کالم

بارکھان کے آنسو،اور چوالیس کروڑ آنکھیں

بات تو ویسے انتہائی المناک ،افسوس ناک اور وحشت ناک سی ہے ،مگر آپ سانحہ بارکھان کی نامعلوم الاسم ملزموں کے خلاف کاٹی گئی ایف آئی آر کی تاثیر دیکھئے کہ ،بالآخر وہی کچھ نکلا ، یعنی ملزم سردار عبدالرحمن کھیتران نہیں،بلکہ نامعلوم الاسم ملزمان ہیں۔ملنے والی مجروح لاشوں کے کوئٹہ سول ہسپتال میں کیئے گئے پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق لاشیں خان محمد مری کی چالیس سالہ اہلیہ اور بیٹوں کی نہیں ہیں ،بلکہ ایک سترہ سالہ جوان لڑکی اور دو دیگر افراد کی ہیں۔ پاکستان ایک عجیب و غریب ملک ہے یہاں کی سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جرم ہمیشہ معلوم اور مجرم ہمیشہ نامعلوم رہتے ہیں، یا پھر ایک طے شدہ حکمت عملی کے تحت ایسا کیا جاتا ہے۔ادھر چند روز پہلے ڈی ایچ اے میں پالتو چیتے نے گھر سے باہر نکل کر خوب ادھم مچایا تھا ، یہ درندہ ایک شخص کو ہلاک اور چند کو زخمی کرنے کے بعد بمشکل قابو آیا۔لیکن ایف آئی آر احتیاطا ًنامعلوم فرد کے خلاف کاٹی گئی تھی ۔اسی حکمت کے تحت المیہ بارکھان کے مقتولین کی ایف آئی آر بھی نامعلوم الاسم ملزمان کے خلاف کاٹی گئی تھی۔ ستم ظریف کہتا ہے کیا ہی اچھا ہو کہ آئندہ مردم شماری میں نامعلوم افراد کا شمار الگ مخلوق کے طور پر کر لیا جائے ۔بلوچستان کا سرداری نظام ، سندھ اور پنجاب کا جاگیرداری نظام، خیبر پختونخوا کا بچہ سقہ نظام اور وفاق کا چالاکی و مکاری نظام اس ملک کے زیردست طبقات کی محرومیوں اور بد نصیبیوں کی بنیادی وجوہات میں پہلے نمبر پر شمار کیے جا سکتے ہیں۔ظلم اور سفاکی کے یہ نظام اس لیے ختم نہیں کیے جاسکتے کہ ؛ یہ ریاست میں شہری حقوق کے طلبگار عام تام ، غریب شریب اور کمی کمین لوگوں کو زیر دام رکھنے کےلئے نہایت آزمودہ حل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان نظاموں کو پیروں فقیروں، گدی نشینوں اور مذہب فروشوں کی مکمل تائید و حمایت حاصل ہے۔ جبکہ چٹان کے کنارے بیٹھا ایک تیز نگاہ مگر فربہ پرندہ اور جھاڑیوں میں چھپا درندہ بھی ان لوگوں کو اپنے مقاصد سے ہم آہنگ اور ضروری خیال کرتا ہے۔ہمارے ملک میں عمومی طور اور بلوچستان میں خصوصی طور پر کمزور طبقات کو بزدل سرداروں کے رحم وکرم پر اسی لیے چھوڑا گیا ہے ۔آج کل ملک گیر توجہ ، تاسف اور احتجاج کا عنوان بلوچستان کے ایک ضلع بارکھان کے علاقے حاجی کوٹ سے تقریبا ڈیڑھ کلو میٹر دور واقع ایک اندھے کنویں سے ملنے والی تین مجروح اور مسخ شدہ لاشیں ہیں ، جنہیں اطلاع ملنے پر مقامی پولیس کی ریسکیو ٹیم نے کنویں سے نکال کر قریبی ضلع کوہلو منتقل کر دیا تھا۔ایک پولیس اہلکار کے مطابق تینوں افراد کے ہاتھ پاں رسیوں سے بندھے ہوئے تھے، جبکہ آنکھوں پر پٹیاں بھی باندھی گئی تھیں۔پولیس اہلکار کے مطابق خاتون کا چہرہ بری طرح سے کچلا گیا معلوم ہو رہا تھا ، جیسے اس پر تیزاب پھینک کر پتھر گرایا گیاہو ۔ فوری گمان یہ کیا گیا کہ شاید یہ اس مظلوم عورت اور اس کے دو بیٹوں کی لاشیں ہیں ،جس نے اپنے ویڈیو پیغام میں قرآن مجید ہاتھ میں تھام کر التجا کی تھی کہ اسے اور اس کے خاندان کے محصور افراد کے ساتھ ایک صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران کے نجی جیل خانے سے رہائی دلائی جائے ۔ بلوچی زبان میں کی گئی فریاد اور التجا میں کہا گیا تھا کہ” سردار عبدالرحمن کھیتران نے ہمیں قید کیا ہوا ہے ۔میری بیٹی کے ساتھ زیادتی کرتا ہے اور میرے بیٹوں کو بھی قید کیا ہوا ہے ۔ہمیں آزاد کرا جائے.”ضلع بارکھان کی حدود میں واقع ایک اندھے کنویں سے ملنے والی لاشیں مظلوم اور مقہور طبقات کو یہ پیغام دے رہی ہیں کہ طبقاتی جنگ میں ظالم کو مٹائے بغیر ،اپنے معدوم ہونے کے امکانات کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ۔ بارکھان کے کنویں سے ملنے والی تین لاشوں کو شدید تشدد کے بعد سر میں گولیاں مارکر ہلاک کیا گیا تھا۔سوشل میڈیا پر ان کی تصویریں ناقابل دید اور ناقابل برداشت ہیں۔ ان بدنصیب افراد کی لاشیں ملنے کے بعد علاقے دکی کے رہنے والےخان محمد مری نے یہ گمان ظاہر کیا تھا کہ شاید مرنے والی خاتون اس کی چالیس سالہ اہلیہ گرناز ہے۔اسی طرح ان میں سے ایک اس کا بائیس سالہ بیٹا محمد نواز اور دوسرا پندرہ سالہ بیٹا عبدالقادر ہے۔ خان محمد مری کا کہنا ہے کہ اس کے مقتولین گزشتہ چار سال سے سردار عبدالرحمن کھیتران کے نجی قید خانے میں بند تھے۔قید میں ان پر شدید تشدد کیا جاتا تھا، بھوکا رکھا جاتا تھا۔خان محمد مری نے کہا ہے کہ اس کی چودہ سالہ بیٹی اور پانچ سے تیرا سال کے چار بیٹے ابھی تک سردار کھیتران کی نجی جیل میں بند ہیں۔اور ان سب کی جان کو شدید خطرات لاحق ہیں۔خان محمد مری کے مطابق اس کی مظلوم اہلیہ گرناز نے سردار عبدالرحمن کھیتران کے ایک بیٹے سے فریاد کی تھی ،جس نے اس کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کی۔اس ویڈیو کے وائرل ہونے ،اور کنویں سے مجروح لاشیں ملنے کے بعد ملک گیر تشویش کے بعد سیکیورٹی فورسز متحرک ہوئیں،اور اس المیے نے ایک نئی صورت اختیار کرلی ۔جس کے مطابق لیویز نے دکی کے پہاڑی علاقے سے خان محمد مری کی مغوی اہلیہ گرناز کواس کی بیٹی اور بیٹے سمیت باریاب کر لیا ہے ،باقی کے تین بیٹوں کی تلاش کے لیے فورسز مختلف جگہوں پر چھاپے مار رہی ہیں۔اگرخان محمد مری کے اہلیہ اور بچے باریاب ہو چکے ہیں تو پھر کنویں سے ملنے والی تین لاشیں کن کی تھیں؟ یہ عقدہ سول ہسپتال کوئٹہ میں ہونے والے پوسٹ مارٹم رپورٹ نے حل کر دیا ہے ،جس مطابق تشدد اور آبرو ریزی کے بعد قتل کی جانے والی خاتون کی لاش گراناز نہیں ،ایک سترہ سالہ لڑکی کی ہے ۔ خان محمد مری کے اہل خانہ تو چلئے باریاب ہو گئے لیکن کنویں سے ملنے والی لاشوں اور ان کے بے رحم و بے حمیت قاتلوں کا مسئلہ اپنی جگہ پر باقی ہے۔ ایک پاکستانی کے طور پر میں جانتا ہوں کہ اندھے کنووں سے ملنے والی تشدد سے مجروح لاشوں کا کوئی قاتل کبھی منظر عام پر نہیں آیا کرتا۔ہمارے حساس ادارے ہمیشہ ایک بے نتیجہ تفتیش میں مصروف رہیں گے۔ایک سرداری نظام میں جھکڑے معاشرے میں عام لوگوں کی حیثیت ،چاہے وہ زندہ ہوں ،چاہیے مار دیئے جائیں،لاشوں جیسی ہی ہوتی ہے ۔ سردار عبدالرحمن کھیتران اور اس کے ایک بیٹے کے باہمی تنازعے کا ایندھن یہی مظلوم ، معلوم اور بے نوا لوگ ہی ہوتے ہیں۔یہ اپنی زندگیوں میں ہزار طرح کے فیصلے کرتے ہوں گے ، کاش یہ لوگ عزت و آبرو سے زندہ رہنے کا فیصلہ بھی کر لیں ،کاش۔خان محمد مری کے مطابق وہ خود سردار عبدالرحمن کھیتران کا ملازم رہا ہے، وہ پہلے ایک نوکر کے طور پر ملازمت کرتا تھا ،بعد میں اسے محافظ بنالیا گیا۔اس کے بقول سردار عبدالرحمن کھیتران نے اسے اپنے ایک بیٹے انعام شاہ کے خلاف عدالت میں گواہی دینے اور بعد ازاں قتل کرنے کا حکم دیا تھا، یہ سب مجھے گوارا نہیں تھا ،لہٰذا میں بھاگ کر روپوش ہو گیا ۔ جواب اور انتقام کے طور پر سردار عبدالرحمن کھیتران نے اس کی اہلیہ اور بیٹی سمیت سارے خاندان کو قید کر لیا۔ بارکھان بلوچستان کا انتہائی مشرقی ضلع ہے۔یہ ضلع کل تین ہزار چارسو گیارہ کلومیٹر رقبے پر محیط ہے جبکہ آبادی ڈیڑھ لاکھ سے متجاوز ہے۔ بارکھان کے جنوب میں ضلع کوہلو اور ڈیر بگٹی کے علاقے ہیں ،جبکہ شمال میں موسی خیل اور لورالائی ،اس کے مشرق میں پنجاب کا شہر ڈیرہ غازی خان واقع ہے ۔ یہاں ایک بلوچ قبیلے کھیتران کی واضح اکثریت ہے۔ یہ لوگ بول چال اپنی مخصوص بولی کھیترانی میں کرتے ہیں۔یہاں کا سردار،سردار عبدالرحمان کھیتران بلوچستان عوامی پارٹی کا ترجمان اور بلوچستان حکومت کا صوبائی وزیر تعمیرات و مواصلات ہے ۔مبینہ طور پر اس کا ایک بیٹا آرمی میں لیفٹنٹ کرنل کے عہدے پر فائز ہے ۔ قتل کی اس بہیمانہ واردات پر سوائے سردار عبدالرحمن کھیتران کے، ہر پاکستانی اداس ،پریشان اور مشتعل نظر آتا ہے ۔خان محمد مری کا المیہ یہ ہے کہ وہ گزشتہ کئی برس سے اپنی بیوی بچوں کی سردار کے نجی جیل خانے سے رہائی کے لیے آواز اٹھا رہا ہے ۔وہ کہتا ہے کہ میں اسلام آباد تک گیا ہوں ،ہر دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔لیکن کہیں کوئی شنوائی نہیں ہوئی ۔خان محمد مری نہیں جانتا کہ نہ کھلنے والے دروازے توڑنے پڑتے ہیں۔انہوں نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد آکر خوامخواہ فریاد کی ،شاید اس نادان کو علم نہیں تھا کہ اسلام آباد شہر کے کان نہیں ہیں کہ سن سکیں ، اس شہر کی آنکھیں بھی نہیں ہیں کہ دیکھ سکیں۔ یہ شہر زندہ تو ہے لیکن اس کا دل نہیں دھڑکتا۔سنا ہے کہ یہاں ملک کی سب سے بڑی عدالت ہے ،تو آپ ہی بتائیے کہ اتنی بڑی عدالت ریاست و سیاست کے چسکے دار کیسز چھوڑ کر دور دراز بارکھان کے خان محمد مری جیسے عام شخص کی فریاد پر از خود نوٹس کیوں لیتی؟اور وہ بھی ایک برسر اقتدار سردار کے خلاف ،جبکہ وہ سردار صوبائی وزیر بھی ہو ۔بلوچستان کا سرداری نظام بلوچ عوام کو خود مٹانا ہو گا۔حیرت ہوتی ہے جب بلوچ سردار ، سندھی وڈیرے ، پنجاب کے جاگیردار اور سجادہ نشین اور خیبرپختونخوا کے ملا جمہوریت کا نام لیتے ہیں۔ یہ سارے عفریت ایک جیسے دانت ، ایک جیسے پیٹ اور ایک جیسے پنجے رکھتے ہیں ۔ انہیں ختم کرنا کسی قانون ،کسی مطالبے یا کسی فریاد سے ممکن نہیں ، اس لئے کچھ اور کرنا ہو گا ورنہ بارکھان کے اندھے کنویں اسی طرح ہاتھ پیر بندھی لاشیں اگلتے رہیں گے ، اگر چوالیس کروڑ آنکھیں اسی طرح آنسوو¿ں سے بھرتی رہیں ،تو پھر ایک دن آنسوں کا سیلاب سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri