کالم

انسداد بدعنوانی محض عالمی دن تک محدود

اگر پاکستان کے سرکاری اداروں کی صورتحال کا جائزہ لیا جا ئے تو یہاں تعینات بیشتر افسران کرپشن کے بیمار نظر آتے ہیں۔ ملکی سرکاری اداروں میں محض بورڈ پر ضرور لکھا ہوتا ہے ”Say no to corruption“ مگر یہاں کسی کام کا باحسن و خوبی انجام پانا بغیر رشوت دیے ممکن نہیں۔ جبکہ ملک و معاشرے سے کرپشن کے ناسور کے خاتمے کے لئے حکومتی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتی عدم توجہی کے باعث پاکستان بھر میں کرپشن و بدعنوانی کی صورتحال روز بروز سنگین سے سنگین تر ہوتی جارہی ہے۔ کرپشن سے بھرپور تھانہ کلچر،حکومتی اداروں میں کرپشن کا راج، حصول انصاف کا کمزور نظام، مصلحتوں اور بدعنوان افسران کی وجہ سے عوام میں بے بسی اور بے اختیاری کا احساس بڑھتا جارہا ہے ۔ عوام میں عدم اطمنان کے باعث ، حکومتی و سرکاری اور عدالتی اداروں پر ان کے اعتماد میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ جبکہ ملک میں موجود انسداد بدعنوانی کے محکموں کی مایوس کن کارکردگی،اور ان سے استفادے کا پیچیدہ اور سست رو طریقہ کار، سرکاری اداروں میں کرپشن کا باعث بن رہا ہے۔ اسوقت صورتحال یہ ہے کہ بنیادی سرکاری ادارے مثلاً بجلی ، سوئی گیس ، شہری ترقی کے ادارے، میونسپل کمیٹیاں ، لوکل گورنمنٹ کے دفاتر، سرکاری ادارے کم اور بدعنوانی کی نرسریاں زیادہ دکھائی دیتے ہیں، یہاں تعینات معمولی افسران کے بھی اثاثہ جات، اور عالیشان طرز زندگی دیکھ کر شہری انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں ۔ پاکستان جسے انٹر نیشنل دنیا46 واں کرپٹ ترین ملک قرار دے چکی ہے، یہاں کرپشن اتنی عام ہے کہ بعض مقتدر افراد اور سیاسی رہنماو¿ں کی جانب سے کرپشن کا دفاع اور کرپشن کو فروغ دیاجا تا ہے۔ یہاں بر سراقتدار رہنے والے حکمرانوں میں سے بھی بعض کلیدی عہدوں پر فائز سیاسی لیڈر کرپشن میں بری طرح ملوث رہے ہیں ، ان کی کرپشن ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے مگر کہیں سیاسی مصلحتوں اور کہیں کمزور سسٹم کے باعث یہ افراد کرپشن کے تمام الزامات سے اس طرح بری الذمہ ہوجاتے ہیں جیسے دودھ کے دھلے ہوں۔پوری قوم اور میڈیا کرپشن کے خلاف شروع ہی سے آواز بلند کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود حکومت سرکاری اداروں میں کرپشن کے خلاف ٹھوس اقدامات سے گریزاں ہے۔ جبکہ یہاں اقتدار پر قابض رہنے والے بدعنوان حکمرانوں کی لوٹ مار اور بندر بانٹ، اور قر ضوں کے انبار کی وجہ سے مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے اور عام لوگوں کا زندگی گزارنا اجیرن ہو چکا ہے۔ ایک طرف بڑے بڑے عہدوں پر فائز سرکاری افسر اور حکمران گروہ قومی دولت کی لوٹ مار کے باعث عیش و عشرت میں مگن رہے ہیں اور دوسری طرف غریب اور فاقہ کش لوگ آج بھی خود سوزی اور خودکشی کرنے پر مجبورہیں۔ قومی دولت اور وسائل کی لوٹ کھسوٹ کے باعث پی آئی اے، پاکستان سٹیل ملز اور پبلک سیکٹر کے کئی ادارے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ پاکستان میں کرپشن اتنی بڑھ گئی ہے ایک سال میں 300ارب روپے سے زائد کرپشن کی نذر ہوجاتے ہیں۔ پاکستان کے عوام بہت باشعور ہیں اور وہ اکثر میڈیا کے ذریعے منتخب نمائندوں ، اور سرکاری افسران کی بدعنوانیوں کو بے نقاب کرتے رہتے ہیں، تاہم حکومت اور اداروں کی مصلحتوں کے باعث ان انکشافات کی روشنی میں موثر کارروائی نہیں ہوتی کیونکہ حکومت کو منتخب ایوانوں میں اپنی عددی اکثریت برقرار رکھنی ہوتی ہے ۔ یقینا بدعنوانی کا خاتمہ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں موجودہ حکومت ابھی تک کسی قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکی۔ ایف آئی اے اور نیب جیسے ادارے محض روایتی انداز میں کام کر رہے ہیں جن پر عوام کو اعتماد نہ ہونے کے برابر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان اداروں کو بھی نئے ٹاسک دئیے جائیں ، ان کو جدیدخطوط پر استوار کیا جائے اور ان کی کارکردگی کو تیز تر کیا جائے۔ خوش قسمتی سے پاکستان جغرافیائی لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ملک ہے اور اسے ہم اپنی بد قسمتی کہیں یا ستم ظریفی کہ ہمارے حکمران یہاں دستیاب وسائل سے بھر پور استفادہ نہیں کررہے، ہم اس بدنصیبی اور بدقسمتی کو اپنی خوش قسمتی میں بدل سکتے ہیںاور اپنے پیارے پاکستان کو جنت نظیر خطہ بنا سکتے ہیں اگر اداروں میں میرٹ کو فروغ دیا جائے، ہر سرکاری ادارے سے رشوت ستانی کا مکمل خاتمہ کرنے کی کوشش کی جائے ، سستے اور فوری انصاف کو فروغ دیا جائے اور عدلیہ کے فیصلوں کا احترام کرتے ہوئے ان پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے، اور ملکی مفاد کو ذاتی اور انفرادی مفاد پر ترجیح نہ دی جائے۔سفارشی کلچر کا خاتمہ ، امیری اور غریبی کے سٹیٹس کو مٹانے کے لئے کلیدی کردار اداکیا جائے ، ملک سے سندھی،پنجابی،بلوچی،پٹھان اور کشمیری کے سٹیٹس کو مٹاکر سب سے پہلے پاکستان کی بات کی جائے ، ٹیکس چوری کا خاتمہ ،قرضے معافی اور بجلی چوری جیسے اقدامات سے پرہیز کیا جائے تو حقیقی طور پر پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے جس سے ہر پاکستانی خوشحال ہوگا۔ موجودہ حکومت کو چاہےے کہ وہ بدعنوان عناصر کے خاتمے کے لئے نئے موثر قوانین کا اطلاق کرے ، اور انسداد رشوت ستانی کے تمام اداروں کو مکمل فعال کےا جائے اور ان اداروں کی کارکردگی مےں تےزی اور بہتری لائی جائے۔ اور کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے والوں کا تحفظ یقینی بناےا جائے، بلاشبہ ملک سے کرپشن کے ناسور کے مکمل خاتمے تک ملک و قوم کی حقیقی ترقی ممکن نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے