کالم

البدر اور الشمس کیا ہیں؟

البدر اور الشمس بنگالی اسلام پسند نوجوانوں کی تنظیمیں تھیں۔ ان تنظیموں کے بنگالی نوجوانوں نے اپنے ملک پاکستان کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کی تھیں۔البدر جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم” اسلامی جمعیت طلبہ“ جس کا بنگالی نام ’‘اسلامی چھاترو شنگھو“ ہے کہ نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ الشمس دینی مدارس کے طلبہ، مسلم لیگ اور نظام اسلام پارٹی کے کچھ افراد پر مشتمل تھی۔ ان تنظیموں نے پاکستان کو بچانے کے لیے بنگالی قوم پرستوں اور بھارت کی بنائی ہوئی مکتی باہمی کے ظلم ستم کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان فوج کا ساتھ دیا تھا۔ مکتی باہنی جس کو بھارت نے پاکستان کو توڑنے کے لئے بنگالی قومیت کی بنیاد پر فوجی ٹرینگ دی تھی۔ اس میں بھارتی فوج کے سپاہیوں کو بھی شامل کیا تھا۔ مکتی باہنی نے اُردو بولنے والے مشرقی پاکستان کے بہاریوں شہریوں پر ظلم ستم کے پہاڑ توڑے تھے۔ وہ اتنی مدت گزرنے کے بعد، اب بھی کئی نسلوں سے کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ مکتی باہنی والے ہر اُردو بولنے والے کو مغربی پاکستان کہہ کر بڑے پیمانے پرظلم و ستم کا نشانہ بناتے تھے۔ اس کا ذکر ایک بنگالی سبھاش چندر بوس کی پوتی، شرمیلا بوس نے اپنی کتاب”ڈیڈ ریکنگ“ میں تفصیلی ذکر کیا ہے۔سلیم منصور خالد محقق ومورخ ، حالیہ نائب مدیر ماہانہ رسالہ ترجمان القرآن لاہور ہیں ۔ سلیم منصور خالد نے 1985ءمیں بنگلہ دیش کا تفصیلی دورہ کر کے البدر کتاب تصنیف کی تھی۔ ایک انٹرویوں میں بتایا تھا کہ ” اسلامی چھاترو شنگھو“ کی شوریٰ کے فیصلہ کے مطابق،پاکستان کے تحفظ کے لیے پاک فوج سے ٹرینیگ لے کر، ان کے ساتھ مل کرمکتی باہنی اور انڈیا کی فوج سے لڑیں گے۔ ایک دلچسب واقعہ یہاں بیان کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ مشرقی پاکستان میں تعینات میجر ریاض انڈیپنڈنٹ اُردو کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب وہ اسلامی جمعیت طلبہ کے رضاکاروں کوبھرتی کر رہے تھے تو ان کا جسمانی ٹیسٹ لیتے تھے۔اس وقت ایک چھوٹے قد کا نو عمر لڑکا ایڑیوں کے بل کھڑا ہو گیا۔ کہا کہ میں بڑا ہو گیا ہوں۔اس لڑکے جذبے نے مجھے” غزوہ بدر “ کی یاد تازہ کرا دی۔ جب دو نو عمر صحابیوں ؓ نے ایسے ہی جذبے کا مظاہرہ کیاتھا۔یوں میں نے طلبہ رضا کاروں کی اس تنظیم کا نام” البدر“ رکھا تھا۔اپنے ملک پاکستان کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے اسلامی جذبے سے سرشار ”البدر“ کے رضا کاروں نے قوم پرست مکتی باہنی اور بھارت فوج کے خلاف اگلی صفوں میں جا کر پاکستانی فوج کے شانہ بشانہ جنگ لڑی۔ اس کا اعتراف پاک فوج کے اہلکار نے اپنے انٹرویو میں کیا۔کرنل صدیق سالک نے اپنی کتاب” میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا“ میں لکھا ہے کہ البدر اور الشمس کے رضاکاروں نے پاکستان کی سالمیت کے لیے اپنی جانیں وقف کر رکھیں تھیں۔اسلامی چھاترو شنگھو کے رضاکاروں نے کہا تھا کہ ہم نے ہتھیار کسی مالی فائدے کے لیے نہیں اُٹھائے ۔ بلکہ اپنے بنیادی حق، اپنے ملک پاکستان کو بچانے کے لیے اُٹھا ئے ہیں۔16 دسمبر 1971ءکو تعداد میں بہت کم ہونے کیوجہ سے بھاتی فوج سے شکست کھائی تھی۔ پاکستانی فوج نے ڈھاکہ پلٹن میدان میں ہتھیار ڈالے تھے۔ اس کے بعد مکتی باہنی نے اسلام اور اپنے ملک پاکستان کو بچانے والے ان رضاکاروں کو چن چن کر قتل کیا۔ قتل کرنے کے کچھ طریقے ایسے تھے کہ انسان کے جسم کو کانٹے چھبنے لکھتے ہیں ۔” البدر “کے مصنف اپنی کتاب میںدو ایسے واقعات کا ذکر کرتے ہیں۔ایک میدان کے اندر ایک البدر رضاکار کو پکڑ کرلایا جا تا ہے۔میدان میں سیکڑوں مکتی باہنی کے غنڈے اسلحہ اُٹھائے دائرے کی شکل میں موجود ہیں۔البدر کے لڑے کو کہا جاتا ہے کہ نعرہ لگاﺅ” جیے بنگلہ دیش۔لڑکا انکار کرتا ہے اور نعرہ لگاتا ہے۔ جیے اسلام۔جیے پاکستان۔اس سے ذبردستی گھڑا کھودوایا جاتا ہے۔ اس کے ہاتھ سے اس گھڑے میں کانٹے ڈالوائے جاتے ہیں۔ اسے پھر کہا جاتا ہے۔ نعرہ لگاﺅ۔ جیے بنگلہ دیش۔ اس کے جواب میں وہ وہی نعرہ جیے اسلام۔ جیے پاکستان کا نعرہ لگا تاہے۔ ظالم مکتی باہنی کا ٹولہ اسے پکڑ کر گھڑے میں پھینک دیتے ہیں۔اسکے بعدگھڑے کو مٹی سے بھر دیتے ہیں۔اسی طرح ایک اور البدر رضاکار کو مکتی باہنی کے غنڈے پکڑ لاتے ہیں۔ نہ جانے ایسے اور کتنے واقعات ہوئے ہونگے جو رپورٹ نہیں ہو سکے ہوں ۔ملک کوبچانے کے خاطر جانیں قربان کرنے والوں کو زندہ قومیں یاد رکھتی ہیں۔اللہ ہمیں بھی اسکی توفیق نصیب کرے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri