھر کو میں ۔
اس تناظر میں یہ بات اہم ہے کہ خطے میں کچھ عناصر ٹی ٹی پی جیسے پراکسی دہشتگرد گروپوں کے ذریعے امن میں خلل ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیںاور اس سلسلے میں غیر ملکی مداخلت کے آثار واضح ہیں اور امن بگاڑنے والوں کا مقصد افغانستان اورپاکستان بلکہ پورے خطے کو نقصان پہنچانا ہے۔حالانکہ افغان عبوری حکومت کے سربراہ شیخ ہیبت اللہ پہلے ہی اس بات کا اظہار کرچکے ہےں کہ پاکستان میں جہاد نافذ العمل نہیں ہے۔ایسے میں غیر جانبدار مبصرین کی رائے میں بڑا وزن نظر آتا ہے کہ افغانستان حکومت کی لاجسٹک سپورٹ کے بغیر کوئی دھشتگرد گروپ چترال جیسی کاروائی نہیں کر سکتا اوربارڈر پر کسی بھی قسم کی جارحیت عبوری افغان حکومت کی مرضی کے بغیر ناممکن ہے۔ ایسے میں دہشت گردوں کا چترال میں سوات طرز کا آپریشن ناکام ہونا وپاک انٹیلیجنس ایجنسیوں اور سیکیورٹی فورسز کی کامیاب حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔یاد رہے کہ چترال میں بدامنی کی کوشش سی پیک کے مخالف اس منظم کمپین کا حصہ ہے جس کا مقصد اس میگا پراجیکٹ کی کامیابی میں رکاوٹیں ڈالنا ہے ۔ایسے میں یہ امر بھی طے ہے کہ تمام تر مشکلات کے باوجود افواج پاکستان ہر قیمت پر پاکستانی سرحدوں کو محفوظ بنانے اور امن بحال رکھنے کے لیے بھرپور کوشش جاری رکھے گی۔اس ضمن میںافغان عبوری حکومت پر لازم ہے کہ بین الاقوامی اصولوں اور قواعد و ضوابط پر ان کی روح کے مطابق عمل کرے۔ سنجیدہ حلقوں کے مطابق کسے معلوم نہےں کہ وطن عزیز میں ایک گروہ ایسا ہے جن کی زندگی کا مقصد یہ ہے کہ ہر ممکن ڈھنگ سے پاکستان کو مطعون کیا جا ئے اور اس ضمن میں وطن دشمنوں کا یہ ٹولہ نہ تو کسی اخلاقیات کا قائل ہے اور نہ ہی کوئی مذہبی اور انسانی ضابط ان کے آڑے آتا ہے ۔دوسری طرف 19 اگست کو شمالی وزیرستان کی تحصیل شوال میںایک ترقیاتی منصوبے پر کام کرنے والے مزدور جب کام کر کے گھر واپس جا رہے تھے تو ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے اِس گاڑی کو بم دھماکے کا نشاو¿نہ بنایا جس کے نتیجے میں 11 مزدور جاں بحق ہو گئے جبکہ دو مزدور شدید زخمی و¿ہوئے یاد رہے کہ اِ س گاڑی میں کل 16 مزدور سوار تھے ۔ایسے بے کس مزدورں کی زندگی چھینے کا مکروہ عمل کوئی انسان یا مسلمان تو نہےں کر سکتا اس قبیح حرکت کا مرتکب بہر کیف انسان تو کسی طور نہےں کہلا سکتا ۔ مبصرین کے مطابق یہ بات یہاں بالکل واضح نظر آتی ہے کے ٹی ٹی پی دہشت گردوں کا معصوم اور نہتے مزدوروں کو ٹارگٹ کرنا اُنکی پاکستان اور عوام دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے اور یہ دہشت گردی کا واقعہ ترقی کے اِن دشمنوں کی اصلیت کو قبائلی عوام کے سامنے عیاں کرتا ہے ۔سنجیدہ حلقوں کے مطابق یہ محض ایک اتفاق نہیں کہ ایک جانب پی ٹی ایم اسلام آباد میں غیر قانونی افغانیوں کو استعمال کر کے ملک دشمن تقریریں کر رہی تھی اور دنگا فساد کر رہی تھی جبکہ دوسری طرف اگلے ہی دن انہی کے ساتھی (ٹی ٹی پی) افغانی نِژاد دہشت گردوں کو استعمال کر کے معصوم قبائلی مزدوروں کو جو کہ ملک کی ترقی میں حصہ لے رہے تھے کو بڑی سفاکی سے دہشت گردی کا نشانہ بنا رہی تھی- ٹی ٹی پی نے دن کی روشنی میں اس واردات میں معصوم لوگوں کا خون بہایا، جبکہ رات کی تاریکی میں انکے ساتھی(پی ٹی ایم کے سوداگر) وہاں غم زدہ خاندانوں کے پاس جا کر اور سوشل میڈیا پر ریاست مخالف بیانیہ اور جھوٹا پروپیگنڈا پھیلانے میں مصروفِ عمل ہیں اور سیکورٹی فورسز کے خلاف زہر اُگلنا شروع ہو چکے ہیں ۔ واضح ہو کہ اِس سارے خون خرابے میں ٹی ٹی پی اور پی ٹی ایم کا مقصد صرف اور صرف قبائلی علاقوں میں غیر قانونی افغانیوں کو استعمال کر کے انتشار اور امن و امان کی صورتِ حال کو خراب کرنا ہے تاکہ وہاں پر ترقیاتی عمل کو روکا جا سکے کیونکہ قبائلی علاقوں میں ترقی آنے سے ان دونوں شر پسند عناصر کا باہر سے آنے والے ڈالرز کا بزنس بند ہو جاتا ہے۔ایسے میں غالبا وقت آ گیا ہے کے حکومت وقت اِن دہشت گرد عناصر اور انکے ہاتھوں استعمال ہونے والے افغانی نِژاد دہشت گردوں اور احسان فراموش غیر قانونی افغانی شر پسندوں کی مکمل سرکوبی کرے تاکہ پاکستان بالخصوص قبائلی اضلاع میں ترقی اور خوش حالی کے سفر کو آگے بڑھایا جا سکے۔اسی تناظر میں مبصرین نے اس امر کو بھی اہم قرار دیا ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے ٹی ٹی پی کے اندر باہمی اختلافات شدید تر ہو گئے ہےں اور ان میں باقاعدہ لڑائی شروع ہو چکی ہے۔اسی ضمن میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ تحریک طالبان پاکستان نور ولی محسود گروپ نے خوست میں گل بہادر گروپ پر حملے کے بعد جماعت الاحرار پر باقاعدہ حملے شروع کر دےے ہےں ۔اسی تناظر میں یہ بات اہم ہے کہ نور ولی محسود نے اسد آفریدی کو قلعہ سیف اللہ پر حملے کے بارے ٹی ٹی پی کے راز افشاءکرنے پر ولایت کے منصب سے فوری ہٹا دیا تھااور بعد ازاں مختلف بیانات جاری کرنے پر نورولی محسود نے اسد آفریدی کو راستے سے ہٹانے کیلئے اسکے سر کی قیمت باقاعدہ طور پر مقرر کی تھی۔اسی سلسلے میں محسود گروپ کے کارندوں نے اسد آفریدی کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا۔اس تمام پس منظر کا جائزہ لیتے ہوئے باخبر ذرائع کا اصرار ہے کہ وقت کی ضرورت ہے کہ پاک مخالف تمام شرپسندوں کو نکیل ڈالی جائے تاکہ ریاست کی رٹ پوری طرح بحال ہو سکے۔
٭٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے