ملک میں جاری سیاسی تناو¿ کو بات چیت کے ذریعے کم کرنے کےلئے جاری کوششوں کے تحت حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان ایک ہی روز انتخابات کے حوالے سے مذاکرات کا دوسرا دور بھی بظاہر بے نتیجہ ختم ہوا تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ فریقین نے کسی ڈیڈ لاک کے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے اب اگلا دور منگل ہو گا۔تحریک انصاف کی مذاکراتی کمیٹی میں شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری اور بیرسٹر علی ظفر شامل ہیں جبکہ حکومت کی مذاکراتی ٹیم کی نمائندگی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، اسحق ڈار، یوسف رضا گیلانی نوید قمر ،خواجہ سعد رفیق، طارق بشیر چیمہ اور کشور زہرہ بھی شامل تھے۔مذاکرات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حکومتی ٹیم کی طرف سے بتایا گیا کہ اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ آج ہونے والی پیشرفت دونوں فریقین اپنی اپنی سائیڈ پر جا کر شیئر کریں گے اور درمیان میں یکم مئی کی چھٹی بھی ہے تو ہم منگل 2مئی کو دوبارہ ملیں گے جبکہ دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ آج کی پیش رفت پر عمران خان کو اعتماد میں لیں گے اور اس تناظر میں منگل کو بات ہو گی۔سپریم کورٹ کی ہدایت پر حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کے حوالے سے مذاکرات کا پہلا دور جمعرات کو ہوا تھا جس میں فریقین نے بات چیت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔دوسرے مرحلے میں ہونے والی بات کے حوالے یہ بات سامنے آئی ہے کہ وفاقی حکومت نے بجٹ کے بعد اسمبلیاں تحلیل کرنے اور ستمبر میں انتخابات کروانے کی تجویز دی ہے جس پر پی ٹی آئی وفد نے عمران خان سے بات کرنے کی حامی بھرلی ہے۔ذرائع کے مطابق عمران خان حکومت سے مذاکرات میں الیکشن کی تاریخ کے معاملے پر لچک دکھانے کےلئے تیار ہیں۔آئندہ اجلاس میں بریک تھرو اور معاہدے کے ضامن کے معاملات پر غور کا امکان ہے ۔ذرائع کے مطابق حکومتی کمیٹی نے مذاکرات میں موقف اپنایا کہ معاشی صورتحال کے باعث بجٹ پیش کرنا ضروری ہے جبکہ تحریک انصاف نے حکومتی تجویز پر مشاورت کا وقت مانگ لیا اور کہا کہ بجٹ پیش کرنا ضروری ہے تو مئی میں بھی کیا جا سکتا ہے ۔ ذرائع کے مطابق حکومتی کمیٹی نے کہا کہ اتفاق رائے ہو گیا تو قانونی اور آئینی رکاوٹیں دور کی جائیں گی ۔پی ٹی آئی رہنماو¿ں نے جولائی میں انتخابات کا مطالبہ کیا تھا جس پر حکومت نے جون میں بجٹ پیش کرنے کی حکومتی مجبوری ظاہر کی۔ ذرائع کا کہنا ہے پی ٹی آئی کی جانب سے کہا گیا کہ حکومت 2 ماہ قبل انتخابات پر لچک دکھائے تو ہم بھی لچک دکھا سکتے ہیں۔جس پر حکومتی رہنماو¿ں نے نواز شریف اور آصف زرداری کے سامنے معاملہ رکھنے کا کہا ۔ اکتوبر میں انتخابات کی صورت میں صوبائی حکومتوں کی بحالی پر بھی بات چیت ہوئی۔ ذرائع کا کہنا ہے حکومتی ممبران کا کہنا تھا اصل فیصلہ پی ڈی ایم قیادت اور نواز شریف کریں گے۔ذرائع کا بتانا ہے کہ حکومتی ٹیم کا موقف تھا کہ بجٹ گزرنے کے بعد الیکشن کے فیصلے ہوں گے جبکہ پی ٹی آئی کے وفد نے مطالبہ کیا کہ بجٹ سے پہلے الیکشن کی تاریخ کا تعین کیا جائے، جس پر حکومتی ممبران کا کہنا تھا ملکی مفاد میں تمام اسٹیک ہولڈرز مشترکہ فیصلہ کریں۔ پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی تحلیل شدہ اسمبلیوں کے انتخاب کے مسئلے پرانتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ میں آئینی اختلافات سے ملک میں بڑھتے ہوئے سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی کی صورتحال مزید سنگین سے سنگین تر ہوتی جا رہی ہے جسے معمول پر لانا وقت کا تقاضہ ہے۔چنانچہ اس ضمن میں کوششیں جاری ہیں۔ایک طرف ملک کی تمام اسمبلیوں کے الیکشن ایک ہی وقت میں کرانے کی حکومتی خواہش پر زور دیا جا رہا ہے تو دوسری طرف تحریک انصاف پنجاب اور کے پی کے میں فوری الیکشن کے مطالبے پر ڈٹی ہوئی ہے تاہم اب بیچ کا راستہ تلاش کیا جا رہا ہے۔اگر بات چیت کے اگلے مرحلے میں ایک ہی روز تمام اسمبلیوں کے انتخابات پر اتفاق ہوجاتا ہے تو اکتوبر یا اس سے پہلے بھی الیکشن کا بگل بج سکتا ہے ۔ سیاسی و معاشی ماہرین کی رائے میں ملک اس وقت ایک بڑے معاشی دباو¿ سے گزر رہاہے اور دشمن قوتیں اسے نقصان پہنچانے کےلئے موقع کی تاک میں ہیں۔ ایسے میں ملکی اداروں سمیت ہر محب وطن پاکستانی پر لازم ہے کہ وہ ملک کے مستقبل کے بارے میں سوچے اور اس کے استحکام کےلئے اپنا مثبت کردار ادا کرے تاکہ ملک اس بحران سے جلد نجات پا سکے۔
مہنگائی کا جن بے قابو،عوام کس کا در کھٹکائے
ادارہ شماریات کے جاری کردہ تازہ اعداد و شمارنے پی ڈی ایم حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔مہنگائی کا جن بے قابو ہو کر عام آدمی کی ہڈلی پسلی توڑ رہا ہے جبکہ حکومت اس پر قابو پانے کی سر مو کوشش کرتی نظر نہیںآتی۔اسے سیاسی مخالفین کی پکڑ دھکڑ اور ان کی رہائش گاہوں کے داخلی دروازے توڑنے سے فرست نہیں۔ عوامی مسائل کون حل کرے گا،یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے،ادارہ شماریات کے مطابق 27 اپریل کو ختم ہونے والے ہفتے میں قیمتوں کے حساس اشاریہ میں سالانہ بنیادوں پر مہنگائی کی شرح 46.82 فیصد تک بڑھ گئی ہے۔ بڑھتی ہوئی قیمتیں سب سے زیادہ تنخواہ دار اور دیہاڑی دار طبقے کو متاثر کر رہی ہیں کیونکہ مہنگائی میں اضافے کے پیش نظر دیگر طبقات اپنی سروس اور لیبر چارجز کےساتھ ساتھ اپنی تیار کردہ مصنوعات کی قیمتوں میں بھی اضافہ کر دیتے ہیں جبکہ مقررہ تنخواہ وصول کرنے والا طبقہ، بالخصوص نچلے طبقے کے لوگ مہنگائی میں اضافے سے سب بدحال ہو رہے ہیں۔اس سے قبل 20 اپریل کو قیمتوں کے حساس اشاریہ میں سالانہ بنیادوں پر 47.23 فیصد، 22 مارچ کو 46.65فیصد تک اضافہ دیکھا گیا، رمضان کے آغاز کے بعد سے قیمتوں کے حساس اشاریہ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جبکہ روپے کی قدر میں مزید کمی کے ساتھ ساتھ پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں اور سیلز ٹیکس میں اضافہ بھی جاری ہے۔مہنگائی پر قابو پانے کےلئے حکومت نے اب تک جو واحد حکمت عملی استعمال کی ہے وہ شرح سود میں مسلسل اضافہ ہے جسے اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے مانیٹری پالیسی کے آخری جائزے میں ریکارڈ 21 فیصد تک بڑھا دیا ہے۔ حکومت مالیاتی خسارہ پورا کرنے کےلئے آئی ایم ایف پروگرام کے تحت ایندھن اور بجلی کے نرخوں میں اضافے، سبسڈیز کے خاتمے، مارکیٹ کی بنیاد پر ایکسچینج ریٹ اور زیادہ ٹیکس عائد کرنے جیسے سخت اقدامات کر رہی ہے، جسکے نتیجے میں معاشی ترقی کی رفتار سست اور آنے والے مہینوں میں مہنگائی میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔
آئی ایس پی آر کی وضاحت
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے سابق آرمی چیف کے پاک فوج کی جنگی صلاحیت سے متعلق بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ۔آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری وضاحتی بیان میں کہا گیا ہے کہ سابق آرمی چیف کا پاکستان کو مستقبل کے خطرات پر صحافیوں کو آف دی ریکارڈ سیشن میں دیا گیا تھا جوبیان سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ،پاک فوج پاکستانی عوام کو یقین دلاتی ہے کہ ہمیں اپنی تیاریوں اور جنگی صلاحیت پر فخر ہے اور فخر کرتے رہیں گے۔ بیان میں کہا گیا کہ پاکستان کی مسلح افواج نے مادر وطن کے دفاع کیلئے ہمیشہ اپنے ہتھیار، آلات اور باہمت جنگی اہلکاروں کو تیار رکھا ہے اور تیاریاں جاری رکھیں گے۔سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے آف دی ریکارڈ بیان پر جو چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں اب اس سلسلے کو بند ہو جانا چاہیے،میڈیا اپنی ذمہ داری کا احساس کرے۔
اداریہ
کالم
بات چیت کابامعنی اور نتیجہ خیزہونا ملک کے مفاد میں ہے
- by web desk
- اپریل 30, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 756 Views
- 2 سال ago