کالم

ایک یہودی یہاں امام مسجد تھا

ایک انفارمیشن جو ایک صاحب نے مجھے بھیجی حیران اور پریشان کر دیا کہ ہمارے ملک میں کیا کچھ ہو رہا ہے اگرچہ متعلقہ اداروں کے افرا د اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ملک کا دفاع کر رہے ہیں لیکن کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ ہونے کے خطرات منڈلاتے رہتے ہیںاس سے قطع تعلق رہیں کہ یہ واقعہ حال کا ہے یا ماضی کا اس کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خا ن سے ہے اور اسے بیان کرنے والے محترم بلال قطب صاحب ہیں جو ایک مذہبی سکالر ہیں اور ٹی وی چینل پر مذہبی پروگرام بھی پیش کرتے ہیںایک ٹی وی چینل نے بطور مہمان بلوایا ہوا تھا پروگرام کے ہوسٹ نے انہیں پوچھا کہ سوشل میڈیا پر یہ خبر تھی کہ آپ کی ملاقات ایک یہودی سے ہوئی جنہوں نے اٹھارہ برس سے ڈی آئی خان کی ایک مسجد میں بحیثیت امام مسجد فرائض سر انجام دیے اس سلسلے میں ہماری بنیادی مجبوری یہ ہے کہ جو شخص ایک طرز کا لباس اور وضع قطع بنا لیتا ہے تو ہم اسے مذہبی رہنماکے طور پر تسلیم کرنے میں تاخیر نہیں کرتےچاہے وہ صاحب علم ہوں یا نہ ہوںانہوں نے فرمایا میری ملاقات دبئی میں ایک صاحب سے ہوئی نماز کے اوقات میں وہ صاحب اس حلیے میںنماز پڑھنے نہیں آئے میں نے اپنے ہوسٹ سے پوچھا کہ وہ صاحب کیوں نہیں آئے تو انہوں نے بتایا کہ یہ مسلمان نہیں ان صاحب کو انگریزی عربی فارسی سرائیکی اردو پنجابی پر عبور حاصل تھا دوران گفتگو انہوں نے بتا یا کہ ڈی آئی خان کی ایک مسجد میں میں نے اٹھارہ سال امامت کی اور اب ریٹائرمنٹ کی عمر میں یہاں آیا ہوں وہ میری جاب تھی اس سلسلے میں بلا ل قطب صاحب نے مزید کہا کہ مرحوم ڈاکٹر اسرار صاحب کے دونو ں گھٹنوں کا آپریشن ہوا تھا جسکی وجہ سے چلناپھرنا ممکن نہ رہا رمضان شریف کا آغازہونے والا تھا ہم لندن میں اس تلاش میں تھے کہ نماز تراویح میں بہت اچھی قرات کے ساتھ قرآن پاک سننے کا موقع ملےبرمنگھم میں ایک جگہ بہت خوبصورت آواز میں تلاوت کی آواز آئی ہم اندر گئے تو معلوم ہوا یہ مسجد نہیں بلکہ ٹریننگ سنٹر ہے جسے انسٹیٹیوٹ کہہ لیں جہاں اسلام سکھایا جاتا ہے تو محسوس ہواہے کہ یہودی جس نے اٹھارہ برس ڈی آئی خان کی مسجد میں اسلام کی تعلیم دی اس نے یہیں سے ٹریننگ لی ہو گی اور پھر ہمارے ملک میں آکر اس نے فرائض سر انجام دیے یہ کتنی حیران کن بات ہے کہ ایک یہودی اٹھارہ برس تک مسجد میں دین کی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ امامت کے فرائض بھی سر انجام دیتا رہا وہاں کے لوگوں نے نہ کبھی اس پر شک کیا نہ ایسا موقع دیا کہ لوگ اس کے خلاف کوئی بات کرتے اس شخص نے اپنی تفویض شدہ زمہ داریاں ادا کیںاور مقامی طور پر شکایت کا کبھی موقع نہ آنے دیا تعجب ہے ہمارے انٹیلی جنس کے اداروں کی آنکھوں سےبھی یہ شخص اوجھل رہا یقیناہمارے ملک میں قیام کے دوران اس شخص نے مخصوص مقاصد کے لئے کام کیا ہوگا یہودی تربیت سنٹر میں ٹریننگ کے بعد اس کی پوسٹنگ پاکستان میں ہونا بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے ہم بحیثیت قوم کسی بھی معاملے پر سنجیدہ رویہ اختیار نہیں کرتے یہی وجہ ہے کہ ہر مسئلہ الجھا رہتا ہے اور حل طلب ہونے کے باوجود اپنے انجام کو پہنچنے سے قاصر رہتا ہے ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ اور کتنے یہودی یہاں موجود ہیں جو مختلف جگہوں پر مختلف فرائض سر انجام دے رہے ہونگے اگر برمنگھم میں ایک ادارہ جو کسی اتھارٹی کے ماتحت نان مسلم افراد کی سرپرستی میں اسلام کی ٹریننگ دے رہا ہے تربیت مکمل کرنے کے بعد تربیت یافتہ افراد کی تقرری کے لئے بھی آزاد ہے ایسے افراد کی کھپت کسی جگہ اور کہاں ہو رہی ہےیہ سوال اہم ہے غو ر طلب ہے بلکہ اس سلسلے میں مکمل معلومات کے حصول کے لئے توجہ طلب بھی ہے ۔ ہمارے ملک میں اس وقت مساجد کی تعمیر کسی بھی جگہ جہاں ایک مسلک کے لوگ چاہیں طاقت سرمائے اور افرادی قوت کے ذریعے کر سکتے ہیںاختلاف کی صورت میں فساد ہوتا ہے اور تھانہ کچہری تک بات پہنچ جاتی ہے اس طرح کی کئی مثالیں موجود ہیں جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا عبادت گاہوں میں کیونکہ مقامی طو ر پر طلباحفاظ اور عالم دین تیار بھی کیے جاتے ہیں اور پھر ان کی تقرری مرکزی مساجد کی انتظامیہ کے ذریعے عمل میں لاتی ہے اس طرح کسی قسم کے خدشات ذہن میں نہیں آتے لیکن بیرون ملک ایسی تربیت گاہیں جن میں غیر مسلم اسلام کی تعلیم دیکر اپنے ملازمین کو مخصوص ایجنڈے کے ساتھ ہمارے ملک میں تعینات کریں یہ تشویشناک ہے یہ واقع تقریباً دو دہایﺅں پر مشتمل ہے اور عبادت گاہ ایک یہودی کے ہاتھوںبحیثیت امام رہی بہت ہی خطرناک صورت حال ہے سادہ لوح لوگ جو اپنے مذہب کے بارے میں نہیں جانتے صرف سن کر ہر چیز کو نہ صرف مان لیتے ہیں بلکہ عمل کرتے ہوئے زندگی اسی رنگ ڈھنگ سے گزار لیتے ہیں انہیں اسلام کے بارے میں اپنے انداز سے تعلیم اور تربیت دینا بہت سہل ہے یہ معلوم نہیں کہ ڈی آئی خان کی اس مسجد میں جہاں یہ یہودی اٹھارہ سال تک امامت کے فرائض اداکرتا رہا اس نے اسلام کی آڑ میں کیاکچھ نہیں کیا ہوگااپنے مقاصد حاصل کیے یہوں گے اس دل خراش واقعہ کے بعد حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ حکومت اہم اداروں کے فیلڈ آفیسز کے ذریعے جائزہ لیں کہیں ایسا تو نہیں کہ دشمن اسلام اور پاکستان کے غیر ترقی پذیر علاقوں میں موجودہوں لوگوں کو بھی اس بات کا خیال رکھنا فرض بنتا ہے کہ مساجد کے امام حضرات دیکھے بھالے اور جان پہچان کے لوگ بڑی مساجد کی انتظامیہ کے ذریعے سے مقرر کیے جائیں اجنبی افراد کا اس اہم منصب پر فائز ہونا کسی وقت کسی بھی واقعہ کا سبب بن سکتا ہے جیسے مذکورہ بالا واقعہ ہے ہم لوگ سنجیدہ ترین حالات میں بھی سنجیدہ نہیں ہوتے ہلکے پھلکے انداز کے ساتھ اول تو مقابلہ نہیں کرتے اور اگر ہمت کر بھی لیں تو دل دماغ اکٹھے نہیں ہوتے دل کو دماغ مل جائے تو انسان بہت کامیاب ہو جاتا ہے ہماری اکثریت اس نعمت اور خصوصیت سے محروم ہے صرف جذباتی بن کر رہنا نتیجہ خیز نہیں ہوتا مقبولیت بھی بہت اہم ہے لیکن ہم معقولیت کے مقام سے دور ہی رہتے ہیں ہمارا زیادہ تر وقت قمیض تیری کالی سوہنے پھلاں والی اور عشقیہ گانے سننے میںگزر جاتا ہے غیر مسلم اپنی ریشہ دوانیوں سے اسلام کے ہمیشہ مخالف رہے ہیں قرآن کریم کے آٹھویں سپارے میں اللہ نے فرمایا کہ شیطانوں کو ان ہی لوگوں کا دوست بنایا ہے جوایمان نہیں لاتے اور غیر مسلم انسان ایسے ہیں جو شیطانوں کی جماعت میں ہر وقت شامل رہ کر اسلام اور دین اسلام پر چلنے والوں کے لئے مشکلات پیدا کرتے ہیںایسے حالات میں جب گردشیں ہی بکھری پڑی ہوں تو یہ دعا کا وقت ہوتا ہے کہ یا رب العالمین ہمیں اپنی مشیت سے آگاہ فرما کہ ہمیں پتہ چلے کہ کیا ہونے والا ہے ہم پریشان حال ہیں طرح طرح کی آزمائشوں میں گھرے ہوئے ہیں مشرق سے یلغار ہے مغرب سے یلغار ہے کیا ہمارا بیڑا پار ہے کیا ہوا پڑا ہےاللہ پاک ہمارے کھولتے ہوئے دل اور دماغ کو ٹھنڈک عطا فرما تسکین عطا فرما مشکلات سے اس ملک کو اور اس کے رہنے والوں کو نجات عطا فرما ہم امتحانوں میں آزمائشو ں میں پورے نہیں اتر سکتے اے مالک کل اپنے رحم کرم اور فضل سے ہمیں نواز دے تو نے اپنے کر م سے اقبال کو بھیجا اسکو شعور دیا کہ ملت پر مشکل وقت ہے وہ الفاظ بولتا رہا کہ قلم سے ان وجدانی اور الہامی الفاظ کو سمیٹتا رہا راتوں کو جاگتا رہا دعا کی شکل میں اطلاع کی شکل میں عرفانیت کی شکل میں قائد اعظم کو شعور بخشا یہ دونوں صاحبان ملت کی وہ کشتی جو بھنور میں تھی کنارے تک لے آئے یہ ملک تیری رحمت سے وجود میں آیا اے اللہ تو اسے ہمیشہ قائم رکھنا اسکے دشمنوں کو نیست و نابود کر دے یہ ملک صحیح معنوں میں اسلام کا قلعہ بن جائے ہم کمزور ہیں آرزووں کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں تیری یاد سے غافل ہیں اے پروردگار ہماری خطاﺅں سے درگزر فرماتے ہوئے دین دنیا کی کامیابیو ں سے ہم کنار فرماہمارے دلوں میں خواہشات کے بت بھرے ہوئے ہیں انہیں اپنی یاد فکر اور ذکر سےپاش پاش کر دے تاکہ یہ دل ، دماغ تیری یاد سے ہر وقت معموررہیں ہم سے کسی صورت ظلم نہ ہو آسانیاں تقسیم کرنے والابنا ، انسانوں سے محبت اور تعلق پیدا کرنے والا بنا ہر سو خیر کی تقسیم کرنے والا بنا آمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے