وفاقی زیر تعلیم رانا تنویر حسین جو بلحاظ عہدہ وفاقی یونیورسٹیوں کے پرو چانسلر بھی ہیں ،اور صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی جو وفاقی یونیورسٹیوں کے چانسلر ہیں ،دونوں کو سن و سال کے اعتبار سے بلاخوف تردید با باکہا جا سکتا ہے۔وفاقی وزیر تعلیم رانا تنویر حسین اپنی تعلیم بلکہ اعلی تعلیم سے دلچسپی کا کئی بار برملا اظہار کر چکے ہیں۔ابھی کچھ روز پہلے انہوں نے ایک یونیورسٹی کا آراستہ گاو¿ن پہن کر اور روسٹرم پر کھڑے ہو کر اساتذہ اور اسکالرز کے روبرو ایک فصیح پنجابی گالی ارشاد فرمائی تھی۔ ستم ظریف چونکہ خود بھی پنجابی ہے اس لیے وہ دوسرے پنجابی کی خفت مٹانے کے لیے وضاحت پیش کر رہا ہے کہ رانا تنویر حسین نے گالی دی نہیں تھی ،بس ان کے منہ سے نکل گئی تھی ۔وہ رانا تنویر حسین کے اس عمل کو اخراج دشنام باالجہرقرار دیتے ہوئے کہتا ہے کہ اس پر گرفت جائز نہیں ، جبکہ بعد ازاں رانا تنویر حسین نے اس اخراج دشنام باالجہرپر معذرت بھی کر لی تھی۔ویسے تو اب پاکستان میں اداروں کی تباہی ،بدانتظامی ، یا نااہلیت کی اطلاع کو خبر شمار نہیں کیا جاتا، کہ اب یہ ایک معلوم اور معروف حقیقت بن چکی ہے۔پھر بھی بعض اداروں کی غفلت اور نااہلی اپنے اثرات کے اعتبار سے حددرجہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کو ختم کرکے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے قیام کو پاکستان میں اعلی تعلیم کے تابوت میں آخری کیل کی طرح خیال کرنا چاہئے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں نہایت تر دماغ ڈاکٹر عطا الرحمن کراچی والے نے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی جگہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کا ادارہ قائم کر کے فنڈز ہڑپ کرنے کا ایک سسٹم تیار کیا ، اور کئی سال تک کامیابی سے چلایا تھا ۔سائنٹیفک ریسرچ گرانٹ کے نام سے اور پھر پرائیویٹ سیکٹر کی یونیورسٹیوں کی فنڈنگ کے نام پر اربوں روپے ایچ آی سی کے نظام انہضام کا حصہ بنتے چلے گئے۔موجودہ چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار احمد بھی رانا تنویر حسین کے حسن انتخاب کا نتیجہ ہے۔ن لیگ کے سابق دور حکومت میں بھی یہی ڈاکٹر مختار احمد چیئرمین ایچ ای سی رہے تھے ۔ان کی علمی اور انتظامی فضلیت کےلئے یہی ثبوت کافی ہے کہ؛کسی پبلک سیکٹر یونیورسٹی کا پروفیسر یا ڈین یا وائس چانسلر بنے بغیر وہ سیدھے سیدھے ایچ ای سی کے ممبر اور پھر چیئرمین بن گئے۔وہ اعلی تعلیم کے میدان میں ن لیگ کے اہم وزرا کے مفادات کے تحفظ اور نگرانی کا تجربہ رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ رانا تنویر حسین نے نہایت اعلی پروفائل کے حامل بیسیوں سابق وائس چانسلروں کو نظر انداز کرکے انہی صاحب کو دو سال کے لیے چیئرمین بنانا مناسب خیال کیا تھا۔اب سفارش کتنی ہی موثر کیوں نہ ہو ، قابلیت اور صلاحیت پیدا نہیں کر سکتی ۔جس کا ایک ثبوت اور نتیجہ وفاق کی یونیورسٹیوں کے لیے وائس چانسلر کے انتخاب میں مکمل ناکامی کی صورت سامنے آیا ہے۔ حال ہی میں اٹھارہ اپریل بیس صد تیئس کو وفاق کی دو یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر اور ریکٹر کےلئے ایک اشتہار اخبارات میں شائع ہوا ہے ۔جس میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے علاہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر کےلئے درخواستیں طلب کی گئی ہیں۔یہ اشتہار شائع کرنے سے پہلے وفاقی وزارت تعلیم اور ایچ ای سی کو وضاحت کرنی چاہئے تھی کہ گزشتہ سال پچیس ستمبر بیس صد بائیس کو اسی مضمون کے اشتہار کی اشاعت اور اس کے بعد ہونے والی جملہ کارروائی کی کہانی کیا ہے؟ اٹھارہ اپریل کو شائع ہونے والا اشتہار ، حقیقتاً ، وفاقی وزارت تعلیم اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کی نالائقی کا اشتہار ہے ۔یہ دونوں ادارے اس سطح کی تقرری کی صلاحیت اور قابلیت اور اہلیت نہیں رکھتے۔ وفاقی وزیر تعلیم اور چیئرمین ایچ ای سی سے پوچھا جانا چاہئے کہ پہلے والے اشتہار اور اس کے جواب میں موصول ہونے والی درخواستوں کی بنیاد پر جن تقرریوں کی سفارش کی گئی تھی ، وہ مقبول کیوں نہیں ہو سکیں؟ اگر اس پراسس میں کوئی خامی رہ گئی تھی تو پھر پرانے درخواست گزاروں کو دوبارہ درخواست نہ دینے کا استثنا کیوں دیا گیا ہے ؟آخر کیا وجہ ہے کہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے دو مختلف یونیورسٹیوں کےلئے ایک ہی سرچ کمیٹی بنائی گئی ہے؟ دو مختلف اداروں کےلئے یکساں کمیٹی کیسے ممکن ہے۔؟ کیا وفاقی وزیر تعلیم یا ایچ ای سی کے چیئرمین اس کا جواب دے سکتے ہیں ؟یہ سب کھیل تماشا ہے۔اگر اس ملک میں انصاف اور عدلیہ کا وجود ہو تو شائد پوچھا جا سکے۔عدل اور انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ؛ دو بالکل مختلف یونیورسٹیوں کے لیے دو مختلف سرچ کمیٹیاں تشکیل دی جائیں۔علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی سرچ کمیٹی میں صرف فاصلاتی نظام تعلیم کے ماہرین کو شامل کیا جانا چاہئے لیکن اس سب سے پہلے پوچھا جانا چاہئے کہ گزشتہ سال پچیس ستمبر ،بیس صد بائیس والے اشتہار کے جواب میں جو پینل بنایا گیا تھا ،وہ کن وجوہ کی بنا پر مسترد کر دیا گیا ؟ اور سات مہینے کی کاروائیوں کے بعد ازسرنو اٹھارہ اپریل ،بیس صد تیئس کو دوبارہ سے وہی اشتہار شائع کرنا پڑ گیا؟اصل جھگڑا ہے کیا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ خود صاحبان اختیار کے مابین اپنی اپنی ترجیح پر اصرار کوئی وار کی صورت اختیار کر چکا ہو؟