عام انتخابات 2024 کے لیے انتخابی عمل کا باقاعدہ آغاز منگل سے ہوگیا ہے اورالیکشن کمیشن نے کاغذات نامزدگی کا اجرا شروع کردیا ہے۔ پاکستان الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری ایک اعلامیے کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے ممکنہ امیدوار آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لینے کےلئے 22 دسمبر 2023 تک کاغذات نامزدگی جمع کراسکتے ہیں۔ اعلامیے کے مطابق امیدواروں کی فہرست 23 دسمبر کو جاری کی جائے گی اور24 سے30 دسمبر تک کاغذات کی جانچ پڑتال کی جائے گی۔ کاغذات نامزدگی کے منظور یا مسترد ہونے کےخلاف اپیلیں تین جنوری 2024 تک دائر کی جاسکیں گی اور اپیلیٹ ٹریبونلز ان پر دس جنوری تک فیصلہ سنائیں گی۔ امیدواروں کی نظر ثانی شدہ فہرست گیارہ جنوری کو جاری کی جائے گی اور امیدوار بارہ جنوری تک اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے سکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن تیرہ جنوری کو سیاسی جماعتوں کو انتخابی نشانات جاری کرے گا، جبکہ آٹھ فروری کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔ اس ضمن میں الیکشن کمیشن نے ہدیات جاری کی ہیں کہ انتخابات میں حصہ لینے والے والے امیدواروں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ پاکستان کے شہری ہوں اور ان کی عمر 25 سال سے کم نہ ہو۔الیکشن کمیشن نے عام انتخابات میں حصہ لینے کے خواہش مند امیدواروں کے لیے منگل کو جو ہدایت نامہ جاری کیا، اس کے مطابق قومی اسمبلی کی نشست کےلے امیدوار کو ناقابل واپسی30ہزار روپے جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے20ہزار روپے بطور فیس جمع کروانا ہوں گے۔ امیدوار قومی اسمبلی کی نشست کےلئے پاکستان میں کسی بھی جگہ کا ووٹر ہوسکتا ہے جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشست کےلئے اس کا متعلقہ صوبے سے تعلق ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح قومی اسمبلی کےلئے خواتین کی مخصوص نشستوں پرامیدوار کا متعلقہ صوبے کا ووٹر ہونا بھی لازمی ہے۔ہدایت نامے میں انتخابی اخراجات سے متعلق کہا گیا کہ امیدوار یا تو کسی بھی شیڈول بینک میں ایک خصوصی اکاو¿نٹ کھولیں یا پہلے سے موجود بینک اکاو¿نٹ کی تفصیل کاغذات نامزدگی میں درج کریں۔ علاوہ ازیں امیدوار کو کاغذات نامزدگی کے ساتھ بینک اسٹیٹمنٹ بھی منسلک کرنا ہوگا۔الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ کاغذات نامزدگی کےساتھ گذشتہ تین سال کے انکم ٹیکس ریٹرن اور پاسپورٹ کی مکمل نقل بھی منسلک کریں۔کاغذات نامزدگی کے باقاعدہ اجراءسے کسی حد تک امید بندھ چلی ہے کہ اب عام انتخابات انشااللہ وقت پر ہونے جا رہے۔بدقسمتی سے گزشتہ چند ماہ کے اندر الیکشن کے حوالے سے جود ھول اڑائی گئی اورنوے دن میںعام انتخابات کرانے کے سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود الیکشن نہیں کرانے دیئے گئے،اس سے عام ابھی تک شش وپنج کا شکار ہے کہ جانے اب کیا ہوتا ہے۔ ادھر نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے ایک بار پھر یقین دلایا ہے کہ عام انتخابات 8فروری کو صاف شفاف ہوں گے، عام انتخابات کاانعقاد ایک آئینی ضرورت ہے،نتیجے پر کچھ نہیں کہا جا سکتا، انتخاباتی ماحول میں الزامات معمول کی بات ہے، سیاسی جماعتوں کے دعوو¿ں کا فیصلہ انتخابات میں عوام اپنے ووٹ کے ذریعے کرینگے، کو ئٹہ میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگوکرتے ہوئے نگراں وزیراعظم نے امید ظاہر کی کہ سکیورٹی کی صورتحال ٹھیک ہو جائے گی۔بلوچستان میں نگران وزیراعظم نے نگران وزیر اعلی بلوچستان اور دیگر کی موجودگی میں وزیر اعظم یوتھ سکلز ڈویلپمنٹ پروگرام اور الیکٹرانک پبلک پروکیورمنٹ پروگرام کا افتتاح کیا۔ اور کہا ہے کہ قوم کا سب سے قیمتی اثاثہ اس کے انسانی وسائل ہیں ،دوست ممالک آج بھی پاکستان سے افرادی قوت کی درآمد کو ترجیح دیتے ہیں،کوشش ہے کہ گوادر سے موسی خیل تک بچوں کو تربیت دی جائے تاکہ وہ لوگوں کے لئے مفید شہری کے طور پر سامنے آئیں۔انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ معاشرے میں زبان، مذہب اور نسل کے نام پر گروہ بنانے والے جواز پیش کرتے ہیں مگر جواز کوئی نہیں ہے، تشدد کو جواز بنانے اور آواز اٹھانے کےلئے آئین نے قومی و صوبائی اسمبلی کے الیکشنز لڑنے کی اجازت دی ہے۔آٹھ فروری کو الیکشن ہورہے ہیں، جس کیلئے تمام شہری کاغذات نامزدگی جمع کرواسکتے ہیں اور کسی پر کوئی پابندی نہیں ہے، وہاں سیاسی طور پر منتخب ہوکر جائیں اور پھر اپنے مسائل پر ایک فورم پر بھرپور انداز سے آواز اٹھائیں۔ حکومت کے پاس بہت ساری معلومات ہیں اور وہ قانون کے تحت میڈیا میں اظہار کی اجازت دینے یا نہ دینے کا استحقاق رکھتی ہے، میڈیا کو آزادی اظہار رائے بھی ایک قانون کے تحت ہی حاصل ہے ۔ پاکستان کا مستقبل روشن ہے۔ایک فعال جمہوریت ملک میں سیاسی استحکام لاتی ہے۔امید ہے کہ کاغزات نامزدگی مرحلہ آزادانہ طور پر طے ہونے دیا جائے۔الیکشن کمیشن اس ضمن الرٹ رہے تاکہ بلاوجہ کی الزام تراشی نہ ہو سکے۔
پاک روس تعلقات
روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے پاکستان اور روس کے تعلقات میں مثبت پیش رفت کی بات کی ہے جیساکہ انہوں نے کہاکہ یہ تعلقات واقعی دوستانہ ہیں۔ماسکو میں پاکستان کے سفارتخانے نے ان خیالات کا اظہار کیا جو روسی صدر نے پاکستان کے نئے سفیر خالد جمالی سے ملاقات کے دوران بیان کیے، جنہوں نے کریملن میں صدر کو اپنی اسناد پیش کیں۔ صدر پیوٹن نے یاد دلایا کہ اس سال روس اور پاکستان نے سفارتی تعلقات کے قیام کی 75ویں سالگرہ منائی۔ یہ تعلقات واقعی دوستانہ ہیں جیسا کہ اکتوبر میں بیجنگ میں پاکستان کے قائم مقام وزیر اعظم کے ساتھ ہماری ملاقات سے تصدیق ہوتی ہے۔ باہمی تجارت متحرک طور پر ترقی کر رہی ہے، توانائی اور زراعت سمیت معیشت کے متعدد شعبوں میں باہمی طور پر فائدہ مند تعاون برقرار ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان شراکت داری کی بات چیت شنگھائی تعاون تنظیم کے ساتھ ساتھ افغان تصفیہ کو فروغ دینے کے طریقہ کار کے فریم ورک کے اندر ہوتی ہے۔ روس پاکستان کے ساتھ تجارت بڑھانے کا خواہاں ہے۔ ماسکو نے نجی شعبے کے دورہ روس کی روایتی تجارت کےلئے نہیں بلکہ ان شعبوں کےلئے حوصلہ افزائی کی ہے جہاں دونوں ممالک نے ابھی تک دو طرفہ تجارت نہیں کی ہے ۔ پاکستان اور روس ماضی کو دفن کرنے اور نئی حقیقتوں سے ہم آہنگ ہونے کےلئے تیار ہیں۔ دونوں ممالک کے تعلقات ترقی یافتہ اور اعتماد پر مبنی ہیں۔
سٹاک مارکیٹ میں شدیدمندی
اسٹاک مارکیٹ میں گزشتہ روز مندی کی شدید لہر کے باعث سرمایہ کاروں کو 3 کھرب 62ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑاجس سے مارکیٹ کا کل سرمایہ 94 کھرب روپے سے کم ہو کر90 کھرب روپے ہو گیا 90.93فیصد حصص کی قیمتیں میں کمی ہوئی۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں کے ایس ای100انڈیکس میں 2371.64 پوائنٹس کی کمی ہوئی جس سے انڈکس 65204.68 پوائنٹس سے کم ہو کر 62833.03پوائنٹس پر بند ہوا۔ اسی طرح 708.52پوائنٹس کی کمی سے کے ایس ای30انڈیکس 21710.76پوائنٹس سے کم ہو کر 21002.23 پوائنٹس پر آگیا۔سٹاک مارکیٹ میں اتارچڑھاﺅ کاسلسلہ جاری رہتا ہے ۔کبھی سٹاک مارکیٹ میں تیزی آ جاتی ہے اور پوائنٹس اوپر جانے لگتے ہیں تو کبھی وہ مندی کا شکار ہو جاتی ہے، ایک عام شہری بھی اس صورتحال سے یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ سٹاک مارکیٹ میں ہونےوالا یہ سارا کاروبار مصنوعی بنیادوں پر چل رہا ہے اور اس کا ملک کی مجموعی معاشی صورتحال سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ویسے بھی جب تک ملک کی معیشت باقاعدہ طور پر مستحکم نہ ہو اس وقت تک سٹاک مارکیٹ کے پوائنٹس اوپر یا نیچے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اور معیشت کو مستحکم بنانے کی ذمہ داری ان لوگوں کی ہے جنہیںاقتدار کے ایوانوں میں بٹھایا گیا ہے۔ حکومت تو عوام کو تسلی دینے کےلئے اعداد و شمار کی جادوگریاں دکھاتی نظر آتی ہے اور کہیں وہ عوام کو صاف کہہ دیتی ہے کہ ملک کے وسائل اس بات کے متحمل نہیں ہوسکتے کہ سبسڈی دی جاسکے یا مہنگائی پر قابو پایا جاسکے لیکن کسی بھی حکومت نے یہ کوشش کبھی بھی نہیں کی کہ اشرافیہ کو سرکاری خزانے سے دی جانےوالی مراعات و سہولیات پر بھی کوئی قدغن لگائی جائے۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ جب تک لوٹ مار نہیں روکی جاتی تب تک ملک کی معیشت مستحکم نہیں ہوسکتی۔
اداریہ
کالم
انتخابی عمل کا باقاعدہ آغاز
- by web desk
- دسمبر 21, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 849 Views
- 2 سال ago