کالم

انتخابی فنڈزکا اجرا ایک بار پھر مسترد

جی لکھ رکھیئے کہ پنجاب کیا ملک بھر میں عام انتخابات تب ہونگے جب حکومت چاہے گی۔اب یہ بات لکھ کر رکھنے یا اونچے سروں میں راگ الاپنے کی نہیں کہ حکومت ہرگز ہرگز الیکشن کرانے سے انکاری نہیں۔بقول سابق صدر مملکت آصف زرداری کہ ہمیں بس الیکشن کی ٹائمنگ پر اعتراض ہے اورکچھ بھی نہیں۔آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں اترسوں الیکشن ہو کے رہنے ہیں اور وہ آئین کے طے کردہ فریم ورک کے تحت ہی ہونگے۔دستورکے مطابق حکومت اور اپوزیشن کے اتفاق رائے سے عام انتخابات سے پہلے ملک بھر میں نگران حکومتیں قائم ہونگی اور وہی الیکشن کرائیں گی۔بس اتنی سی حقیقت اور کہانی ہے مگر کچھ سہولت کار اور پشتی بان ہیں کہ پنجاب کے انتخابات کے لئے آخری حد تک جانے کے لئے تیار ہیں بلکہ تلے بیٹھے ہیں۔حکومت کو داد دیجیئے کہ انتہائی نپے تلے اور سوچے سمجھے قدم رکھ رہی ہے کہ کہیں کسی کے آبگینوں کو ٹھیس نہ لگ جائے۔وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کمال فراست اور جرات سے کہا ہے کہ سٹیٹ بنک کے جس عہدیدار نے بھی الیکشن کمیشن کو حکومت کی اجازت کے بغیر21 ارب روپے دیئے پھر وہ جیل جانے اور اپنی جیب سے واپس کرنے کا ٹھکانہ کر لے۔قومی اسمبلی نے ایک بار پھر الیکشن کمیشن کو انتخابی فنڈزکا اجرا مسترد کردیا ہے۔قائمہ کمیٹی خزانہ نے اپنے خصوصی اجلاس میں سٹیٹ بنک کو21 ارب روپے جاری کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔اس سے بھی آگے بڑھ کر قومی اسمبلی نے سٹیٹ بنک کو الیکشن کیلئے فنڈز جاری نہ کرنے کی قائمہ کمیٹی کی سفارش منظور کرلی ہے ۔مذکورہ رپورٹ چیئرمین قائمہ کمیٹی خزانہ قیصر احمد شیخ نے پیش کی۔ قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے فراہم کرنے کا مطالبہ مسترد کردیا ہے ۔وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ایک شخص کو خوش کرنے کیلئے الیکشن کروانے کا فیصلہ کیا گیا ہے ،یہ ماورائے آئین و قانون فیصلہ ہمیں قبول نہیں، اس ایوان نے پورے ملک میں ایک ہی روز الیکشن کروانے کی قرارداد منظورکر رکھی ہے۔ادھر سٹیٹ بنک اور قومی اسمبلی کی صورتحال واضح ہوئی اور ادھر فواد چودھری نے اپنی سیاسی توپوں کے دہانے کھول دیئے ہیں۔وہ عوام کی راہنمائی کرنے کی بجائے گمراہی میں پی ایچ ڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔معروضیت ،واقعات ،حالات اور حقیقت کو اپنے من پسند معنی پہنانا اور صورتحال کو اپنا مخصوص مفہوم فراہم کر نا کو ئی ان سے سکیھے۔وہ جھوٹ اور جعل سازی سے آئین کی کوئی اپنی ہی تشریح کرتے ہیں اور اپنی تعبیر و تاویل کے بل پر پھر حکومت ،وزیر اعظم اور پارلیمانی روایات کے خلاف زہر اگلنے لگتے ہیں۔ان کے نزدیک سچ اور سچائی وہی ہے جس میں ان کا مفاد یا ان کی جماعت تحریک انصاف کا منافع چھپا ہو۔دوسری جانب پاکستان بارکونسل نے بھی دھمکی دیدی ہے بلکہ وکلا نے تو دھماکہ کر دیا ہے۔پارلیمنٹ کے قانون پر عدالتی حکم امتناع کےخلاف پاکستان بارکونسل نے ملک بھر میں یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا۔ پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین ہارون الرشید نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کے قانون کے تحفظ کے لیے ہر حد تک جائیں گے، پارلیمنٹ کے ایکٹ کی بحالی تک وکلا کا احتجاج جاری رہے گا، ہمارا مقصد یہ ہے کہ تمام ادارے اپنی حدود و قیود میں رہتے ہوئے اپنا اپنا کردار ادا کریں،پارلیمنٹ کے ایکٹ پر حکم امتناع واپس نہ لیا گیا تو ملک بھر میں کانفرنسیں کریں گے اور تحریک چلائیں گے۔پاکستان بارکونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین حسن رضا پاشا نے کہا اعتزاز احسن ایک جماعت کے ترجمان بن کر دن رات وکلا تحریک کی بات کر رہے ہیں، یہ وہی صاحب ہیں جو اپنے خاندان سمیت مشرف کی آمریت کے ساتھ کھڑے تھے، جو شخص کسی ضلعی بار تک کا صدر نہیں بنا وہ وکلا تحریک کیسے چلائے گا؟فواد چودھری کے ساتھ اعتزاز احسن بلکہ آج کل تو لطیف کھوسہ بھی اپنے اپنے رنگ کی بولیاں بول رہے ہیں۔یہ تینوں لوگ اپنے ہی طوطا و مینا اڑا رہے ہیں اور لفظوں کے لالہ وگل ایسے کھلاتے ہیں کہ بس توبہ بھلی۔پارلیمان کے آئے روز اجلاسوں سے لگ تو یہی رہا ہے کہ اب عوامی نمائندے کسی مصلحت یا مداہنت سے کام نہیں لیں گے۔سر اٹھا اور سینہ پھیلا کر سویلین بالا دستی کا معرکہ لڑیں گے خواہ اس کے لئے انہیں کتنی ہی بڑی قیمت کیوں نہ چکانی پڑے۔شہباز شریف،آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان صاف دماغ اور واضح زبان کے ساتھ کھل کر باور کرا چکے ہیں کہ الیکشن کرانا صرف حکومت کا کام ہے ،ہم کسی دوسرے ادار ے کی مقننہ یا انتظامیہ کے معاملات میں مداخلت کسی صورت اور قطعی برداشت نہیں کریں گے۔ہواوں کا رخ بدلے نہ بدلے سیاسی موسم اور پارلیمانی روایات بدل نہیں رہیں اور عوامی نمائندے کڑے تیوروں اور سخت لہجوں کے ساتھ سر بکف ہیں۔وہ عمران خان کے آگے جھکنے یا ان کے دباوکو قبول نہیں کریں گے۔پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی نے مذاکرات کی جو بساط بچھائی ہے ،اس میں بھی حکومت حد سے زیادہ رعایت دیتی نظر نہیں آتی۔اس ضمن میں شہباز شریف اور آصف زرداری تو لہجہ نرم اور رویہ دوستانہ رکھتے ہیں لیکن ان کے عزائم وہی پرانے ہیں۔البتہ مولانا فضل الرحمان کا رویہ،زبان و آہنگ اور لہجہ و پیغام کل بھی عمران خان کے باب میں سخت اور درشت تھا اور آج بھی وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینے پر قائل اور مائل نظر آتے ہیں۔سیاسی تجزیہ نگار اس بابت متفق ہیں کہ الیکشن کسی کی سہولتکاری یانگرانی سے نہیں ہونگے بلکہ اس کا میدان حکومت سجائے گی اور حکومت اکتوبر میں انتخابات کرانے کا اعلان عام پہلے ہی کر چکی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے