کالم

اقبال ؒنے امت مسلمہ کو عالمگیریت کا درس دیا

riaz chu

علامہ اقبالؒؒ ا±مت اسلامیہ کے اتحاد میں مغربی تصورِ قومیت کو نہایت تباہ کن خیال کرتے ہیں۔ان کے ہاں کارواں سے مراد مسلمانوں کی عظمت گزشتہ ہے وہ کہتے ہیں کہ رنگ، نسل، وطن، ذات اور برادری اسلامی اتحاد قائم کرنے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ انہوں نے امت کوعالمگیریت کادرس دیا۔ ا±مت اسلامیہ کا اتحاد وحدت مذہب و تمدن پر قائم ہے۔علامہ اقبالؒؒ جس قومیت کے قائل ہیں، اس کا دائرہ اسلام کے اندر ہے اور اس کی بنیاد وہ دینی معتقدات پر رکھتے ہیں۔ لہٰذا وہ کہتے ہیں
قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں، تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں، محفلِ انجم بھی نہیں
آج کے جدید مغربی سیاسی افکار میں وطنیت اور قومیت قریب قریب ہم معنی ہیں۔ اقبالؒؒ نے وطنیت کے سیاسی تصور کو جس بناءپر رد کیا تھا وہی وجہ مغربی نظریہ قومیت سے ان کی بدظنی کی بنیاد بنی ان کا خیال تھا کہ قومیت کی ایک سیاسی نظا م کی حیثیت قطعاً غیر انسانی اقدار پر مشتمل ہے۔ اور اس کی بنیاد پر ایک انسانی گروہ دوسرے انسانی گروہ سے کٹ کر رہ جاتا ہے۔ اور بلا وجہ تنازعات کی بناءپڑتی ہے۔ جو بعض اوقات قیمتی انسانی جانوں کے اتلاف اور بلا خیز تباہی پر منتج ہوتی ہے۔ اسی نظام کو انہوں نے دنیائے اسلام کے لیے خاص طور پر ایک نہایت مہلک مغربی حربے کی حیثیت سے دیکھا اور جب ترکوں کے خلاف عرب ممالک نے انگریزوں کی مدد کی تو انہیں یقین ہو گیا کہ وطنیت اور قومیت کے مغربی تصورات مسلمانوں کے لیے زہر قاتل سے زیادہ نقصان ثابت ہو رہے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے قومیت کے مغربی تصور کے مقابلہ میں ملت اسلامیہ کا تصور پیش کیااور یہ ثابت کیا کہ مسلمانان ِ عالم کے لیے بنیادی نظریات اور اعتقادات کی رو سے ایک وسیع تر ملت کا تصور ہی درست ہے۔ اور قومیت کے مغربی نظریہ ہمیں بحیثیت ملت ان کی تباہی کے بے شمار امکانات پوشیدہ ہیں۔ارادی طور پر ان پر عمل پیرا ہونا تاریکی کی جانب راغب ہونے کے مترادف ہے۔عالمی مجلس بیداری فکراقبالؒ کی ادبی نشست میں پروفیسرڈاکٹراسحاق منصوری نے”ایک ہوں مسلم "کے عنوان سے اپنے مکالے میں مذکورہ مصرعے والی نظم”خضرراہ”کاتفصیلی تعارف کرایا۔انہوں نے کہاکہ اقبالؒ کواسی طرح سمجھناچاہیے جس طرح اقبالؒ چاہتے تھے۔یہ نظم1922میں لکھی گئی اورآج ایک سوسال گزرنے کے باوجودیہ نظم اپنے موادکے اعتبارسے برموقع و برمحل ہے۔اس مصرعے میں "ایک ہوں مسلم”اور”حرم کی پاسبانی”کی تراکیب مختلف معانی میں کلام اقبالؒ میں متعددباراستعمال ہوئی ہیں اوریہ موضوعات کل مواداقبالؒ میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اقبالؒ نے مغربی نظام جمہوریت پرسخت تنقید کی ہے اورنظام شوراءیت کوپسندکیاہے۔ سلطنت عثمانیہ کے اختتام پربرطانوی وزیرنے بہت متکبرانہ الفاظ کہے تھے،جس کے کچھ ہی عرصے بعددوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں جس ریاست میں سورج غروب نہیں ہوتاتھاوہاں اب ساراساراسال عوام الناس سورج کامنہ دیکھنے کوترستے ہیں۔ 1974کی اسلامی سربراہ کانفرنس اتحادامت کی طرف ایک بہت بڑاقدم تھا۔ اقبالؒ کے ہاں بہت تنوع ہے اور اقبالؒ اپنے فکروفلسفہ کے نتیجے میں وہیں پہنچے جہاں وحی الہی پہنچاناچاہتی تھی۔ ایک حدیث نبویکے مطابق مسلمان ایک جسم کی مانندہیں چنانچہ امت مسلمہ کوآج کی زبوں حالی سے اتحاد کی برکت ہی نکال سکتی ہے۔اقبالؒ مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی واپسی چاہتے تھے۔
علامہ اقبالؒؒ مسلمانوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ رنگ و خون کے بتوں کو توڑ کر ایک ملّت کی شکل میں متحد ہوجائیں۔ کیونکہ یہی ایک صورت ہے جس کے ذریعے ایک زندہ قوم کی حیثیت سے اپنا وجود برقرار رکھ سکتے ہیں۔ ملک، قوم، نسل اور وطن کی مصنوعی حدبندیوں نے نوعِ انسانی کا شیرازہ منتشر کرکے رکھ دیا ہے اور اس کا علاج سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ اسلامی معاشرے کے تصور کو رائج کیا جائے اور کم از کم مسلمان خود کو اسی معاشرے کا حصہ بنا لیں
یہی مقصودِ فطرت ہے ، یہی رمز مسلمانی
ا±خوت کی جہانگیری، محبت کی فراوانی
اقبالؒؒ کا تصور ِ ملت ایک انقلابی نعرہ یا جذباتی فیصلہ نہیں جسے اقبالؒؒ کے کلام میں دوامی حیثیت حاصل نہ ہو۔اور نہ ہی اقبالؒؒ ملت کے اس تصور کا خالق ہے۔ جب اقبالؒؒ کے ذہن میں ملت کا تصور ا±بھرا۔اس وقت دنیائے اسلام کی حالت ایک بیمار جسم کی سی تھی۔جنگ ِ عظیم اوّل کے بعد مسلم ریاستیں حقیقی معنوں میں آزاد اور خودمختار ریاستیں نہ تھیں۔ترکی کی حالت ایک م±ڑے ت±ڑے تاش کے پتے کی سی تھی۔ایران کے شمالی حصوں پر روس اور جنوبی حصوں پر برطانیہ کی حکمرانی تھی۔افریقہ اور مصر پریورپی اقوام قابض تھیں۔افغانستان کے والی یوں تو امیر کہلاتے تھے ،مگر ان کی حیثیت وظیفہ خوار اور نوابین ِ اودھ سے زیادہ نہ تھی۔انڈونیشیا ولندیزیوں کے زیر سایہ سیاسی بیداری سے بے خبر تجارتی کاموں سے زیادہ مصروف تھااور ہند میں مسلمان اقلیتوں کی زندگی بسر کررہے تھے۔اس حالت میں اقبالؒؒ کا تصورِ ملت محض انقلابی نعرہ نہیں بلکہ ایک تہذیبی تاریخ کا حامل ہے۔اور وطن دوستی کے شیدائی اقبالؒؒ کے دیکھا کہ اقوام عالم وطن پرستی کے بھیس میں دوسری اقوام پر ظلم کررہی ہیں۔علامہ اقبالؒؒ کے عمرانی اور سیاسی افکار کے مطالعہ سے ہم جس نتیجہ پر پہنچتے ہیں وہ ہ ہے کہ علامہ اقبالؒؒ مغربی جمہوریت کو اس کے سیکولر اور مادر پدر آزاد ہونے کی وجہ سے ناپسند کرتے تھے مگر جمہوری روح جس میں حریت فکر اور آزادی رائے عام ہے کو قبول کرتے تھے۔ وہ چاھتے تھے کہ مسلمانوں میں نہ تو سیکولر جمہوری آئے نہ لبرل ازم کے نام پر بے راہ روی پیدا ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri