کالم

انصاف ایک لازمی عنصر

khalid-khan

کسی ملک یا معاشرے کی ترقی و خوشحالی اور بقا کےلئے انصاف ناگزیر ہے ۔ انصاف کے بغیر معاشرہ تنزلی کا شکار ہوجاتا ہے۔تاریخ ِعالم سے عیاں ہوتا ہے کہ قومیں عبادات نہ کرنے کی وجہ سے تباہ نہیں ہوئیں بلکہ عدم انصاف کے باعث برباد ہوئیں ۔ قومیں انصاف کے فقدان کے باعث ذلیل و خوار ہوجاتی ہیں۔ اللہ رب العزت حقوق اللہ معاف کردے گا لیکن حقوق العباد معاف نہیں کرے گا۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ معاشرے کےلئے انصاف کتنا لازمی عنصر ہے ۔ انصاف صرف حکمرانوں یا قاضیوں کےلئے نہیں بلکہ ہر شخص اپنی حیثیت کے مطابق انصاف کریں۔سرمایہ دار ایک صد روپے کی چیز کو ایک ہزار روپے میںفروخت کرے تو یہ یقینا ظلم ہے اور انصاف کے بالکل خلاف ہے۔ اگر دکاندار پچاس روپے کی چیز ایک سو روپے میں بیچتا ہے تو یہ انصاف کے منافی ہے۔عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہ لینا والا ملازم کماحقہ فرائض سرانجام نہ دے ، وقت چائے پینے، موبائل فون اور گپ شپ یا غیر ضروری میٹنگ پر صرف کرے تو یہ یقیناانصاف کے اصولوں کے برعکس ہے ۔ حکمران، قاضی اور دیگر سب پرلازم ہے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق انصاف کریں۔مغل شہنشاہ سلیم نورالدین جہانگیر نے زنجیر عدل لٹکائی تاکہ رعایا کو فوری انصاف تک رسائی ممکن ہوسکے ۔ایک واقعہ معروف ہے کہ شہنشاہ سلیم نورالدین جہانگیر مغل کی چہیتی ملکہ مہرانساءنورجہان محل کے بالکنی میںبیٹھی بیرونی مناظر سے لطف اندوز ہورہی تھی ، اس دوران دیکھا کہ ایک شخص ٹمنکی باندھ کر ملکہ کو دیکھنے میں مصروف ہے۔ نورجہان اس کو گستاخی سمجھ کراس شخص پر ایک تیر چلایا جس سے وہ مرگیا۔ وہ شخص دھوبی تھا،اس کی بیوی کو علم ہوا توکافی غمزدہ ہوئی، پریشانی کے اس عالم میں خاتون نے زنجیر عدل کھینچی۔شہنشاہ سلیم نورالدین جہانگیر نے اس کی فریاد سنی اور اس کو مکمل انصاف کا یقین دلایا۔بادشاہ نے ملکہ نورجہان کو دربار میں طلب کیا اور وہ ایک عام ملزم کی طرح پیش ہوئی ۔ملکہ نورجہان نے اعتراف جرم کرلیا کہ وہ شخص گستاخی کا مرتکب ہوا تو میں نے قتل کردیا ۔ بادشاہ نے دربار کے قاضی سے فتوی دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ شریعت میں قتل کی سزا قتل ہے۔ شہنشاہ سلیم نورالدین جہانگیر نے قاضی کا فتویٰ سن کر فرمان جاری کیا کہ ملزمہ کو پھانسی پر چڑھایا جائے۔ملکہ نورجہان نے بیوہ کو خون بہا میں زردجواہر دے۔سلیم نورالدین جہانگیر مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کا بیٹا تھا۔شہنشاہ اکبر کی اولاد نہیں تھی تو ایک بزرگ شیخ سیلم چشتی کی دعا سے30 اگست 1569ءمیں فتح پور سیکری میں ان کا بیٹا پیدا ہوا تو بزرگ کے نام پر ہی بیٹے کا نام سیلم رکھاگیا۔بعدازاں شہنشاہ جلال الدین اکبر کے دو اور بیٹے مراد اور دانیال پیدا ہوئے۔ اکبر کے تینوں شہزادے کثرت شراب نوشی کرتے تھے۔شہزادہ مراد اور شہزاد دانیال بہت زیادہ شراب نوشی سے عالم شباب میں فوت گئے۔ شہزادہ سلیم (جہانگیر)تین نومبر 1605ءکوتخت نشین ہوا۔ مغل شہنشاہ سلیم نورالدین جہانگیرنے متعدداصلاھات نافذ کیں جو کہ قابل تعرےف ہیں۔ فریادیوں کی داد رسی کےلئے اپنے محل سے ایک زنجیر لٹکا دی جسے زنجیر عدل کہا جاتا ہے ۔کشمیر سے واپسی پر مغل شہنشاہ سلیم نورالدین جہانگیر 28 اکتوبر 1627ءکو راجوری میں وفات پائی، ان کو لاہور سے بہت محبت تھی ، اسلئے ان کو دریائے راوی کے کنارے شاہ درہ میں باغ دلکشا میں سپرد خاک کردیا۔سلیم نورالدین جہانگیر کی بیوی ملکہ نورجہان نے انکی قبر پر مقبرہ کی عمارت بنانے کا آغاز کیا اور شہنشاہ شاہ جہان نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ مقبرہ جہانگیرمغلیہ ذوق تعمیر کا نادر اظہار اور عہد رفتہ کی عظیم یادگار ہے۔مقبرہ میں اندر داخل ہونے کا ایک ہی راستہ ہے، مزار کے چاروں طرف سنگ مرمر کی جالیاں لگی ہوئی ہیں ۔ مقبرہ کے چاروں کونوںپر مینار بنائے گئے ہیں۔قبر کا تعویذ سنگ مرمرکا بنایا ہے اور اس پر لاجورد، نیلم ، عتیق، مرجان اور دیگر قیمتی پتھروں سے گل کاری کی گئی ہے، دائیں اور بائیں اللہ رب العزت کے ننانوے نام کندہ ہیں۔سکھ دور میںمقبرہ کو نقصان پہنچایا گیا، سہ نشین اکھاڑ کر امرتسر لے گئے ، عمارت کے ستونوں اور آرائشات میں استعمال کیے گئے قیمتی جوہرات نکال کرلے گئے۔اب بھی مقبرہ جہانگیر ابل دید ہے ،جہاں سیاح دیکھنے آتے ہیں ۔ خاکسار تین نومبرکو مقبرہ جہانگیر دیکھنے دریائے روی کے کنارے شاہ درہ کے باغ دلکشا پہنچا، مقبرہ کی عمارت سے متاثر ہوا۔ وہاں حکمت اللہ زدران اور زوہیب سے ملاقات ہوئی، دونوں نوجوان خوش اخلاق اور ملنسار ہیں۔ مقبرہ جہانگیر پر ڈیوٹی پرموجود ملازم نے احتراماًسلام کیا لیکن جب مقبرہ جہانگیر دیکھنے کے بعدواپس جانے لگے تو ملازم نے کہا کہ ہم تین چار ملازمین کو چائے پانی دے دیں ، جتنا مناسب سمجھیں، بہرحال میں نے ٹال مٹول سے کام لیتے ہوئے جان چھڑالی ۔ آثار قدیمہ اور سیاحتی مقامات پر ملکی و غیر ملکی سیاح آتے ہیں، یقیناایسی حرکات ہمارے ملک ، محکمہ آثار قدیمہ اور محکمہ سیاحت کےلئے بدنامی کے باعث بن رہے ہیں۔
٭٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے