کھیل

”انہونی کے خوف” سے جنم لیتا بحران !

''انہونی کے خوف'' سے جنم لیتا بحران !

تحریر: عرفان صدیقی
12 جولائی 2024 کا آٹھور کی عدالتی فیصلہ ‘کثیر الا ولا بحران’ کی طرح مسلسل بچے جنتا چلا جارہا ہے۔ اس نے ایک ایسے اونٹ کی شکل میں جنم لیا جس کی کوئی کل سیدھی تھی۔ اب وہ محاورے کی زبان میں چینی آبگینوں کی دکان میں بھرا ہوا تیل ( A bull in the China shop)بن چکا ہے۔
”طلسم ہوش رہا” کا آغاز اس وقت ہوا جب متعدد بار یاددہانیوں کے باوجود تحریک انصاف اپنے ہی دستور کے مطابق داخلی انتخابات (Intra Party Election) نہ کر اسکی اور ایکشن ایکٹ 2017 کے تحت انتخابی نشان سے محروم ہو گئی ۔ اس کے حمایت یافتہ امیدواروں کو آزاد کے طور پر انتخابات میں حصہ لینا پڑا۔ 21 فروری کو الیکشن کمشن نے کامیاب امیدواروں کے نوٹی فیکیشن جاری کئے ۔ 22 فروری کو ہی ۔ ٹی۔ آئی سے رشتہ تعلق کے دعویدار 80 کامیاب ارکان اپنی قیادت کی ہدایت پر بہتی اتحاد کونسل میں شامل ہو گئے۔ یوں انہوں نے آئین اور قانون کا تقاضا پورا کر دیا جس کے تحت آزاد امیدواروں کو تین دن کے اندر اندر کی جماعت میں شامل ہونے یا آزاد رہنے کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ پانچ سال کے لئے سنی اتحاد کونسل کے پنجرے میں بند ہو جانے کے بعد یہ امیدوار آید و کے لئے اپنا فیصلہ بدلنے کے اختیار سے محروم ہو گئے ۔ بی ۔ ٹی۔ آئی کے کسی رکن نے آج تک اپنا فیصلہ بدلنے کے لئے الیکشن کمشن ہی پیکر یا کسی عدالت سے رجوع نہیں کیا۔
ایک بری پارلیمانی پارٹی بن جانے کے بعد اب مشکی اتحاد کونسل کی نظر میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر تھیں۔ اس نے الیکشن کمشن سے رجوع کیا۔ ایک کے مقابلے میں چار ارکان نے اس کی درخواست مسترد کر دی ۔ سنی اتحاد کونسل فوری طور پر پیا۔ ٹی۔ آئی کی ماور مشفق کی شہرت رکھنے والی پشاور ہائیکورٹ پہنچ گئی۔ پانچ سینئر جج صاحبان پر مشتمل شیخ نے 14 مارچ کو یہ اپیل مسترد کرتے ہوئے الیکشن کمشن کا فیصلہ برقرار رکھا۔۔۔۔ دل پر داشتہ سنی اتحاد کونسل نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔
یہاں تھوڑ اسام لے کر آگے چلتے ہیں۔ اپریل میں دائر کی گئی اپیل ابھی سماعت کو نہیں گئی تھی کہ 3 مئی 2024 کو چیف جسٹس قاضی فائز بیٹی کی سربراہی میں جوڈیشل کمھن کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں تین سینئر جج صاحبان ، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس غیب اختر اور جسٹس یحیی آفرید نے انکشاف کیا کہ حکومت کمشن کے ارکان میں اضافے اور بعض دیگر متعلقہ امور کے لئے ایک آئینی ملیح کا ارادہ رکھتی ہے۔ ایسی غیر مصدقہ خبریں پہلے سے میڈیا کی زینت بن رہی تھیں کہ حکومت جگوں کی لی عمریں بڑھا کر، یا معیاد عہدہ میں توسیع کر کے جسٹس فائز عیسی کو برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ قاضی صاحب کا ایک بیان بھی آیا کہ حکومت اس رعایت کا آغاز میرے بعد آنے والوں سے کرے۔ بہر حال 3 مئی کے جوڈیشل کمشن اجلاس نے خطرے کی ایسی گھنٹی بجادیکہ چیف جسٹس کے منصب کے لئے قطار میں لگے امیدواروں کی راتیں بے خواب ہو گئیں ۔ انہونی کا خوف رگ وپے میں رینگنے لگا۔ انہوں نے طے کر لیا کہ کسی طور حکومت کو دو تہائی اکثریت نہیں ملنی چاہیے تا کہ آئینی ترمیم نہ ہو سکے۔
جوڈیشل کمشن کے اجلاس کے صرف تین دن بعد 5 مئی کو سنی اتحاد کونسل کی اپیل سماعت کے لئے لگ گئی۔ اسی دن جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں بے شیخ نے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے بحرانی آتش فشاں کے دہانے سے دھان اٹھا دیا۔ بیج صاحبان کا آئینی حلف قرار دیتا ہے کہ میں ہر حالت میں بلا خوف ورعایت اور بلا رقیت وعنا قانون کے مطابق انصاف کروں گا۔ میں نے کسی کالم میں کیا تھا کہ آئینی وقانونی معاملات میں، درخشان روایات کی حامل ہماری عدلیہ کا شاید ہی کوئی فیصلہ ان چار آئینی ممنوعات خوف، رعایت ، رغبت اور عناد سے پاک ہو۔ تیروز کنی فل کورٹ بیٹھی ۔ آٹھ ارکان نے قرار دیا کہ خصوصی نشستیں اپیل کنندہ جماعت سنی اتحاد کونسل کو نہیں ملیں گی۔ یہ اس پی ٹی آئی کو ملیں گی جو ان نشستوں کے لئے الیکشن کمشن کے پاس گئی، نہ پشاور ہائیکورٹ کے پاس نہ سپریم کورٹ کے پاس۔ فیصلہ کرنے والوں میں مستقبل کے تین پر امید جج صاحبان، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس غیب اختر اور جسٹس عائشہ ملک شامل تھے۔ انہونی کے خوف کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا۔
یہ عجیب الخلقت فیصلہ آنے کے فورا بعد 15 جولائی کو مسلم لیگ (ن)نے نظر ثانی کی درخواست دائر کردی۔ 18 جولائی کو پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے مطابق چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ارکان کا اجلاس ہوا تو قاضی فائز میٹی نے اس اہم مقد سے کے حوالے سے نظر ثانی اپیل فوری لگانے پر زور دیا۔ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ عدالتی چھٹیوں کے بعد دیکھ لیا جائے گا۔ 23 جولائی کو پیپلز پارٹی نے بھی نظر جانی کی درخواست دائر کر دی۔ کچھ علم نہیں یہ درخواستیں کن گرد آلود دفائلوں میں پڑی ہیں۔ فیصلے کے چھے وان بعد، 18 جولائی کو الیکشن کمشن نے فیصلے سے پیدا ہونے والی کچھ آئینی وقانونی مشکلات کے حوالے سے راہنمائی کے لئے ریفرنس بھیجا۔ اس کا جواب 55 دن بعد ، 14 ستمبر کی شام، اس وقت پر اسرار طریقے سے ویب سائٹ پر ڈال دیا گیا جب اسلام آباد اس خبر سے گونج رہا تھا کہ کل ، 15 ستمبر کو پارلیمنٹ آئینی میچ منظور کرنے جارہی ہے۔ خوف کے سائے گہرے ہوتے گئے ۔ اب اس وضاحت نامے پر بھی چیف جسٹس نے نو سوالات اٹھا دیئے ہیں۔
12 جولائی کا کثیر التراد بیا اور ہشت پہلو فیصلہ بہت بڑا بحرانیہ بن چکا ہے۔ شاید اس لئے کہ رعایت رغبت اور عناد کے زیر اثر دینے جانے والے فیصلوں کا بھی کچھ اور ہاتھوں، کچھ سر پر ہوتا ہے۔ لیپا پوتی ہی کے لئے سہی، آئین وقانون کی مومی ناک سے کھیلنا پڑتا ہے ۔ ” خوف” بلا تاخیر اور فوری رد عمل کا تقاضا کرتا ہے۔ ہاتھ پاں پھول جائیں تو آئین کی کتاب کھولنا اور قانون کے ضابطوں پر نظر ڈالنا محال ہو جاتا ہے۔ خوف دلیل اور منطق سے عاری اعصاب زدگی کو جنم دیتا ہے جو پہلے معاملے کو بگاڑتی اور پھر بحران میں بدل دیتی ہے۔ حکومت واضح کر چکی ہے کہ جنوں کی عمر یا معیاد عہدہ میں توسیع کی کوئی تجویز زیرغور نہیں۔ آئینی ترامیم کے مجوزہ پہلے میں بھی ایسی کوئی بات نہیں۔ لیکن دید و و دل میں لیے کسی منصب جلیلہ سے محرومی کا خود تراشید و خوف ، تمام ریاستی کو تلاطم خیز پانیوں تک لے آیا
آج عالم یہ ہے کہ چاروں صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کی طرف سے پانچ خطوط الیکشن کمشن کے پاس جواب طلب چرے ہیں ۔ چیف جسٹس نے تو نکاتی سوال نامہ جاری کر رکھا ہے۔ فی۔ ٹی۔ آئی ایک نئی پٹیشن کے ساتھ پر یم کورٹ پہنچ گئی ہے۔ 12 جولائی کا تفصیلی فیصلہ ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی نظر ثانی درخواستیں دو ماہ سے زیر التو ایڑی ہیں۔ انہونی کے خوف سے جنم لینے والا فیصلہ آسیب بنتا جارہا ہے اور ان گنت مسائل میں گھر ملک آرزو نے عہد و منصب کی پنتا میں دھڑ دھڑ جل رہا ہے۔ صرف 9 دن کے لئے چیف جسٹس بننے والے جسٹس محمد شہاب الدین رہے نہ ہونے 9 برس اس منصب پر فائز رہنے والے جسٹس محمد علیم رہے نام اللہ کا۔ سو کیا ہی اچھا ہو کہ عہدہ و منصب سے محرومی کے خوف کو آئینی و قانونی تقاضوں پر حاوی نہ ہونے دیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے