عمران خان اور بشریٰ بی بی کو سزا دینے والے نیب کے جج ناصر جاوید رانا کی اپنی غیر معمولی کہانی سامنے آئی ہے۔ ان کی یہ کہانی دوہزار چار میں خبروں کی زینت بنی تھی اور اب ایک بار پھر بیس سال بعد یہ چاند نکلا ہے۔
نیب کے جج کی 190 ملین کیس کی ججمنٹ کی چمک ماند پڑ گئی ہے اور اتنی مشہور نہیں ہوئی جتنا کہ جج صاحب کا اپنا ماضی کے کیس کو شہرت مل رہی ہے۔انکے کیس کو زندہ رکھنے میں عمران خان کے اپنے ہی وکیل صاحب ہیں ۔ جنھوں نے ججمنٹ کے بعد بتایا کہ یہ جج صاحب وہی ہیں جنھوں نے دوہزار میں گل کھلایا تھا۔کیا ہی اچھا ہوتا مذکورہ جج کے ماضی کا پردہ کیس کے فیصلہ سنانے سے قبل اٹھاتے تو انہیں فائدہ ہوتا۔ سزا کے بعد اب اس جج کے خلاف محاز کھولنے کا ایسا ہی ہے جیسے ایک نیا کٹا کھولنا ہے۔ جبکہ پہلے سے ہی بے شمار کٹے کھلے ہوئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ وکیل صاحب جیل میں اپنے قیدی کو مقدمے کے دوران بتایا کرتے تھے کہ یہ جج اپناہے ۔
ہمارے چچا چیف جسٹس نے اس کی نوکری بچالی تھی۔پھر یہ بھی بتایا کہ بڑے بھائی کی محنتوں کا نتیجہ ہے کہ اسے نیب کا جج بنایا گیا ہے ۔ اگر اس کا خیال نہ رکھتے تو آج سے بیس سال قبل سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ناظم حسین صدیقی نے سو موٹو ایکشن لینے کے بعد اس جج کے خلاف لکھ دیا تھا کہ یہ جج اس منصبِ کے قابل نہیں ہے۔ نہ صرف اسکے خلاف ایکشن لیا جائے بلکہ اسکے اسٹاف اور راولپنڈی کے چند وکلا کے خلاف بھی کاروائی کی جائے جنھوں نے جھوٹے بیان حلفی سپریم کورٹ میں دیئے تھے۔ سپریم کورٹ کے سوموٹو کیس کے دوران اس جج پر الزام ثابت ہوا کہ جج نے ملزم کو عدالت میں بغیر پیش کئے پولیس ریمانڈ دیا تھا۔
یہ باتیں سپریم کورٹ کے سو موٹو کیس میں ثابت ہو چکی ہیں کہ اس جج سمیت اس کے عملے نے بھی جج صاحب کا ساتھ دیتے ہوئے جھوٹے بیان حلفی دیے تھے۔اس موقع پر جج رانا کو بچانے کیلئے راولپنڈی بار کے چند وکلا نے بھی جھوٹے بیان حلفی سپریم کورٹ میں جمع کرائے تھے۔جس میں ثابت ہوا تھا کہ جج نے سپریم کورٹ میں جھوٹ بولا تھا کہ ملزم عدالت میں پیش ہوا تھا۔ اس کیس میں چند وکلا جو اس کیس میں جج رانا کے خلاف پیش ہوئے تھے ان وکلا میں راقم بھی شامل ہے جنھوں نے اس جج کے خلاف سپریم کورٹ کی کاروائی میں حصہ لیا تھا۔ اب اس کیس کی ججمنٹ Pld 2005 SC 86 میں چھپ چکی ہے۔ جسے پڑھتے جا شرماتے جا۔
سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں جھوٹا غیر قانونی پولیس ریمانڈ ثابت ہو جانے کے بعد یہ جج نوکری کیسے کرتا رہا اور سول جج سے ڈسٹرک جج کے عہدے تک یہ کیسے پہنچا۔بیس سال بعد یہ جج ایک بار پھر خبروں کی زینت کس نے بنایا۔ ایک سو نوے ملین القادر ٹرسٹ کیس کا فیصلہ نیب کے اسی جج ناصر جاوید رانا نے سترہ جنوری دوہزار پچیس کو سناتے ہوئے عمران خان کو چودہ سال قید اور بشرہ بی بی کو سات سال قید اور جرمانے کی سزائیں سنائی تھیں۔ سزا سننے کے بعد عمران خان کے وکیل نے جیل کے باہر آکر کہا تھا کہ یہ وہ جج ہے جسے چیف جسٹس سپریم کورٹ نے دوہزار چار میں اس جج کو جھوٹ بولنے اور غلط بیانی کرنے پر اسے نوکری سے فارغ کرنے کو کہا تھا۔ تمام وکلا میں سب سے زیادہ اس جج کو جاننے والے یہی وکیل صاحب تھے۔ کہا جاتا ہے جب اس کے بڑے بھائی کو گرفتار کیا گیا تھا تو جیل کی گرم ہوا کو برداشت نہ کر سکا اور باہر آکر پارٹی چھوڑنے کا اعلان کر دیا تھالیکن کچھ عرصے بعد اس نے دوبارہ پی ٹی آئی میں شامل ہونے کی کوشش کی تو عمران خان نے اسے پارٹی میں واپس لینے سے انکار کر دیاتھا جس کے بعد یہ چھوٹا بھائی عمران خان کے قریب آیا۔ مگر عمران خان کے ساتھی وکلا نے خان سے کہہ کر اسے بھی دور کر دیا تھا کہا تھا کہ یہ اب میڈیا پر بھی ہماری بات نہیں کرے گا۔ اس دوران کہا جاتا ہے یہ عمران خان سے ملاقات کرنے میں کامیاب ہوا اور اس موقع پر بتایا کہ یہ جج ہمارا بندہ ہے میرے چچا نے اسے سزا سے بچایا تھا۔ پھر ہم نے ہی نیب میں اسے لگوایاتھا، کہا جاتا ہے یہ سن کر عمران خان نے اس کے باتوں پر یقین کر لیا اور ایک بار پھر سے عمران خان کے یہ قریب ہو گیا۔
کیا ہی اچھا ہوتا موصوف اس جج پر کمیشن بنانے کا یہ مطالبہ کرتے کہ یہ جج یہاں تک کیسے پہنچا مگر یہ خاموش رہے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ فوری ایک کمیشن بنایا جائے۔ اس جج کی وجہ سے عدلیہ کی بد نامی ہوئی ہے اور ہو رہی ہے ایسے وکلا کے کردار کے مطلق پارٹی کے سینیٹر سینیر وکیل سپریم کورٹ حامد خان اپنی کتاب میں پہلے ہی لکھ چکے ہیں۔یہ وکیل پڑھ چکے ہیں اس پر خاموش رہے۔ان کی خاموشی بتاتی ہے کہ جو کچھ لکھا گیا ہے وہ سچ پر مبنی تھا ۔ کہا جاتا ہے ادھر نکلے ادھر ڈوبے کی خوبیوں کے مالک یہ وکلا ہیں جنھوں نے وکلا کمیونٹی کو بدنام کیا۔ اب کوشش میں تھے کہ کم از کم ایک بھائی اس پارٹی میں رہے۔یاد رکھیں ہوشیاریاں زیادہ دیر نہیں چلتیں۔ اب وکیل صاحب کو اس فیصلے کے بعد عمران خان خود ہی خود سے اور جماعت سے انہیں دور کر دیں گے ۔ اب ذرا بیس سال قبل اس جج کی کہانی کچھ یوں ہے۔
راولپنڈی کے سینئر وکیل حبیب وہاب الخیری ایڈووکیٹ کو ایک مقدمے میں پولیس نے تھانے میں بند کر رکھا تھا۔ وکلا کو جب پتہ چلا تو چیف جسٹس کے سامنے پیش ہوئے اور بتایا کہ اسے کسی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کئے بغیر تھانے میں رکھا ہوا ہے جس پر چیف جسٹس نے سو موٹو ایکشن لیکر اس جج کو سپریم کورٹ میں بلا لیا جس پر جج نے جھوٹ پر مبنی نہ صرف اپنا بیان حلفی دیا بلکہ اپنے اسٹاف سے بھی ایسا ہی بیان حلفی دلوانے چند وکلا نے بھی ایسا ہی جھوٹا بیان حلفی دیا۔
اس دوران پولیس کے اے ایس آئی سامنے آیا کہ مجھ سے زبردستی بیان دلایا گیا تھا جبکہ یہ سب جھوٹ ہے۔ اب ہونا تو یہ چاہیے کہ پنجاب کی چیف جسٹس صاحبہ اس کیس کی انکوائری کر کے دودھ کا دودھ پانی کا پانی کریں۔ سوال ہے کہ اس ججمنٹ پر عمل کیوں نہیں ہوا۔ جج رانا کے کیس پر سب سے پہلے چیف جسٹس پنجاب انکوائری کرائے کہ سپریم کورٹ کی ججمنٹ پر عمل کیوں نہیں ہوا۔تھا۔ انکوائری کے رزلٹ کا انتظار کریں گے۔
کالم
ایک حاضر سروس جج کی داستان!!
- by web desk
- فروری 1, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 236 Views
- 5 مہینے ago