کالم

ایک قومی المیہ!

گزشتہ تہتر برسوںمیں پاکستان پر مسلط نظام نے داﺅ وپیچ تو بہت کھائے ہیں اور روپ بدلنے میں کافی شہرت حاصل کی ہے اگر چہ اس کا حقیقی چہرہ چھپا ہوا ہے اور طاقت کی ڈوری جس کے ہاتھ میں ہوتی ہے وہ کبھی سامنے نہیں آتا ہے ہم نے اس نظام کو عسکری وردی ہی میں دیکھا ہے اس کے علاوہ یہ نظام کبھی واسکٹ اور شیروانی کی نمائش کرتا ہے اور کبھی کوٹ پینٹ ی کی صورت میں سامنے آتا ہے جب بھی یہ نظام اپنا رنگ بدلتا ہے تو غریب آدمی اگر چہ خوشی سے شادیانے بجاتا ہے اور تالیاں پیٹ کر اپنے سرخ کرتا ہے مگر اسکے چہرے کی سرخی زائل ہوتی جاتی ہے اور اسکے چہرے کی زردی میں اور اضافہ ہوتا جاتا ہے ۔ یہ ہمارا ایک قومی المیہ ہے کہ جو روٹی اور کپڑ ا اور مکان کی بات کرتا ہے اوسے تحسین کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ہے اور اسے سوشلسٹ اور کیمونسٹ وغیرہ قرار دیکربدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کےخلاف فتوے اس طرح داغے جاتے ہیں جس طرح میزائل داغا جاتا ہے اور اسے پھانسی وغیرہ دینے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا ہے جس کی مثالیں موجود ہیںاور جو فتویٰ دینے والے ہیں وہ اس کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ انسان روح اور جسم دونوں سے مرکب ہے اوردونوں کے تقاضے الگ الگ ہیں۔اس انسان نے اسی سوسائٹی میں زندگی گزارنی ہے اور یہاں پنا وقت پورا کرنا ہے اسکے روح کے بھی کچھ تقاضے ہیں اور جسم کے بھی کچھ تقاضے ہیں انسان نے ان دونوں سے نمٹنا ہے اپنے مادی تقاضوں کو پورا کئے بغیر انسان معاشرے میں اپنی زندگی گزانے کی نشوونماں جاری نہیں رکھ سکتا ہے روٹی کپڑا اور مکان اور بود وباش ۔اس وقت ہمارے سیاسی لیڈروں کو عوام سے یہ شکوہ ہے کہ وہ ان کی کالو ں پر سڑکوں پر نہیں نکلتے ہیں اپوزیشن کی یہ خواہش ہے کہ عوام سڑکوں پر نکل کھڑے ہوتاکہ حکمرانوں کا دہڑن تختہ ہو جائے اور اپوزیشن کو اقتدار حاصل کرنے کا موقع مل جائے لیکن عوام ہیں کہ وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے ایک تو اب انہیں خود کش دھماکوں سے ڈر لگنے لگ گیا ہے کیونکہ ان دھماکوں میں زیادہ تر غریب عوام ہی نشانہ بنتے ہیں اور ان کو دال روٹی کا بھی مسئلہ ہوتا ہے اورانہیں اپنے بچوں کا پیٹ پالنا بھی ہوتا ہے کیونکہ ان کی ایک دیہاڑی کے ضائع ہونے سے ان کے گھر کا بجٹ متاثر ہوتا ہے اور پاکستانی عوام یہ بھی جاننے لگے ہیں کہ ان سیاسی لیڈروں نے انہیں کیا دیا ہے سوائے غربت اور مہنگائی کے اور عوام یہ بھی سمجھنے لگے ہیں کہ ہمارے یہ رہنماﺅں اور سیاسی کردار بشمول سیاسی مذہبی لیڈران سب کے سب نو آبادیاتی نظام کی گلی سڑی لاش کے وارث اپنے مفادات کیلئے ایک دوسرے پر غراتے ہیں اور اپنے مفادات کیلئے یہ عناصر عوام کو استعمال کرتے ہیں ۔دیکھا جائے تو ہمارے ملک میں مذہب اور مسلک کے نام پر ایک دوسرے کو بم کا نشانہ بنانےوالے ہو ا،افسر شاہی قبضہ گروپ ہو ےا کسان اور مذدور کا خون چوسنے والے جاگیر دار اور سرمایہ دار ہواور ےا قوم پرستی کے نام پر ایک دوسرے کو تہہ و تیغ کرنےوالے ہوان سب کے مفادات عوام پر ظلم کرنے سے وابستہ ہیں اور یہ قومی مفادات سے عاری ہیں اوریہ سب الا ماشاءاللہ سامراجیت کے آلہ کار ہیں یہ تو نہ دور کے تقاضوں سے آگاہ ہیں اور نہ ان کو اپنے شاندار ماضی کا ادراک ہے اور ان سے بہتر مستقبل کی توقع رکھنا بھی حماقت ہے کیونکہ نہ کا کویہ نصب العین ہے اور نہ ان کے پاس کوئی حکمت عملی ہے بلکہ یہ سامراج کی چھتری کے نیچے عوام کا استحصال کرنے میں مصروف ہیں اور مال جمع کرنا اور قومی خزانہ پر ہاتھ صاف کرنا ان کی سیاست کا وطیرہ ہے اور یہی ان کا مشن ہے جس پر سب گامزن ہیں ، اب عام آدمی بھی سمجھنے لگ گیا ہے کہ یہی فرعونی سیاست کی جھلک ہے جو اکیسویں صدی میں دیکھی جاسکتی ہے۔وطن عزیز میں قدرت نے کسی چیز کی کمی نہیں چھوڑی ہے۔ ورلڈبینک اور آئی ایم ایف کے قرضہ جات نے ملک کی تباہی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق روٹی، کپڑا، صحت، تعلیم اور روزگار قوم کے ہر فرد کا بنیادی حق ہے لیکن وہ ملک کے عام آدمی کے دسترس سے باہر ہے مذہب کے حقیقی تصور کے جگہ فرقہ واریت نے لے لی ہے عوام کے بھوک مٹانے کا پروگرام کسی کے پاس نہیں ہے جھوٹ کے ذریعے سیاست کو چلایا جارہا ہے ۔ غریبی اور مفلسی اوراور محتاجی نے ہر شخص کو دوسرے نفرت کرنے پر مجبور کردیا ہے سیاسی اور معاشی ڈھانچہ میں خرابی کے باعث ہر شخص دوسرے سے دست وگریبان ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک سے غربت اور مہنگائی اور بیروزگاری کو ختم کیا جائے عوام کو نہ جمہوریت سے دلچسپی ہے اور آمریت سے بلکہ عوام کو ایک ایسے صالح نظام کی ضرورت ہے جو عوام کے مسائل حل کرسکے اور انکے حقوق کا تحفظ کرسکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے