اس میں دو آراءنہیں کہ آئین پاکستان اقلیتوں کے حقوق کی مکمل ضمانت دیتا ہے،دلچسپ یہ ہے کہ خود پاکستان کا قیام بھی متحدہ ہندوستان میں مسلم اقلیت کے حقوق کے تحفظ کےلئے عمل میں لایا گیا، اس سلسلے میں قائداعظم کا طرزعمل ہمارے لیے مشعل راہ ہے، مثلا وہ وقت یاد کرنےکے قابل ہے جب محمد علی جناح اسمبلی میں تقریر کررہے تھے اور اسمبلی کی صدارت ہندو شخصیت جوگندرناتھ منڈل نے کی یہ وہی جوگندرناتھ منڈل تھے جو بعدازاں پاکستان کے وزیر قانون کے منصب پر فائز ہوئے، پاکستان میں اقلیتوں کے اعلی منصب پر پہنچنے کی ایک اور نمایاں مثال مسیحی جج اے آرکارئلنس ہیں جو پاکستان کے چیف جسٹس کے عہدے تک پہنچے، یہ بھی ہمیں نہیں بھولنا چاہے ہندو جج رانا بھگوان داس بھی پاکستان کے چیف جسٹس رہے، ایک اور مسیحی جمشید رحمت اللہ ہائی کورٹ کے جج بنے، پاکستان کو اعزاز حاصل ہے کہ اس کی قومی اور صوبائی اسمبلیاں حتی کہ سینٹ میں بھی اقلیتوں کےلئے نشستیں مختص ہیں، قابل زکر یہ ہے کہ ہمارے اقلیتی اراکین اسمبلی بنا الیکشن لڑے بھی ایوان میں جاکر اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں، آئین کے آرٹیکل 54 کے کلاز 4 کے مطابق قومی اسمبلی میں اقلیتوں کی 10 نشستیں جبکہ صوبائی اسمبلی اورسینٹ کےلئے بھی اقلیتوں کی نشتیں مختص ہیں، وطن عزیز میں اقلتیوں کے حقوق کے حوالے سے مشعل راہ قائداعظم محمد علی جناح کی 11 اگست1947 کی تقریر ہے جس میں بانی پاکستان نے دوٹوک انداز میں بتایا کہ مملکت خداداد میں غیر مسلموں کو کیا حقوق حاصل ہوں گے، اسی لیے پاکستان میں رہنے والی اقلیتیں ہر سال گیارہ اگست کو اقلیتوں کا دن مناتی ہیں، تاریخی تقریر میں محمد علی جناح نے واضح طور پر کہا تھا کہ ”آپ سب آزاد ہیں، آپ آزاد ہیں، اپنے مندروں میں جانے کےلئے یا کسی عبادت گاہ میں جانے کےلئے،پاکستان کی ریاست میں آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا عقیدے سے ہو،اس کا ہمارے بنیادی دستور سے کوئی تعلق نہیں کہ ہم سب شہری ہیں،برابر کے شہری ہیں اس ریاست کے ” آئین پاکستان کا اقلتیوں کے حقوق بارے مشاہدہ کریں تو آرٹیکل 20 اے کے مطابق پاکستانی شہری کوئی بھی مذہب اختیار کرسکتا ہے،اس پر عمل کرسکتا ہے اور اس کی تبلیغ کرسکتا ہے،آئین کے آرٹیکل 20 بی کے مطابق ہر شہری اپنے مذہبی ادارے قائم کرسکتاہے، یقینااس تلخ حقیقت کو تسلیم کیے جانا ضروری ہے کہ پاکستان کے طول وعرض میں اقلیتوں کے خلاف کبھی ناخوشگوار واقعات بھی رونما ہوتے ہیں مثلا ماضی میں اگر گوجرہ کا المناک واقعہ ہوا تو حال میں ہی جڑانوالہ میں جو کچھ کیا گا وہ ہرباضمیر پاکستانی کا سر شرم سے جھکا دینے کےلئے کافی ہے۔ یہ سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ ہر معاشرے کی طرح ہمارے ہاں بھی ایسے انتہاپسند افراد کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں جو انفرادی اور گروہی مفادات کے حصول کےلئے اقلیتیں ہی نہیں مسلمانوں کی املاک کو نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیں کرتے، کون جھٹلاسکتا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان اور ان کی ہم خیال انتہاپسند جماعتوں نے جتنا جانی ومالی نقصان مسلمانوں کا کیا غیر مسلموں کو نہیں پہنچایا، اقلیتوں کے خلاف پرتشدد واقعات عصر حاضر کے ہر ترقی یافتہ ملک میں رونما ہوتے ہیں، مثلا امریکہ میں رنگت کی بنیاد پر کالوں کے ساتھ جو کچھ کیا جاتا ہے وہ دنیا کی اکلوتی سپرپاور ہونے کا دعویٰ کرنے والی ریاست کو شرمندہ کرنے کےلئے کافی ہے، ادھر برطانیہ میں جنوبی ایشیائی افراد کےلئے مقامی نسل پرست افراد کا رویہ ہرگز باعث اطمینان نہیں، حال ہی میں سویڈن میں ایک سے زائد مرتبہ قرآن حکیم کی بے حرمتی کے واقعات کو کون فراموش کرسکا ہے، حد تو یہ ہے قرآن حکیم کی بے حرمتی کرنے کے سانحات اب ہالینڈ میں بھی رونما ہورہے ہیں، ایسا نہیں کہ مغربی ممالک میں مسلمانوں کےخلاف ہونےوالے اقدمات کو بنیاد بنا کر پاکستان میں سب اچھا کہہ دیا جائے، مگر سچ یہ بھی ہے کہ پاکستان بطور ریاست اپنے ہاں بسنے والی اقلیتوں کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کےلئے کوشاں ہے، سانحہ جڑانولہ پر جس انداز میں ملک کے ہر مکتبہ فکر نے اظہار ناپسندیدگی کیا یقینا وہ حوصلہ افزا ہے، اس پر پوری قوم کا اتفاق ہے کہ اقلیتوں کے خلاف مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد کے خلاف قانون یوں حرکت میں آئے کہ وہ بالاآخر کڑی سے کڑی سزا کے مستحق قرار پائیں، اگر مگر کے باوجود سچ یہی ہے کہ پاکستان تیزی کے ساتھ تبدیل ہورہا ہے، پاکستانی معاشرہ ماضی سے کہیں بڑھ کر اپنی روایات اور اقدار بارے حساس ہوچکا، ملکی تاریخ سے شناسا ہر شخص گواہی دے گا کہ گزرے ماہ وسال میں خواتین، بچوں، بزرگوں اور اقلیتوں کےخلاف جرائم نمایاں انداز میں قومی میڈیا کی زینت نہیں بنا کرتے تھے مگر آج ایسا نہیں، سوشل میڈیا کی توسط سے عام پاکستانی معاشرتی خرابیوں کی نشاندہی کرنے کےلئے متحرک ہوچکا یہی وجہ ہے حکومت ایسے تمام افراد کے خلاف بھرپور کاروائی کرنے کےلئے پرعزم ہے جو معاشرے کے کمزور طبقات کے خلاف مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں، ماضی اورحال کو دیکھتے ہوئے یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ مستقبل قریب میں ارض وطن میں ہماری اقلیتی برداری زیادہ محفوظ، خوشحال اور مطمئن ہوگی۔