علامہ اقبالؒ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مدیر، سیاستدان اور تحریک پاکستان کے اہم رہنماء تھے۔ علامہ اقبالؒ نے اپنے کلام کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگایا جس کی وجہ سے وہ ایک الگ اسلامی مملکت کے قیام میں کامیاب ہوگئے۔ اقبالؒ کے فلسفہ کی بنیاد اسلام ہے۔ اقبالؒ کے پیغام امن، محبت، رواداری، سادات، برداشت، صبر و تحمل کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔عالمی مجلس بیداری فکراقبالؒ کی ادبی نشست میں علامہ اقبالؒ کے مصرعہ”پھران شاہین بچوں کوبال و پردے“پر محمدعبدالرزاق نے اپنے خطاب میں بتایا کہ جس طرح اپنے کلام سے علامہ نے مسلمانان ہندکوخواب غفلت سے بیدارکیاوہ انہیں کاخاصہ تھا۔ لارڈمیکالے کے مرتب کردہ نظام تعلیم پراقبالؒ ہمیشہ نوحہ کناں رہتے تھے اورکہتے تھے کہ غلام ہمیشہ اپنے آقاکے ذہن سے ہی سوچتاہے اورغلامی انسان کو حسن زیبائی سے محروم کرکے کندذہن بنادیتی ہے۔ شاہین کی صفات نے مسلمانوں کودنیاکاامام بنادیاتھا۔ اقبالؒ چاہتے ہیں کہ مسلمان نوجوان اپنے آپ کی حقیقت کوپہچانیں۔ آج کانوجوان حالات سے بری طرح مایوس نظرہے جس کاعلاج تعلیمی اداروں کی اصلاح احوال ہے۔ان حالات سے نکلنے کاایک ہی راستہ ہے کہ اقبالؒ کانور بصیرت نوجوانوں میں عام کردیاجائے۔ اقبالؒ نے یورپ میں تعلیم حاصل کی اور وہ یورپ کی مادہ پرستانہ تہذیب کے نقصانات کو بخوبی سمجھے اور وہ عملی آدمی تھے۔ انہوں سیاسی میدان میں بھی زور آزمائی کی اور اسمبلی کا الیکشن لڑا۔ انہوں نے جہاں مسلمانوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی وہاں پر انہوں نے پاکستان کا تصور بھی پیش کیا۔ وہ انسانیت کے شاعر تھے۔ انہوں نے بنی نوع انسان کی بہتری اسلامی تعلیمات میں دیکھی اور وہ ساری عمر اس تگ و دو میں لگے رہے کہ مسلمان خواب غفلت سے جاگ کر اپنے منصب کی ذمہ داریاں پوری کریں۔علامہ اقبالؒؒ نے اپنے افکار اور شاعری کے ذریعے اس وقت برصغیر کے مسلمانوں کی رہنمائی کا فیصلہ کیا جب وہ اپنی شناخت کی تلاش میں غلامی کے اندھیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔علامہ اقبالؒؒ نے اپنی شاعری کے ساتھ اس انداز میں مسلمانوں کو بیدار کیا جس کی مدد سے مسلمانان بر صغیر کو مایوسی کے احساس سے بیدار ہونے اور ناممکنات کو ممکن بنانے میں بھر پور رہنمائی حاصل ہوئی۔ علامہ اقبالؒؒ نے نہ صرف پاکستان کا خواب دیکھا بلکہ قیام پاکستان کے بعد میں پیش آنے والے مسائل کی بھی نشاہدہی کردی تھی۔ یہ ان کی شخصیت کی دور اندیشی تھی کہ انہوں نے بہت سال پہلے ہمیں درپیش عصری مسائل کی نشاندہی کردی تھی۔ فرقہ واریت اور انتہا پسندی جیسے مسائل پر قابو پانے کے لئے اقبالؒؒ کا وژن اب بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔علامہ اقبالؒؒ نے اپنے اشعار میں مسلم نوجوان کو ستاروں پر کمند ڈالنے اور قوم کو خانقاہوں سے نکل کر میدان عمل میں اترنے کی ترغیب دی۔ علامہ اقبالؒؒ نے اپنی شاعری کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں میں ایک نئی روح پھونکی، جو تحریکِ آزادی میں بے انتہا کارگر ثابت ہوئی۔علامہ محمد اقبالؒؒ نے اپنے اشعار کے ذریعے مسلم امہ کو خواب غفلت سے جاگنے کا پیغام دعا اور فلسفہ خودی کو اجاگر کیا مگر مغربی مفکرین کو یہ ایک آنکھ نہ بھایا۔اقبالؒؒ نے اس دور میں شاعری کو اظہار کا ذریعہ بنایا، جب برصغیر کے مسلمان انگریزوں کی غلامی میں تھے، جب کہ امت مسلمہ کی آنکھیں مغرب کی چمک دمک سے چندھیا چکی تھیں۔ اقبالؒؒ نے مسلمانوں کو بیدار کرنے کے لئے اپنے اشعار میں مغربی تہذیب پر تنقید کی، تو وہاں کے نقاد نے شاعرمشرق کا پیغام سمجھے بغیر ہی ان کے خلاف محاذ کھول لیا۔تاریخ پرنظررکھنے والے اقبالؒؒ کی نوبل پرائز سے محرومی کو بھی اسی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ اقبالؒؒ کے پیغام خودی کو مغرب نے جہاد پر آمادہ کرنے سے تعبیر کیا اور یہی اختلاف اقبالؒؒ کی بجائے، ان کے ہم عصر رابندر ناتھ ٹیگور کو نوبل انعام ملنے کا جواز ٹھہرا۔اقبالؒؒ پر تنقید کرنے والے مغربی دانشور یہ بھی بھول گئے کہ انہوں نے اپنی شاعری میں جا بجا یورپ کے علم وہنر کو سراہا اور مسلمانوں کو ترقی کے اس راستے پر چلنے کی تلقین کی۔ اقبالؒؒ ایک درد ،دل سوز، دوراندیش اور فکر قومیت رکھنے والی شخصیت تھے۔ جب وہ مسلم نوجوانوں کو غفلت کی نیند سوئے ہوئے دیکھتے تو ان کے مستقبل کے لیے پریشانی میں مبتلا ہو جاتے۔ ان کے اشعار نوجوانوں کی اصلاح اور شعور کی بیداری کے لیے تھے۔ شاعر مشرق عقاب کی ساری خوبیاں مسلم جوانوں میں دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کی شاعری کا مسلم نوجوانوں پر ایسا سحر انگیز اثر ہوا کہ وہ جوش، ولولے، ہمت، حوصلے کے ساتھ الگ ریاست کے مطالبے کےلئے ا±ٹھ کھڑے ہوئے اور ایسے سرگرم ہوئے کہ ایک الگ وطن پاکستان حاصل کر کے ہی دم لیا۔ اقبالؒؒ داغ دہلوی جیسے شاعر کے ابتدا میں شاگرد رہے لیکن انکا مقام تمام شعرا کرام سے افضل ہے کیونکہ وہ ایسے شاعر ہیں جنہوں نے انسانیت کو فلاح کا راستہ دکھایا۔ اقبالؒؒ جیسا شاعر صدیوں میں پیدا ہوتا ہے۔ وہ نہ صرف ایک فلسفی شاعر تھے بلکہ انکی شاعری عملی زندگی میں انسانیت کو جدوجہد کیلئے تیار کرتی ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو جگانے کیلئے شاعری کا انتخاب کیا انکا فلسفہ خودی حقیقت میں قرآن کی تعلیم کا مظہر ہے ۔ وہ پاکستانی قوم اور پورے عالم اسلام کیلئے ایک سرمایہ حیات ہیں۔ اقبالؒؒ کی فکر نے پاکستان ہمیں دیا ہے۔