کالم

امریکہ کی اجارہ داری اورایران

انتخابی منشور۔

امریکہ دنیا پر اپنی بالا دستی اور واحدسُپر پاور ہونیکا مقام برقرار رکھنے کےلئے ہاتھ پاوں مار رہا ہے ۔ اسوقت امریکہ کے تعلقات چین اور روس دونوں سے کشیدہ ہیں۔ بلاشبہ امریکہ اب بھی ایک بڑی معاشی اور فوجی طاقت ہے لیکن چین اسکے ہم پلّہ معاشی طاقت بن چکا ہے امریکی حکمران سر توڑ کوششوں میں مصروف ہیں کہ کسی طرح چین کی معاشی طاقت کو محدود کیا جائے۔ اس پر کسی قدر تجارتی پابندیاں عائد کرکے اور اسکے ارد گرد کے ممالک کو اپنا حلیف بنا کر۔ امریکہ کو چین سے اصل تکلیف یہ ہے کہ وہ اعلیٰ ترین ٹیکنالوجی میں اسکا ہم پلہ بنتا جارہا ہے۔ امریکہ صنعتی پیداوار میں بہت پہلے چین سے پیچھے رہ چکا ہے۔ اسے کم درجہ یا درمیانہ ٹیکنالوجی والی اشیا تیار کرنے میں چین سے پیچھے رہ جانے کی فکر نہیں تھی۔ دنیا میں امریکہ کی برتری سائنس اور ٹیکنالوجی میں اعلیٰ تحقیق کے باعث ہے۔ امریکہ جدید ترین ٹیکنالوجی ایجاد کرکے اسے مہنگے داموں بیچ کر ڈھیروں دولت اکٹھی کرتا ہے۔مثال کے طور پر اسمارٹ فونز میں جودو سافٹ وئیرز انڈرائیڈ اور ایپل استعمال ہوتے ہیں وہ امریکی کمپنیاں بناتی ہیں اور ساری دنیا سے مال سمیٹتی ہیں ۔ کھیل اس دن بگڑا جب چند برس پہلے چین نے ٹیلی مواصلات میں ففتھ جنریشن (فائیو جی) ٹیکنالوجی میں پہل کا مظاہرہ کیا۔ امریکہ میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔چینی کمپنی ہوآوے نے فائیو جی میں اپنی سبقت ثابت کردی۔ امریکی ریاست ہاتھ دھو کر اسکے پیچھے پڑ گئی۔ اس کمپنی کو امریکی سافٹ وئیر بیچنے پر پابندی لگا دی ۔ امریکہ کی بڑی پریشانی یہ ہے کہ چین اپنی ہائی ٹیکنالوجی کے ساتھ یورپ کی مالدار منڈی میں نہ آئے۔ چین اور یورپ کا ٹیکنالوجی میں لین دین اور اشتراک امریکہ کےلئے ایک ڈراﺅنا خواب بن چکا ہے۔ اگر ایسا ہوگیا تو امریکہ کی اُجارہ داری ختم ہونے اور اسکی آمدن کم ہونے لگے گی۔ امریکہ کا ایک روایتی طریقہ ہے کہ جب کسی ملک کو دباﺅمیں لانا ہو تو اسکے خلاف جمہوریت اور انسانی حقوق کے معاملات کو شد و مد سے اٹھانا شروع کردو۔ اصل مقصد اپنے ٹھوس سیاسی اور معاشی مفادات کا تحفظ اورفروغ ہوتا ہے لیکن ان پر اُصولوں کا پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔ مثلاً عرب ملکوں میں بدترین آمریت ہے‘ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عام ہیں لیکن وہ امریکہ کے اتحادی ہیں‘ اس سے اربوں ڈالر کا اسلحہ خریدتے ہیں‘ اسکے بینکوں‘ مالی اداروں میں کھربوں ڈالر جمع کرواتے ہیں اور اِن ملکوں میں امریکہ کے فوجی اڈے قائم ہیں اس لیے امریکہ مشرق وسطیٰ کے ممالک سے جمہوریت قائم کرنے اور انسانی حقوق کی پاسداری کے مطالبے نہیں کرتا۔
بہر حال‘ امریکہ کی مشکل یہ ہے کہ وہ چین سے کشمکش تو جاری رکھے گا لیکن محاذ آرائی کو ایک حد سے آگے نہیں بڑھاسکتا۔ اسکی کمپنیوں کا چین میں کھربوںڈالر کا سرمایہ لگا ہُوا ہے۔ چین نے ایک ہزار ارب ڈالر سے زیادہ امریکی کرنسی (ٹرژری بلز) خریدی ہوئی ہے جو وہ بیچنا شروع کردے تو ڈالر کی قدر کم ہوتی جائے گی ۔ چین ہر برس سینکڑوں ارب ڈالر کا سامان امریکہ کو فروخت کرتا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک حالیہ بیان میں روسی صدر ولادی میر پیوٹن کو قاتل (کلر) قرار دیا۔ اسکے احتجاج کے طور پر رُوس نے امریکہ سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا۔ رُوس کی معیشت امریکہ اور چین کے مقابلہ میں بہت چھوٹی ہے۔ آبادی کم ہے۔ صرف پندرہ کروڑ۔ البتہ اسکا رقبہ دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ہے جسکے باعث اسکی جغرافیائی‘ سیاسی‘ دفاعی اہمیت ہے۔رُوس چنداعلیٰ نوعیت کی ٹیکنالوجیز میں بہت ترقی یافتہ بھی ہے۔ ان میں خلائی ٹیکنالوجی‘ بائیو سائنس اور جنگی طیاروں اور میزائیل نظام شامل ہیں۔رُوس کا پرانامنصوبہ ہے کہ ایشیا اور یورپ کے براعظم جو ایک دوسرے سے زمینی طور پر جڑے ہوئے ہیں ان پر مشتمل ایک یوریشین اتحاد تشکیل دیا جائے ۔ یہ بات امریکہ کو کھٹکتی ہے۔سات سال پہلے رُوس نے یوکرائن میں اپنے پرانے علاقہ کریمیا کو بھی طاقت کے زور پرحاصل کرکے اُسے اپنے ملک میں شامل کرلیا تھا جس سے یورپ اور امریکہ سخت ناراض ہوئے ۔ اسوقت سے انہوں نے رُوس پر متعدد پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں۔امریکہ کی روس اور چین سے بیک وقت معاندانہ حکمت عملی کا ایک نتیجہ تو یہ نکلا ہے کہ رُوس، چین اورایران ایک دوسرے سے اشتراک بڑھا رہے ہیں۔ یوریشین اتحاد مزید وسیع ہونے کے قوی امکانات ہیں دوسری طرف ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے کہا کہ امریکی وعدے ایران کےلئے قابل بھروسہ نہیں امریکی پابندیوں کے مکمل خاتمے کے بعد ہی ایران جوہری معاہدے کی پاسداری پر واپس آئے گا۔ ایران نے اوباما دور میں امریکہ پر اعتماد کیا وعدوں کی پاسداری کی لیکن امریکہ نے اعتماد مجروح کیا۔ امریکی صرف کاغذات میں پابندیاں ختم کرنے کا کہتے ہیں عملی طور پر ایسا نہیں کرتے ان کا کہنا تھا کہ امریکہ پابندیاں ختم کرے ہم اس کی تصدیق کریں گے اگر حقیقتاً ایسا ہوا تو ایران جوہری معاہدے کا پابند ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے