ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی انتخاب جیت جانے میں مجھے تو رتی برابر شبہ نہیں تھا، وجہ میرا یہ تاثر ہے کہ ؛ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی فطرت اور امریکی مزاج کا حقیقی نمائندہ نظر آتا ہے۔وہی سرمایہ پرستی ، منہ پر بات کر دینا، جو جی میں آئے کر گزرنا، نئی بات سوچنا، نت نئے راستے تلاش کرنا، چٹانوں میں سے سونا اور سونے سے خواب نکالنا ،خواب کی تعبیر اور اپنی تقدیر خود تراشنا، علم اور تحقیق اور تجربی عقل پر مدار کرنا ،کوشش اور سخت محنت کر کے سفید فام برتری کے فریب کی مریضانہ نفسیات سے چھٹکارا پانا ،یہ سب کچھ ٹرمپ کے شخصی اوصاف کا حصہ نظر آتا رہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ مجھے گزشتہ دو برس پہلے سے جو بائیڈن کے طرز حکومت اور اقدامات سے ایسا لگنے لگا تھا کہ جیسے جو بائیڈن ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے راستہ ہموار کر رہا ہو۔رہی سہی کسر ایلان مسک نے ٹویٹر کا سوشل میڈیا پلیٹ فارم خرید کر اور اسے ایکس بنا کر پوری کردی۔ ایک پاکستانی کے طور پر میں سمجھ سکتا ہوں کہ کمزور ، بےوقوف اور عقلی و عملی طور پر انتہاپسندوں کے ہاتھوں یرغمال حکومتیں سوشل میڈیا اور خاص طور پر ٹویٹر سے خائف اور نالاں رہتی ہیں۔ جو بائیڈن انتظامیہ نے تو ٹویٹر پر خاص طور پر دھونس اور تصرف کا جال بچھا رکھا تھا اور مقصد صرف سچ اور بروقت خبر یا ردعمل کو چھپا کر رکھنے کی کوشش تھی۔ایلان مسک نے جو بائیڈن انتظامیہ کے ہاتھوں سے ایک بڑا اور موثر ہتھیار چھین کر انہیں ان کے اصل سراپے میں واپس لانے کی بنیاد فراہم کر دی تھی۔یہی وجہ ہے کہ میں ٹرمپ کی کامیابی میں ایلان مسک کو بھی حصے دار خیال کرتا ہوں۔اور اب”امریکہ امریکیوں کیلئے“کے پیغام کےساتھ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی ایک مثبت اور نتیجہ خیز تبدیلی محسوس ہو رہی ہے ۔ دنیا میں امن ، شائستگی ، انصاف اور انسان دوستی کے عدم یا وجود کیلئے امریکی رویہ اور عمل اہمیت اور معنویت رکھتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ صرف ایک صدارتی انتخاب ہی نہیں جیتا ، اس نے امریکہ کے جمے جمائے اور تجربہ کار جدل پرستوں کو شکست بھی دی ہے۔جوبائیڈن تھا تو ڈیمو کریٹک پارٹی کا نمائندہ لیکن امریکی اسٹیبلشمنٹ کیلئے ہر بات پر اثبات میں سر ہلا دینے والا بوڑھا ثابت ہو رہا تھا۔ وہ امریکہ کے گزشتہ صدی کی دوسری عالمی جنگ عظیم کے موقع پر اختیار کئے گئے عالمی کردار سے آگے نکلنے کا کوئی تصور نہیں رکھتا تھا۔ابھی تک امریکی دفاعی دانشور اور ماہرین گزشتہ صدی کی دوسری عالمی جنگ کے بعد والے امریکی سینے پر ہی ماتم کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔روس پر دباو اور درپردہ مخاصمت ،جسے پہلے سرد جنگ کہا جاتا تھا ،اب جب سے عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلیوں کی طرف توجہ مبذول ہوئی ہے تو سرد جنگ کی ترکیب میں سے "سرد” کو ہٹا دیا گیا اور شرارت یعنی جنگ کا سلسلہ جاری رکھا گیا ہے۔ روس کے ساتھ امریکہ کو کسی نہ کسی افغانستان یا یوکرین کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔دراصل دوسری جنگ عظیم کے بعد ملنے والی سرداری کے خمار سے نکلنا امریکی اسٹیبلشمنٹ کیلئے ایک مشکل مرحلہ تھا۔ دوسری طرف مشرق وسطی میں اسرائیل کے ذریعے تنازعے اور تباہی کی مستقل پالیسی پر عمل ، اب اس میں چین کو مسلسل منہ چڑاتے رہنا بھی شامل ہو چکا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کو چین سے یہ تو ضرور سیکھنا ہوگا کہ عالمی تنازعات اور جنگوں کا حصہ بنے بغیر کس طرح ایک ملک عالمی طاقت بن سکتا ہے ۔کیا چینی مصنوعات پر ٹیکس بڑھا کر ان کے بغیر گزارا کیا جاسکتا ہے؟ خاص طور ایسی صورت میں ،جب کہ بہت ساری امریکی مصنوعات بھی چین میں بن رہی ہوں؟ دراصل چین سمجھ چکا ہے کہ؛ آگ جلائے اور آگ لگائے بغیر بھی مطلوبہ حدت پیدا کی جا سکتی ہے ۔اب یہی بات ٹرمپ کے امریکہ کو سمجھنی ہے۔ یاد رکھنا چاہیئے کہ؛ جنگیں اگر ایک طرف موت اور تباہی تقسیم کرتی ہیں ،تو دوسری طرف انواع و اقسام کا اسلحہ بنانے اور متحارب فریقوں کو بیچنے والوں کے لیے منافع کا باعث بھی بنتی ہیں۔ کوئی ملک ایسے خوں ریز منافع کو بنیاد بنا کر کب تک اپنے مقام و مرتبے کو قائم رکھ سکتا ہے۔مجھے لگتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ میں ایک ارب پتی سرمایہ دار، ایک زیرک سیاستدان ، سائنس اور ٹیکنالوجی کی اہمیت ، افادیت اور فوقیت پر ایمان رکھنے والے ، خطرہ مول لے کر نئی حکمت عملی مرتب کرنے والے اور قدرے زبان دراز صدر کے طور پر یہ ہمت اور صلاحیت موجود ہوگی کہ وہ امریکہ کو جنگوں کی معیشت سے نجات دلا کر امریکی معیشت کی بنیاد سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی اور برتری پر استوار کر سکے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے نیٹو ممالک کے دفاعی اتحاد اور حصار میں امریکہ کے حد سے بڑھتے ہوئے اخرجات پر شدید تحفظات سامنے آتے رہے ہیں۔ قیاس چاہتا ہے کہ عام امریکیوں کے ساتھ ساتھ ایک دفعہ صدارتی مدت پوری کر کے ، ایک ٹرم کے وقفے کے بعد دوبارہ بھاری اکثریت سے صدر منتخب ہونے والے ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے یہ بات سمجھنا مشکل نہیں رہا کہ نیٹو ممالک کو روسی حملے کے خطرے کے امکان اور آئیڈیئے کو مزید بیچنا اور خریدنا اب امریکہ کے لیے ایک بے سود حرکت اور نقصان دہ حماقت بن چکی ہے ۔روس سے تیل اور گیس کی سپلائی خرید کر منفی درجہ حرارت کا مقابلہ کرنے والا یورپ روسی حملے کے امکان کو ایک ”پراڈکٹ“بنا کر کب تک بیچتا رہے گا۔شاید یہی وجہ ہے کہ اپنی انتخابی مہم میں ڈونلڈ ٹرمپ نے صاف اور واضح طور پر اپنے اس ارادے اور عزم کا اظہار کیا تھا کہ امریکہ نیٹو کے ان رکن ممالک کا دفاع نہیں کرے گا، جنہوں نے نیٹو اتحاد کیلئے اپنے حصے کی مالی ذمہ داریاں پوری نہیں کی ہوں گی۔ٹرمپ نے اسی پر بس نہیں کیا ، بلکہ؛ ایک طرح سے گول گپے میں لیموں نچوڑتے ہوئے ساتھ کیرولائنا کے ایک انتخابی جلسے میں یہ تک کہہ دیا تھا کہ نیٹو اتحاد کے لیے اپنی مالی ذمہ داریاں پوری نہ کرنے والے ممالک کے حوالے سے وہ روس کی طرف سے کچھ بھی کر گزرنے کی حوصلہ افزائی کریں گے ۔تو اس پس منظر کے ساتھ نیٹو ممالک کو بھی شاید ہو سکتا ہے کہ اب کچھ عقل آ ہی جائے ،جو امریکہ کو خوامخواہ کا سردار بنا کر”ناٹی ممالک“ بنے بیٹھے تھے ۔سرمایہ پرست امریکہ کا اپنے سرمایے کو گلی کوچے کی بدمعاشی اور رسہ گیری سے الگ کرنے پر آمادہ ہونا دنیا کے لیے ایک اچھی خبر تو ہے ، لیکن کیا مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ خر دماغ سابق اور حاضر سروس جرنیلوں کو فیصلہ سازی کے عمل سے الگ کرنے میں کامیاب ہو سکے گا؟ اور کیا ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے پینٹاگون کے اہلکاروں کو پینٹ پہننے کی بجائے نیکر پہنانے کا بندوست کرنا سہل ہو گا؟ڈونلڈ ٹرمپ کو چاہیئے کہ اپنے تازہ صدارتی دورانیئے میں امریکہ کی علم دوستی اور سائنسی تحقیق اور تسخیر عالم کی طرف توجہ میں اضافہ کرنےکا اہتمام کرتے ہوئے؛ امریکہ کی طرف سے جھونپڑی کا ٹاٹ اٹھا کر کبھی روس، کبھی چین اور کبھی ایران کو طعنے دینے کے کلچر کا خاتمہ کرے ،وجہ یہ ہے کہ اب دنیا کو تباہی کے عوض تعمیر اور جنگ کی بجائے امن کی ضرورت ہے ۔جھونپڑی اور ٹاٹ سے دھیان سیدھا اپنے ملک کی طرف چلا گیا ہے ۔اپنے ہم وطنوں کو یہ یقین دلاتے ہوئے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کا صدر منتخب ہوا ہے ،پاکستان کا نہیں ۔لہذا ؛ اس بات کو ذہن میں راسخ کر لینا چاہیئے کہ ٹرمپ کے جیتنے سے پاکستان پر کسی قسم کے انوکھے اثرات مرتب نہیں ہونگے ۔ پاکستان کی تقدیر کو صرف اور صرف پاکستانی بدل سکتے ہیں،امریکہ یا دیگر ممالک نہیں۔ اب جہاں ایک طرف امریکہ اپنے جینئس اور سپر جینئس لوگوں کا تحفظ کرنے کا عہد کر رہا ہے ، تو دوسری طرف پاکستان، حسب سابق ایسے تمام لوگوں کو ملک سے باہر جانے کی ترغیب دیتا رہے گا۔