بجلی بلوں میں حالیہ ظالمانہ اضافوں، غلط اور اضافی میٹر ریڈنگ، بلاجواز اور مضحکہ خیز قسم کے تیرہ سے زائد ٹیکسز،ڈیوٹیز اور بھتوں کے خلاف گا¶ں گا¶ں شہر شہر مظاہروں،ریلیوں اور جلسوں جلوسوں جسمیں عوام سینہ کوبی کرتے،،، سر عام بجلی کے بلوں کو جلاتے، تاجر، مزدور سب سراپا احتجاج حکومت وقت کو اسکی ظالمانہ پالیسیوں پر کوستے نظر آ رہےہیں۔ اور جب لوگوں کے کاروبار بند، میٹر ریڈرز سے لڑائی جھگڑے روزانہ کا معمول اور واپڈا دفاتر کے گھیرا¶ جلا¶ کی خبروں اور حتاکہ کچھ مقامات سے خودکشیوں کی رپورٹس آنا شروع ہوئیں تو اسکے کءدنوں بعد بالآخر حکومت وقت کو یہ خیال آ ہی گیا کہ ان اضافی بلوں پر عوام کو وہ کیسے اور کتنا فوری ریلیف دے سکتے ہیں؟ اور محترم قارئین کرام! گزشتہ دو روز سے پاکستان کے یہ چنیدہ،مانے منائے نگران وزرا ہیں جو صرف اسی خصوصی اجلاس میں اس گھمبیر مسئلے پر گھنٹوں اس پر مغز ماری کر رہے ہیں کہ اس عوام بے چاری کو کیسے فوری طور پر اس کربناک صورتحال سے باہر نکالیں جو کئی ہفتوں سے سڑکوں پر ماری ماری پھر رہی ہے، لیکن اس سر جوڑ بیٹھک کا نتیجہ پھر بھی صفر بٹہ صفر ہی نکلا۔ آج ایک مضحکہ خیز تجویز یہ بھی پیش کی گئی کہ ریلیف یا تکلیف کم کرنے کیلئے سب سے پہلے ان فیکٹریوں کارخانوں پر چھاپے مارے جائیں جو کسی نہ کسی طرح بجلی چوری کرتے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق جناب نگران وزیر اعظم کا یہ بھی اچھوتا اور درد بھرا خیال تھا کہ چوری چکاری کو روکنے کے لیئے نگران وزیراعظم صاحب خود صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سے ملاقاتیں کریں گے۔ واہ سبحان اللہ، کیا ذہین فطین انسان ہیں یار یہ لوگ! یعنی مریض درد سے کراہ رہا ہے اور ڈاکٹرز اس بات پر خصوصی میڈیکل بورڈ میں اسلیئے بیٹھے ہیں کہ سب سے پہلے اس بات کو طے کر لیا جائے کہ یہ درد کیا ہے، کیوں اور کس طرح یہ پہلے پہل دنیا میں معرض وجود میں آیا اور سب سے پہلے کس انسان کو لگا؟ اس زیر مشاہدہ مریض کو یہ کیسے چمٹا؟۔ کیا کیا فیکٹریز تھے کہ یہ مریض اس درد میں مبتلا ہوا اور کیا اس میں اس مریض کی کوءاپنی غلطی، کمی کوتاہی تو نہیں تھی کہ باقی ساری دنیا کو چھوڑ کر یہ درد صرف اسی کو آ لگا؟وغیرہ وغیرہ۔ بجائے مریض کو درد سے فوری نجات کی کوءدوا تجویز کریں، یہ خصوصی۔۔اجلاس پر اجلاس۔۔ بلا ئے جا رہے ہیں کہ پہلے اس بات کی تہہ تک پہنچیں کہ یہ مرض اس کو کیوں اور کیونکر لگا۔ کیا بات ہے اس اپروچ کی، مریض بے چارہ تڑپ رہا ہے اور ڈاکٹرز مریض یا مرض کی غلطی ڈھونڈنے میں لگے ہوئے ہیں۔ تقریباً بالکل یہی صورتحال اسوقت ہماری نگران کابینہ میں بھی درپیش ہے۔ جو سارا کام چھوڑ چھاڑ کر عوام کے غم میں گھلتے جا رہے ہیں کہ ان بے چاروں کو بجلی بلوں جیسے عذاب سے کیسے فوری طور وہ کتنا ریلیف دے سکتے ہیں لیکن یہ سب کو پتہ ہے کہ یہ لوگ کچھ نہیں کر سکتے، نہ ہی کچھ کرنیکا انکا ارادہ ہے۔ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا والی بات یا اسے ایسے بھی کہا جا سکتا ہے کہ نشتند، خوردن برخواستند۔ بھائی اس ٹوپی ڈرامے کی کیا ضرورت تھی، یہ فیصلہ تو دو منٹ میں ہو سکتا ہے۔ جیسی صورتحال چل رہی ہے، سب سے پہلے آپ لوگ پہلی نشست میں ہی توانائی ایمرجنسی لگاتے۔ نگران وزیراعظم کابینہ کے اسی اجلاس میں جس بڑے ھال کمرے میں یہ سب کچھ ہو رہا تھا، علامتی طور پر ہی سہی، دو چار بتیاں خود ہی گل کروا دیتے، آٹھ دس ائیر کنڈیشنز میں سے دو چار ہی بند کروا دیتے تو آپکی نیت کا سب کو اندازہ ابھی تک ہو چکا ہوتا۔ جناب والا، اس سلسلے میں تمام مفت خوروں کے مفت کے یونٹ ختم کروانے بھی شامل ہیں، اگر وہ بہت ہی اہم لوگ ہیں تو انکو اضافی الا¶نس دلوانے کا اعلان ہوتا لیکن کچھ مخصوص لوگوں کو فری بجلی دوسرے عام عوام پر بہت گرجدار آواز میں آسمانی بجلیاں گراتی ہے اور لوگوں میں عدم استحکام اور تفاوت کے عنصر کو بڑھاتی ہے۔ باقی رہا فوری اور بروقت ریلیف تو میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ نگران کابینہ کا کوءایک رکن بھی کسی بھی صارف کے حقیقی صرف شدہ یونٹس اور بجلی کی قیمت کے بعد کے تمام تیرہ۔۔چودہ ٹیکسز کا دفاع نہیں کر سکتا، یہ سارے حکومتی اللے تللے ہیں، جو جہاں سے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے وہ حکومت بغیر کسی معقول جواز کے بجلی، گیس بلوں اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافوں کے ذریعے وصول کرنا شروع کر دیتی ہے جو کسی بھی صورت میں۔۔ریاستی بھتہ خوری۔۔سے کم نہیں، لہذا فوری ریلیف تو ابھی کے ابھی دیا جا سکتا ہے بس زرا انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھیں اور فوری طور پر تمام غیر قانونی اور بلا جواز ٹیکسز کو ختم کرنیکا حکم جاری فرمائیں۔ عدم ادائیگی پر کاٹے گئے تمام میٹرز فوری واپس لگائے جاویں اور گزشتہ سولہ ماہ کے بلوں کے ذریعے سرکاری لوٹ مار واپس دلوائی جاوے۔ چوری چکاری اور ملوں فیکٹریوں پر چھاپے بعد کی باتیں ہیں، پہلے مریض کو بچائیں جو جان بلب بستر مرگ پر ایڑیاں رگڑ رہا ہے۔ سچ پوچھیں تو جو باتیں گزشتہ دو دن کی خصوصی میٹنگ میں کی جا رہی ہیں یہ تو نہ کرنے والی باتیں ہیں۔ ٹھیک ہے ملکی خزانے کو کچھ جھٹکا لگے گا لیکن وہ آپ دوسرے ذرائع سے پورا کر سکتے ہیں لیکن اس بھتہ سرکاری دہشتگردی سے عوام کو خود کشیوں پر مجبور نہ کریں۔پی ٹی آئی حکومت نے ایک اعلیٰ مثال قائم کرتے ہوئے اپنے دور حکومت میں گیس پر اضافی بلوں کا ازالہ اس طرح کیا تھا کہ اگلے کءماہ لوگوں کو مائنس بلنگ کروائی گئی جب تک کہ حساب بالکل اصل ریڈنگ کے مطابق اپنے صحیح اعداد و شمار تک پہنچ گیا۔ بجلی کے بلوں میں ایک پی ٹی وی فیس وصولی بھی ہے جسکے ساتھ شاید اب ریڈیو فیس کا اضافہ بھی شامل ہے۔ یہ وصولی بھی ریاستی جبر کے زمرے میں شمار ہوتی ہے، کیا پی ٹی وی عوام کی امنگوں کے مطابق وہ سب کچھ دکھا رہا ہے جو عوام چاہتے ہیں یا صرف حکومت وقت کی ہی مدح سرائی اور ترجمانی کرتا ہے۔ کیا پی ٹی وی کمرشلز نہیں چلاتا، بلکہ میرے خیال میں تو سرکاری چینلز میں کمرشلز کی کوءکمی نہیں ہے جس سے یہ کروڑوں روپے کماتا ہے تو پھر اسکا چندہ جمع کر کے اسکی بے کار جھولی میں ڈالنے کا تو کوءمعقول جواز نہ ہے، لہذا جب سے پی ٹی وی فیس عوام کی جیبوں سے نکال اس ادارے کو دی گئی ہے وہ اسی تاریخ سے عوام کو لوٹائے جاوے۔ اگر جناب آپ واقعی مخلص ہیں اور نگران ہوتے ہوئے بھی عوام کا درد رکھتے ہیں تو اوپر تجویز کردہ چند ایک اقدامات اگر آپ کر دیتے ہیں تو یقیناً آپ کے چلے جانے کے بعد عوام آپکو تادیر یاد رکھے گی۔ کیونکہ آپ ہی نے تو یہ ٹیکس لگائے تھے اور انکو دفع دور کرنیکا اختیار آپ حکومت سے زیادہ کس کے پاس ہے. کالم کے اختتام کے ساتھ ہی ٹی وی ٹکرز پر نظر پڑی تو یہ خبر چل رہی تھی۔ بجلی بلوں میں کمی کے حوالے سے فی الحال کوئی تجویز زیر غور نہیں۔