کالم

بخشش و مغفرت کی رات

ماہ شعبان المعظم کی پندرہویں شب ”شب برات“ کہلاتی ہے، اس کے علاوہ اس مبارک رات کے بہت سے نام ہیں اس کو ”لیلة الصک“ یعنی دستاویز والی رات ، اور ”لیلة الرحمة“ یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمت خاصہ کے نزول کی رات کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے ۔ احادیث مبارکہ اور روایات میں اس رات کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت بیان کی گئی ہے، اس مبارک رات میں اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے، بخشش و مغفرت اور رحمت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، انعام و اکرام کی بارش ہوتی ہے توبہ اور دعائیں قبول ہوتی ہیں، اس رات میں آئندہ سال کی اموات و پیدائش لکھی جاتی ہیں، اس رات میں رزق کی تقسیم کردی جاتی ہے ،اس رات میں بندوں کے اعمال و افعال آسمان پر لیجائے جاتے ہیں اور اس رات میں اللہ تعالیٰ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر بندوں کو دوزخ کی آگ سے نجات عطا فرماتے ہیں۔ یوں تو اللہ عزوجل کی عطا اور بخشش کا حال کیا پوچھنا،یہ ہردم رواں رہتی ہے بس بندے کی تھوڑی سی توجہ اورالتفات کی طالب ہوتی ہے ،اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بھراپڑاہے ،اس کے جودوسخااوردادودہش کے خزانے اگروہ سب کو دے تب بھی اس میں کمی نہیں آئے گی،یوں سمجھئے جیسے سمندرمیں کوئی انگلی ڈال کرباہرنکالے پھروہ دیکھے کہ اس کی انگلی میں سمندرکے پانی کا کتناحصہ ہوتا ہے ۔ لیکن اس رات عطائے خداوندی اورنوازش ایزدی کا بھی عجیب حال ہوجاتا ہے ، اس رات مانگنے والے کا ہاتھ تو تھک سکتا ہے مگردینے والا بغیر تھکاوٹ کے پوری فراخی اورکشادگی کے ساتھ دیتاجاتا ہے ، ہرضرورت کی تکمیل کی جاتی ہے اس رات غروب آفتاب سے طلوع فجرتک مسلسل یہ ندالگائی جاتی ہے ”آگاہ ہوجاو¿“کوئی ہے طلب گارِمغفرت کہ میں اس کی مغفرت کروں ؟ہے کوئی طالب رزق کہ میں اس کورزق عطاکروں ہے ، اور کوئی مبتلائے مصیبت کہ میں اس کو بخش دوں ؟ اور اس طرح دیگرامورکی بابت فرماتے ہیں یہاں تک کہ صبح طلوع ہوجائے۔(ابن ماجہ حدیث: ۸۸۳۱)اورایک روایت کے الفاظ ہیں کہ ”ہے کوئی طلب گارتوبہ کہ اس کی توبہ کوشرف قبولیت بخشاجائے ،ہے کوئی قرض دارکہ اس کی قرض کی ادائیگی کا سامان کیا جائے “۔ ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس رات میں رحمت خداوندی بغیرکسی خصوصی امتیازکے ہرشخص کی جانب متوجہ ہوتی ہے ، اس کی عطااورنوازش کا دروازہ ہرخاص وعام کے لیے کھلاہوتا ہے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، فرماتی ہیں، میں نے ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بستر پر نہ پایا، تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلی، میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع (مدینہ طیبہ کا قبرستان) میں ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مجھے دیکھ کر) ارشاد فرمایاکیا تو یہ اندیشہ رکھتی ہے کہ اللہ اور اس کا رسول تیرے ساتھ بے انصافی کریں گے؟ (یعنی ان کی باری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی دوسری بیوی کے پاس چلے جائیں گے) میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے یہ خیال ہوا کہ آپ اپنی کسی دوسری بیوی کے پاس تشریف لے گئے ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایااللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب میں آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور قبیلہ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں۔ (بنوکلب عرب کا ایک قبیلہ تھا، عرب کے تمام قبائل سے زیادہ اس کے پاس بکریاں ہوتی تھیں)۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب مخلوق کی طرف نزول اجلال فرماتے ہیں اور مشرک اور کینہ پرور کے علاوہ سب کی بخشش فرما دیتے ہیں“۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں اس رات ”اللہ تعالیٰ ہر مومن کی بخشش فرما دیتے ہیں، سوائے والدین کے نافرمان ،بے ادب اور ذاتی دشمنی رکھنے والے کے“۔ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے” جب نصف شعبان کی رات آجائے تو تم اس رات میں قیام کرو اور اس کے دن (پندرہویں شعبان) کا روزہ رکھا کرو، اس لیے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ سورج غروب ہونے سے طلوعِ فجر تک قریب کے آسمان پر نزول فرماتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ کیا ہے کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا میں جس کی مغفرت کروں؟، کیا ہے کوئی مجھ سے رزق کا طالب کہ میں اس کو رزق عطا ءکروں؟ کیا ہے کوئی کسی مصیبت یا بیماری میں مبتلا کہ میں اس کو عافیت عطا کروں؟ اللہ تعالیٰ برابر یہ آواز دیتے رہتے ہیں یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجاتا ہے۔ ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ شب برات ایک فضیلت اور عظمت والی رات ہے۔ دعا ہے کہ اس رات کی برکتیں اور رحمتیں ہمیں نصیب ہوں، اور اللہ تعالیٰ اس رات ہمیں وسعت رزق ، ایمان کامل اور جہنم سے آزادی نصیت فرمائے۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے