کالم

انسانی سمگلنگ وطن عزےز کا اےک خوفناک المےہ

گزشتہ دنوں اٹلی اور لےبےا مےں تارکےن وطن کی دو کشتےاں حادثے کا شکار ہوئےں ۔اس کے بعد اطالوی حکام نے غےر قانونی طرےقہ سے مختلف ممالک کے تارکےن وطن کو بےرون ملک لے جانے والے 3افراد کو گرفتار کر لےا ۔اطالوی صدر نے اےک بےان مےں عالمی برادری سے اپےل کی ہے کہ نقل مکانی کرنے والوں کےلئے ،جن مےں سے بےشتر بہتر زندگی کی تلاش مےں جبکہ بعض اپنے ملکوں کے نامساعد حالات ،جنگوں ،ظلم و ستم ، دہشتگردی اور غربت کی وجہ سے اپنے ملک چھوڑ رہے ہےں کردار ادا کرے ۔حادثے کا شکار ہونےوالی کشتی مےں 150باشندے سوار تھے اور زےادہ تر تارکےن وطن کا تعلق پاکستان ،اےران ، افغانستان ،صومالےہ اور بعض دوسرے ممالک سے تھا ۔ےہ بد قسمت کشتی حادثے سے تےن روز قبل ترکی کے شہر ازمےر سے روانہ ہوئی اور اٹلی کے ساحلی مقام کلابرےا کے قرےب تےز سمندری لہروں کی زد مےں آ کر چٹان سے ٹکرا کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی ۔ابتدائی طور پر ےہ خبرےں آئےں کہ مرنے والوں مےں 40پاکستانی بھی شامل ہےں بعد ازاں ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق کشتی مےں سوار 20پاکستانےوں مےں سے 13کو بچا لےا گےا جبکہ 7پاکستانےوں کے ڈوبنے کی تصدےق ہوئی جن مےں بدقسمتی سے کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی ہاکی ٹےم کی نوجوان کھلاڑی شاہدہ رضا بھی شامل تھےں جو اچھے مستقبل کی تلاش مےں اس سفر پر روانہ ہوئی تھےں ۔ےہ پہلا موقع نہےں بلکہ گزشتہ کئی برسوں سے تسلسل کے ساتھ اےسے خوفناک واقعات رونما ہو رہے ہےں جن مےں غےر قانونی طور پر ےورپ جانے کی کوشش مےں متعدد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بےٹھے ہےں اور ان کی بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے جو حصول روزگار اور بہتر زندگی کے مواقع حاصل کرنے کےلئے باہر کا رخ کر رہے ہےں ۔ تارکےن وطن اور بےرون ملک پاکستانےوں سے متعلق بےورو کے مطابق پچھلے سال ملک سے 8لاکھ 32ہزار339افراد نے ترک وطن کےا جبکہ اس سال جنوری مےں 59977نوجوان باہر گئے،وجہ بہتر مستقبل کی تلاش تھی۔ اےک اندازے کے مطابق پاکستان مےں اس گھناﺅنے دھندے سے اےک ہزار سے زےادہ کرےمنل نےٹ ورک منسلک ہےں جن کا ےہ غےر قانونی کاروبار اےک ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے ۔اےف آئی اے نے لےبےا کے راستے غےر قانونی طور پر پاکستانےوں کو ےورپ بھےجنے مےں ملوث مشتبہ افراد کو گرفتار کےا ہے ۔ گجرات مےں چھاپے مارے گئے اور مرکزی ملزم کو بھی گرفتار کر لےا گےا ہے ۔گزشتہ چند سال کے دوران 4لاکھ سے زائد پاکستانےوں کو مختلف ممالک سے ڈی پورٹ کےا گےا ۔اتنی بڑی تعداد مےں کسی بھی ملک کے شہرےوں کا روٹی اور روزگار کی تلاش مےں اپنے ملک کی بحری اور بری سرحدوں کو پھلانگ کر کسی دوسرے ملک مےں داخل ہونا جہاں عالمی قوانےن کی رو سے اےک جرم ہے وہاں ےہ حقےقت بھی وطن عزےز کے مقتدر طبقات کو فراموش نہےں کرنا چاہےے کہ ہر سال ہزاروں پاکستانےوں کو اس ”غےر قانونی راہ انحراف “ کو دکھانے کے جرم کی حقےقی ذمہ داری انہی پر عائد ہوتی ہے ۔ان غےر قانونی تارکےن وطن کے اےسے اےسے رونگٹے کھڑے کر دےنے والے حقائق منظر عام پر آتے ہےں جن کی اجمالی روداد کو اےک کمزور دل انسان پڑھ اور سن نہےں سکتا ۔مالی منفعت کے لالچ مےں انسانی سمگلنگ مےں ملوث مافےا شہرےوں کو سہانے سپنوں اور حسےن خواب دکھا کر بخےر و عافےت پہنچنے کی ےقےن دہانی کراتا ہے ۔ غرض مند دےوانہ ہوتا ہے اور ےہ دےوانے اپنے پےٹ کی آگ بجھانے اور اپنے گھروں کا چولہا روشن کرنے کی آرزو مےں ان فرےب کاروں کے جھانسے مےں آ جاتے ہےں ۔ےہ انہےں پھٹچر لانچوں پر سوار کر کے منزل مراد کی جانب روانہ ہو جاتے ہےں ۔ان مےں سے جن کو دوران سفر حقائق کا ادراک ہو جاتا ہے اور وہ صدائے احتجاج بلند کرتے ہےں تو انسانی سمگلنگ مےں ملوث مافےا کے مسلح گماشتے دوسرے ساتھےوں کو اکسانے کے جرم کی پاداش مےں انہےں اٹھا کر سمندر مےں پھےنک دےنے سے بھی درےغ نہےں کرتے ۔انسانی سمگلرز کی ےہ کےمو فلاجڈ لانچےں خطرناک ترےن سمندری راستوں پر سفر کرتے ہوئے بعد از خرابی بسےار وہ انہےں انتہائی خطرناک اور جان لےوا بحری سفر کے بعد چور دروازے سے وےران ساحلوں تک پہنچا دےتے ہےں جہاں ےہ بے نصےب خشکی پر پاﺅں دھرتے ہی چوکس و بےدار عملہ کی عقابی نگاہوں کا شکار ہو جاتے ہےں اور انہےں جےل پہنچا دےا جاتا ہے ۔بعض اوقات ےوں بھی ہوتا ہے کہ اجنبی دھرتی پر ےہ سرحدوں کے محافظوں کی نگاہوں سے بچ نکلنے مےں کامےاب ہو جاتے ہےں اور ےوں بے آباد وےران جزےروں مےں مدتوں بھٹکتے رہتے ہےں اور جب تک ان کا کھوج اور سراغ لگتا ہے ان مےں سے اکثر بھوک اور پےاس کے ہاتھوں نےم جان ہو کر مردوں کی طرح فرش خاک پر پڑے ہوتے ہےں ۔چےلےں اور گدھےں انہےں مردہ جان کر ان پر جھپٹ رہی ہوتی ہےں ۔ہفتوں کی بھوک اور پےاس انہےں مٹی چاٹنے ،سمندری پانی پےنے اور خود رو زہرےلے پودوں کے مضر صحت پتے کھانے پر مجبور کر دےتی ہے ۔جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کی اس کوشش مےں بےسےوں پاکستانی دور افتادہ وےران جزےروں مےں زندگی سے ہاتھ دھو بےٹھتے ہےں ۔سوال ےہ پےدا ہوتا ہے کہ اس تمام خاردار حالات کی تخلےق کے ذمہ دار طبقات اپنی رعاےا کی حالت زار پر کب ترس کھائےں گے ۔کب وطن عزےز کے شہرےوں کو وطن عزےز مےں آبرو مندانہ روز گار کی فراہمی کی ضمانت مہےا کی جائے گی ۔بہتر مواقع اور پر کشش ذرائع روزگار کی تلاش ملک کے طول و عرض مےں بسنے والے نوجوانوں کی اولےن فطری خواہش ہے ۔اس فطری خواہش کی تکمےل وطن عزےز کو فلاحی رےاست بنانے کے دعوے کرنے والے ےہ حکمران کب ممکن بنائےں گے؟ دوسری طرف بارسوخ بالائی طبقات کے نا اہل عزےز و اقارب نجی و سرکاری پر کشش مناصب پر تمام تر پابندےوں کے باوجود تعےنات کر دئےے جاتے ہےں اور اےسا کرتے ہوئے اعلیٰ سطحی حکام رولز اےنڈ رےگولےشنز کو بھی بےک جنبش قلم رےلےکس کر دےتے ہےں ۔ےوں مےرٹ کا قتل عام روا رکھا جاتا ہے ۔انسانی سمگلنگ بلا شبہ اےک بھےانک ترےن جرم ہے ۔اس جرم کے مرتکبےن کی اکثرےت سےاسی و سماجی اور معاشی حوالے سے معاشرے کے با وسائل اور با رسوخ طبقات سے تعلق رکھتی ہے ۔ےہ طبقات ہوس زر کے مہلک مرض مےں مبتلا ہےں ۔اس خوفناک جرم کے ارتکاب کا تصور بھی کوئی گروہ ےا فرد اعلیٰ ترےن طبقات کی سرپرستی و معاونت کے بغےر نہےں کر سکتا ۔ماضی مےں اس قسم کے جرائم مےں ملوث افراد اور گروہوں کے خلاف جب بھی کوئی کاروائی عمل مےں لائی گئی تو دو چار دن تو اس کی دھوم دھام رہی لےکن رفتہ رفتہ صابن کے جھاگ کی طرح اس کے اثرات غائب از نظر ہوتے رہے ۔ےہ اےک پرےشان کن حقےقت ہے کہ بھولے بھالے شہرےوں کو بہتر روزگار اور عمدہ مواقع کی فراہمی کا جھانسہ دےکر انسانی سمگلنگ مےں ملوث گروہ ان کی زندگی بھر کی جمع پونجی لوٹ لےتے ہےں ۔ اےسے اےسے واقعات بھی مشاہدے مےں آئے ہےں کہ بےرون ملک اچھی نوکری دلوانے کا سراب دکھا کر اےجنٹوں نے غرےب شہرےوں کو اپنی جائےدادےں تک بےچنے پر مجبور کر دےا ۔ےہ گروہ اےک منظم اور مربوط نےٹ ورک کی حےثےت سے سرگرم عمل ہےں ۔ شرےف شہرےوں کو پھانس کر ےہ ان سے ان کا کل اثاثہ چھےن لےتے ہےں ۔اس قسم کی بےسےوں خبرےں اےک تواتر اور تسلسل کے ساتھ اخبارات مےں شائع ہوتی رہی ہےں کہ ترکی ،ےونان ،اےران ،اٹلی ،جرمنی اور کئی دےگر ممالک مےں غےر قانونی طرےقوں سے پہنچنے کی آس مےں ان اےجنٹوں کے شکار شہرےوں کو خوفناک سانحات کا سامنا کرنا پڑا ۔ےہ اےک حقےقت ہے کہ اےف آئی اے اس نےٹ ورک مےں شامل ہر گروہ کے اےک اےک فرد کو بخوبی جانتا ہے کےونکہ عام شہری کی ےہ رائے ہے کہ انسانی سمگلنگ کے اس کاروبار مےں کسی بھی فرد ےا گروہ کو اس وقت تک قدم دھرنے کی جرا¿ت نہےں ہوسکتی جب تک اسے وزارت داخلہ کے بزرجمہران ،اےف آئی اے اور اس قسم کے دےگر اداروں اور محکمہ کی سرپرستی حاصل نہ ہو ۔جس طرح اےک علاقے کا اےس اےچ او تمام جزئےات و تفصےلات کے ساتھ ےہ جانتا ہے کہ اس علاقے مےں کون کونسا مجرم کس کس جرم کا کہاں کہاں ارتکاب کر رہا ہے ۔ اسی طرح اےف آئی اے کے افسران و اہلکاران کے علم مےں بھی ہے کہ انسانی سمگلنگ کی ان وارداتوں کے ذمہ داران کون ہےں ،دہشت گردی ،منشےات فروشی اور انسانی سمگلنگ اےسے جرائم کے خاتمے کےلئے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri