کالم

انگرےز کا نظام

تصور پاکستان کے خالق علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ جب تعلےم کے حصول کےلئے برطانےہ گئے تو وہاں پر انگرےز کے نظام اور طرز بودوباش دےکھ کر بے ساختہ کہہ اٹھے
فردوس جو تےرا ہے کسی نے نہےں دےکھا
فرنگ کا ہر قرےہ ہے خلد کی مانند
انہی دنوں اےک تقرےب مےں شرےک تھا ۔ سےاست پر بات ہونے لگی ۔شرےک گفتگو تمام احباب کے خےال مےں سابقہ عمران خان کی حکومت جوانتخابات سے قبل نعرہ زن تھی کہ ہماری حکومت سابقہ حکومتوں کی طرح اپنے وزراءاور دوسرے حکومتی با اختےاران کو پروٹوکول سے کنارہ کش رکھے گی لےکن اس کے باوجود اس حکومت کے سبھی بااختےاران پروٹو کول بندھن مےں بندھے نظر آ ئے۔اےک صاحب محفل نے سےاسی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہاں سےاسی اور فوجی حکمران کبھی بھی ڈےلےور نہےں کر سکے لہذا پاکستان کو چاہےے کہ وہ برطانےہ سے کوئی انگرےز سےاستدان وزےر اعظم اور وزراءامپورٹ کر لے تو ہمارے قومی معاملات سالوں مےں نہےں مہےنوں مےں حل ہو سکتے ہےں ۔وےسے تو صاحب محفل کی ےہ تجوےز آئےنی ،قانونی اور قومی نقطہ نظر سے ہر گز قابل قبول نہےں ہے لےکن پھر بھی موصوف کے اپنے موقف کے حق مےں دلائل اتنے ٹھوس اور جاندار تھے کہ کوئی بھی متاثر ہوئے بغےر نہ رہ سکا ۔کےا ہم اور ہمارے حکمران واقعی اس قابل ہےں کہ اپنے معاملات خود چلا سکےں ےا ہم ذہنی طور پر اب بھی اغےار کے سحر مےں ہےں ۔انگرےز قوم کی قومی سوچ ،دانائی ،معاملہ فہمی حب الوطنی اور دور اندےشی دنےا کی تارےخ مےں اےک ضرب المثل کی حےثےت رکھتی ہے اےک زمانہ تھا کہ اس کی وسےع و عرےض سلطنت مےں سورج غروب نہےں ہوتا تھا ۔ےہ کہا جاتا ہے کہ انگرےز قوم کوئی کام کرنے سے پہلے سو سال تک کاسوچتی ہے ۔اس کی مثال اےسٹ انڈےا کمپنی کی ہے جس کو ہندوستان کے ساتھ تجارت کرنے کےلئے اےک صدی کا انتظار کرنا پڑا ۔ زمانے نے ان کے ملک کو دنےا کی قدےم ترےن جمہورےت کا خطاب دےا ۔دنےا کی قدےم ترےن ےونےورسٹی آکسفورڈ برطانےہ مےں واقع ہے ۔ برطانےہ نے دو عظےم جنگےں صرف اس لئے جےتےں کہ وہاں عدلےہ آزاد تھی ۔ےہ اےک حقےقت ہے کہ انگرےز تاجر کی حےثےت سے بر صغےر آئے اور لارڈ کلائےو کی معےت مےں 2300سپاہےوں کے ہمراہ نواب سراج الدولہ کی اےک لاکھ فوج کو شکست دے کر ہندوستان مےں اپنی سلطنت کی مضبوط بنےاد رکھی ۔دلچسپ بات ےہ ہے کہ لارڈ کلائےو جنرل نہےں بلکہ سوےلےن تھا ۔ےہ بھی اےک دلچسپ حقےقت ہے کہ ان کا دستور جدےد دور مےں بھی غےر تحرےر شدہ ہے۔کہتے ہےں کہ انگرےز دور مےں برصغےر مےں ہر کام مےرٹ پرہوتا تھا۔عدل و انصاف تھا وہ غےر ہو کر اپنے حکمرانوں سے اچھے تھے ۔گاﺅں مےں اگر قتل ہوتا تھا تو وہاں تھانےدار ڈےرہ ڈال لےتا تھا اسے معلوم تھا کہ انگرےز اےس پی اس کی کڑی نگرانی کر رہا ہے ۔ہم اس انگرےزی روائت کو برقرار نہ رکھ سکے ۔وطن عزےز مےں سےنکڑوں نہےں ہزاروں قتل پولےس کی کتابوں مےں ”نامعلوم “ درج ہےں ۔رےلوے کو دےکھئے کس حالت مےں انگرےز سامراج چھوڑ کر گےا تھا ہم نے بجائے اسے توسےع دےنے کے اس کا لوہا تک بےچ کھاےا ۔ےہ بھی کہا جاتا ہے کہ جس ملک مےں انگرےز حکمران نہےں رہے وہاں جدےد ترقی نہےں ہو سکی ۔اس سلسلے مےں افغانستان کی مثال دی جاتی ہے اور ےہ بات خاص طور پر کہی جاتی ہے کہ انگرےزوں کے وہاں قدم نہ جمنے کی وجہ سے رےلوے کا نظام سرے سے وقوع پذےر نہ ہو سکا ۔ پاکستان بنا تو اس وقت اور اس کے بعد بھی کئی عشروں تک قانون کی حرمت قائم تھی ۔ ملازمت کےلئے اگر عمر کی حد معےن تھی اسے کوئی ہٹا نہےں سکتا تھا اور ہر شخص اس عمر کو پہنچ کر چلا جاتا تھا ان کے زمانے مےں لائق اور ماہر لوگ جو اےکسٹنےنشن کے مستحق بھی ہوتے تھے لےکن ضابطے اور قانون مےں کسی کےلئے گنجائش نہےں تھی لےکن جب ہم نے اس مےں پاکستانےت داخل کی تو پھراوپرسے خصوصی حکم کے تحت اےکسٹےنشن کا نزول ہونا شروع ہو گےا مگر انگرےزوں کی چھوڑی ہوئی شے جسے ترقی دےنا چاہےے تھی وہ وہےں کی وہےں رہی۔گوےا پطرس کے بقول ،سائےکل کا ہر پرزہ بجنے لگا سوائے گھنٹی کے۔تعلےمی مےدان دےکھ لےں جو ٹائم ٹےبل ،تعطےلات اور امتحانات کا انگرےز دے گئے ہم بارہا تجربات کے بعد بھی نئے شےڈول کے نفاذ مےں کامےاب نہ ہو سکے ۔اےسا ہی کچھ ماجرا رےلوے ٹائم ٹےبل کے ساتھ بھی ہے ۔ انگرےزوں کی اگر تعلےمی خدمات کا جائزہ لےں تو معلوم ہوتا ہے کہ گورنمنٹ کالج لاہور ، اےچی سن کالج،اےمرسن کالج، پنجاب ےونےورسٹی ان کے دور کی ہی ےادگار ےںہےں۔ہم نے بھی کالج اور ےونےورسٹےاں بنائےں لےکن کوئی بھی انگرےزوں کے بنائے ہوئے اداروں جےسا مقام نہ پا سکا اور بڑے آدمی اسی دور مےں پےدا ہوئے۔اگر تاج برطانےہ کی متحدہ ہندوستان مےں صحت کے شعبے مےں پاکستان کی کارکردگی کا پاکستان کی حکومتوں کی برس کی کارکردگی کے ساتھ سرسری سا تقابلی جائزہ لےں تو شرمناک شواہد سامنے آتے ہےں ۔مثال کے طور پر 1860ءسے 1930ءکے دوران پورے برٹش انڈےا کے ہر ضلعی ہےڈ کوارٹر مےں جدےد سہولےات سے آراستہ سول اسپتال قائم ہو چکا تھا ۔ہر قصبے سے 20سے30بستروں پر مشتمل اسپتالوں کا جال بچھاےا جا چکا تھا جبکہ تےن سے چار دےہاتوں کے کلسٹر پر اےک ڈسپنسری قائم کر دی گئی تھی ۔دوسری طرف عالمی ادارہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان مےں 2006ءتک برطانوی دور کے سرکاری اسپتالوں کی تعداد مےں صرف 11فےصد اضافہ ہوا ہے جب کہ اس وقت تک آبادی ڈھائی گنا ہو گئی تھی ۔مےو ہسپتال اور اس کے ساتھ کنگ اےڈورڈ کالج بھی انگرےز ہی کے بنائے ہوئے ہےں ۔وطن عزےز کے اسپتالوں مےں مہےا کی جانے والی سہولےات مےں بتدرےج ابتری آئی ہے ۔چند بڑے شہروں مےں سرکاری اسپتالوں مےں کسی حد تک جدےد طبی سہولےات ضرور موجود ہےں مگر وہاں کرپشن ،بد عنوانےاں اور احتساب نہ ہونے کی وجہ سے مرےضوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کےا جاتا ہے ۔چھوٹے شہروں اور دےہی علاقوں مےں حالات انتہائی دگرگوں ہےں وہاں اکثر ڈاکٹر اور پےرا مےڈےکل اسٹاف کی عدم دستےابی کی وجہ سے ہسپتالوں مےں کتے لوٹ رہے ہےں ۔معالج اور دےگر عملہ بھی غےر ذمے دارانہ روےوں کا مظاہرہ کرتا ہے ۔ادوےات کی خرےداری مےں اربوں روپے کی خرد برد اس کے سوا ہے جس کی وجہ سے مرےضوں کو اسپتالوں سے ادوےات نہےں مل پاتےں ۔حد ےہ ہے کہ انہےں مرہم پٹی تک بازار سے خرےدنا پڑتی ہے ۔ےہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ شہر چھوٹے ہوں ےا بڑے ہر جگہ سرکاری اسپتال اور ڈسپنسرےاں حکومتی نا اہلی اور عدم دلچسپی کا منہ بولتا ثبوت بنی ہوئی ہےں ۔سندھ مےں حالت مزےد ابتری کا شکار ہے۔ےہ درست ہے کہ انگرےز برصغےر مےں حکمرانی کرنے ،ےہاں کے وسائل سے فائدہ اٹھانے اور ےہاں کی معدنےات سے فےض ےاب ہونے آےا تھا ےہ بھی درست ہے کہ اس نے برصغےر جسے سونے کی چڑےا کہا جاتا تھا لوٹا ہو گا ،پےسہ ےہاں سے انگلےنڈ لے گےا ہوگالےکن اس نے انہی وسائل سے کما کر ےہاں پورا نظام تشکےل دےا اس نے ےہاں جتنی بھی تعمےرو ترقی کی وہ ےہےں سے کما کر ےہےں لگانے کا معاملہ تھا لےکن وہ جاتے جاتے ےہاں کے جنگلات ،پہاڑ ،درےا،پانی ،نہری نظام ،فصلےں ،کھےت ،باغ ،کھلےان ،صنعت و حرفت الغرض پورا حکومتی نظام ،ساری انتظامی مشےنری ،سارے ادارے سب کچھ ےہےں چھوڑ گےا ۔ہم انگرےز کا بناےا ہوا رےلوے نظام جسے وہ نفع مےں چھوڑ گےا تھا گھاٹے مےں بدل دےا، چھوٹا کر دےا ،بے شمار سٹےشن وےران ہو گئے ۔اس نے دنےا کا بہترےن نہری نظام قائم کےا اور جاتے ہوئے ہمارے سپرد کر گےا اس کا بخشا ہوا نظام قرےب المرگ ہے ۔نہری بنگلے بند کر دےے ےا لوگوں نے قبضہ کر لےا ،فارےسٹ کے رےسٹ ہاﺅسز تباہ کر دےے اس نے ےہ سارا کام ہمارے ہی پےسے سے کےا ۔ہماری آمدنی سے بہت سی رقم ہم پر خرچ کی اور نفع سمےٹ کر پےچھے اپنے ملک پہنچا دےا۔بنانا تو کجا ہم بنے ہوئے کو برقرار نہےں رکھ پا رہے۔ 1947مےں ہمےں قائد اعظمؒ کی بدولت انگرےزوں سے آزادی نصےب ہوئی ہمارے حکمرانوں نے ان کے مرتبے کا لحاظ کرتے ہوئے کرنسی نوٹوں پر ان کی تصوےرےں چھاپےں ۔سرکاری اور غےر سرکاری دفاتر مےں قائد اعظمؒ کی فرےم شدہ تصوےرےں سجائےں ۔ الےکٹرانک مےڈےا نے انکے پےغامات ، ارشادات اور فرمودات نشر کئے لےکن ہمارے کسی حکمران نے بھی ان پر عمل نہ کےا ۔ہم نے قائد اعظم کے ارشادات پر عمل تو نہےں کےا مگر ان کے فرمان اتحاد ،ےقےن اور تنظےم کو جگہ جگہ پر لکھا اور اس کا پرچار کےامگر اپنی ذات اور اقتدار کے تحفظ کےلئے اس سلوگن کو آزاد کر دےا۔آج سے دولت باہر بھجوانا تو اےک طرف باہر سے آنےوالی دولت بھی ہماری ضرورےات پورا کرنے کےلئے ناکافی ہے۔آخر اس کی وجہ کےا ہے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران انگرےزوں سے زےادہ بدنےت ، قابضوں سے زےادہ بڑے لٹےرے اوربےرونی حملہ آوروں سے زےادہ بے اےمان ہےں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے