کالم

بلوچستان لہو لہو

پاکستان ایک بار پھر آزمائش کی گھڑی سے گزر رہا ہے۔ جعفر ایکسپریس پر حملہ، درجنوں معصوم جانوں کا ضیاع، اور ملک میں جاری بے چینی ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ جب بھی پاکستان میں اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں، دشمن قوتیں ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی ہیں اور ہمیں اندرونی طور پر تقسیم کرنے کی سازشیں کی جاتی ہیں۔ یہ وقت ان سازشوں کو ناکام بنانے کا ہے، نہ کہ ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے کا۔ ہمیں مل کر ملک کے دفاع کو مضبوط کرنا ہوگا اور دشمنوں کو یہ پیغام دینا ہوگا کہ پاکستان کے عوام اور اہم ادارے ایک پیج پر ہیں۔
یہی وہ وقت ہے جب ہمیں اختلافات سے بالاتر ہو کر یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ریاست کے اہم ادارے ملک کی بقا کے لیے ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں، اور عوام نے ہر مشکل وقت میں ان پر اعتماد کیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں، اور اہم ادارے بھی عوامی جذبات اور جمہوری قیادت کے ساتھ مل کر ملک کو استحکام کی راہ پر گامزن کریں۔ پاکستان ایک عظیم قوم ہے اور ہماری طاقت ہماری یکجہتی میں ہے۔ قیدی نمبر 804 (عمران خان) کی قیادت کے بغیر ملک کو ان بحرانوں سے نکالنا ممکن نہیں۔
ہمارے واٹس ایپ گروپ "پی ٹی آئی کے کارکن اور لیڈرز” میں آج ایک اہم نشست ہوئی، جس میں پاکستان کے اندر اور باہر موجود پارٹی کارکنان اور لیڈران نے شرکت کی۔ موضوع تھا جعفر ایکسپریس کا سانحہ اور اس نازک گھڑی میں پاکستان کے استحکام کے لیے ہماری ذمہ داری۔ تقریبا 40 سے 50 افراد نے اس گفتگو میں حصہ لیا۔
ہم سب کا اس پر اتفاق تھا کہ یہ وقت سیاست سے بالاتر ہو کر ملکی مفاد میں سوچنے کا ہے۔ تمام ریاستی اداروں کو ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہوگا۔ ہمارے اہم ادارے ہمیشہ ملک کے تحفظ میں کلیدی کردار ادا کرتے آئے ہیں، اور آج بھی ہمیں اسی یکجہتی کی ضرورت ہے تاکہ دشمن عناصر کو واضح پیغام دیا جائے کہ ہم کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
ہم نے یہ نکتہ بھی اٹھایا کہ ملک کو مستحکم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام فریقین مل کر آگے بڑھیں۔ ریاست کو اختیار حاصل ہے کہ وہ قانون کے مطابق فیصلے کرے، لیکن اس وقت ملک میں سیاسی استحکام بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ سرحدوں کی حفاظت۔ ہمیں مل کر ایسے راستے نکالنے ہوں گے جو ملک میں امن، انصاف اور ترقی کی ضمانت بنیں۔ اگر قیادت کو عوام سے دور کر دیا جائے اور عوام کی آواز کو دبایا جائے تو اس سے صرف دشمنوں کو فائدہ ہوگا۔
اسی نشست میں سابق ایم پی اے صبرینہ جاوید نے نہایت اہم نکتہ اٹھایا کہ اگر پی ٹی آئی کے کارکن واقعی انتشاری ہوتے تو کیا وہ اڈیالہ جیل جا کر اپنے قائد کو آزاد نہیں کروا سکتے تھے؟ اگر وہ انتشار پسند ہوتے تو کیا وہ ڈی چوک اور پریزیڈنٹ ہاس میں مظاہروں تک محدود رہتے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم ایک جمہوری اور آئینی جماعت ہیں، جو ملکی قوانین کی پاسداری کرتی ہے۔ ہماری جدوجہد انصاف اور عوامی حقوق کے لیے ہے، نہ کہ کسی ذاتی مفاد کے لیے۔
ہم نے اس بات پر بھی زور دیا کہ قومی یکجہتی کے بغیر دشمن کے عزائم کو ناکام بنانا ممکن نہیں۔ دنیا ہمارے سیاسی حالات کو دیکھ رہی ہے اور ہمیں متحد ہو کر یہ پیغام دینا ہے کہ ہم کسی بھی بیرونی یا اندرونی خطرے کے سامنے کمزور نہیں پڑیں گے۔ ہمیں اپنی ریاستی اداروں کے ساتھ مل کر ایک مضبوط اور خودمختار پاکستان کے لیے کام کرنا ہوگا۔ہم نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ جب ملک میں انصاف نہیں ہوتا تو عوام میں بے چینی پیدا ہوتی ہے۔ ایک ایسا پاکستان جہاں انصاف سب کے لیے یکساں ہو، جہاں ہر شخص کو اپنے حقوق کا تحفظ حاصل ہو، وہی حقیقی معنوں میں ایک مضبوط پاکستان ہوگا۔ جب قائد کو جیل میں ڈال دیا جائے، جب سیاسی کارکنوں کو بغیر کسی جرم کے پابندِ سلاسل کیا جائے، تو عوام کے دلوں میں مایوسی پیدا ہوتی ہے۔ ہمیں ایسی پالیسیوں کو فروغ دینا ہوگا جو عوام اور قیادت کے درمیان پل کا کردار ادا کریں، نہ کہ دوریاں پیدا کریں۔
بلوچستان پاکستان کا ایک اہم صوبہ ہے، جو ہمیشہ سے دشمنوں کے نشانے پر رہا ہے۔ بیرونی قوتیں وہاں کے عوام کو ورغلانے کی کوشش کرتی ہیں، لیکن ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ بلوچستان بھی اتنا ہی پاکستانی ہے جتنا کہ پنجاب، سندھ یا خیبرپختونخوا۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچستان کے عوام کو یہ احساس دلایا جائے کہ وہ تنہا نہیں ہیں، بلکہ پورا پاکستان ان کے ساتھ کھڑا ہے۔
بلوچستان میں ہونے والے ظلم و ستم کی مذمت کرنا ہمارا حق ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنی ریاست کے خلاف کوئی بیانیہ اپنائیں۔ ہم پاکستان کے وفادار ہیں اور ہمیشہ رہیں گے، لیکن ہمیں ریاستی پالیسیوں میں بہتری کے لیے بات کرنا ہوگی تاکہ عوام کے دلوں میں پیدا ہونے والے خدشات کا ازالہ کیا جا سکے۔ اگر کسی کے بچے لاپتہ ہوتے ہیں، اگر کسی کے گھروں پر بلاجواز چھاپے مارے جاتے ہیں، تو یہ چیزیں عوام میں بے چینی پیدا کرتی ہیں۔ ہمیں ایک ایسا نظام تشکیل دینا ہوگا جس میں ہر شہری کو یہ احساس ہو کہ وہ برابر کا پاکستانی ہے، اور اس کے حقوق محفوظ ہیں۔
آخر میں، عظمی نقوی نے بڑی تفصیلی دعا کرائی۔ انہوں نے دل کی گہرائیوں سے دعا کی کہ پارٹی کے قائد اور دیگر بے گناہ قیدی جلد رہا ہوں، ملک میں استحکام آئے، اور پاکستان ایک بار پھر ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔ انہوں نے ان شہدا کے لیے بھی دعا کی، جنہوں نے جعفر ایکسپریس میں اپنی جانیں قربان کیں۔
یہ وقت انتشار کا نہیں بلکہ اتحاد کا ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلنا ہوگا، ریاست کے اہم اداروں کے پیچھے کھڑا ہونا ہوگا اور جمہوری قیادت کے ساتھ مل کر پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈالنا ہوگا۔ یہ وقت پاکستان کو درپیش چیلنجز کا متحد ہو کر مقابلہ کرنے کا ہے، نہ کہ ایک دوسرے پر الزام تراشی کا۔یاد رکھیں بی ایل اے پڑوسی ملک کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں انڈین ٹیلی ویژن کے پروگرام میں میجر گورو اریا نے مجھے کہا تھا کہ بلوچستان کے ایک ایک بندے کا نام میرے پاس فون پہ محفوظ ہے وہ اسی بی ایل اے کی بات کر رہا تھا اور اس نے مجھے قتل کی دھمکی بھی دی تھی اور کہا تھا انجینیئر آپ کو یہ پتہ بھی نہیں چلے گولی کہاں سے آئی اور کہاں نکل گئی جس کے جواب میں میں نے یہ کہا تھا کہ تم بزدل دشمن ہو ہمیشہ چھپ کے وار کرتا بغل میں چھری رکھتے اور منہ پہ رام رام ہوتا مزہ تو تب ہے کہ سامنے سے وار کرو یہی وار تم نے 1971 میں کیا تھا۔ہم سب کو یہ سمجھنا ہوگا کہ پاکستان کی بقا ہمارے اتحاد میں ہے۔ ہمیں ایک ایسا پاکستان بنانا ہے جہاں ہر شہری کو اس کے حقوق حاصل ہوں، جہاں ہر کسی کو انصاف ملے، اور جہاں عوام اور ریاستی ادارے ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوں۔ یہی وہ راستہ ہے جو پاکستان کو ایک ترقی یافتہ اور مضبوط ملک بنائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے