کالم

بھارتی جیلوں میں پاکستانی قیدیوں کی حالت زار

بھارتی جیلوں میں قید پاکستانی شہریوں کی حالت زار سے ان کو درپیش مشکلات، قانونی پیچیدگیوں اور بھارتی عدلیہ کے معیار انصاف سے پردہ ہٹ گیا ہے۔حال ہی میں ایک افسوسناک واقعہ سامنے آیا جب ضلع پشین بلوچستان کے رہائشی 60سالہ حامد خان نے بھارتی ریاست راجستھان کی الور سینٹرل جیل میں خودکشی کی کوشش کی۔ اس کا مایوس کن عمل بہت سے پاکستانی قیدیوں کو درپیش سنگین صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔حامد خان کی خودکشی کی کوشش اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ بہت سے لوگ طویل قید کاٹنے پر مجبورہیں، کچھ کو 10سال تک کی سزائیں سنائی گئیں ۔ بہت سے لوگ اپنی سزا کی مدت پوری کرنے کے باوجود نظر بند رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ بہت زیادہ ذہنی تناﺅ اور دباﺅ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بھارت کی جیلوں میں بند تقریبا 347 پاکستانی شہریوں میں سے 249 عام شہری اور 98ماہی گیر شامل ہیں جن میں سے زیادہ ترکو من گھڑت مقدمات میں پھنسایاگیا ہے۔اپنی سزا پوری ہونے کے باوجود 76کے قریب پاکستانی قیدی بھارتی جیلوں میں نظر بند ہیں جو وطن واپسی کے منتظر ہیں۔رہائی کے حقدار بہت سے قیدی مسلسل نظربند رہتے ہیں جس طرح 1998میں سزا کی مدت پوری کرنے والے ایک پاکستانی قید ہیں۔بھارت اور پاکستان دونوں سال میں دو بار قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ کرتے ہیں، اس کے باوجود وطن واپسی کا عمل سست روی کا شکار ہے۔ بھارت اکثر رہائی کی درخواستوں کا منفی جواب دیتا ہے۔ انسانی ہمدردی کے حوالے سے بھارت کی یہ مسلسل بے حسی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ بھارت کو اپنے قوانین پر عملدرآمد اور تمام قیدیوں کے ساتھ منصفانہ سلوک کو یقینی بنانے کی اشد ضرورت ہے، چاہے وہ کسی بھی نسل یا مذہب سے ہوں۔ خودکشی کی حالیہ کوشش غیر منصفانہ قیدیوں کی حالت زار سے نمٹنے کے حوالے سے مودی حکومت کےلئے ایک یاد دہانی ہے۔ یہ بین الاقوامی برادری اور غیر سرکاری تنظیموں سے بھی تقاضا کرتی ہے کہ وہ ان تکلیف دہ واقعات کا نوٹس لیں اور متاثرہ افراد کو انصاف دلوائیں۔ صرف اجتماعی اقدامات سے ہی ان قیدیوں کی آواز سنی جا سکتی ہے ۔ پاکستانی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ بھارت کی مختلف جیلوں میں ساڑھے چار سو سے زیادہ پاکستانی قید ہیں جنہیں مختلف مقدمات کا سامنا ہے تاہم ان میں سے صرف تیس قیدیوں کو پاکستانی ہائی کمیشن تک رسائی حاصل ہے ۔ متعدد قیدی سزا پوری ہونے کے باوجود بھی بھارتی جیلوں میں قید ہیں۔ 364 پاکستانی مختلف مقدمات میں بھارتی جیلوں میں قید ہیں جبکہ اس کے علاوہ 105 پاکستانی ماہی گیر بھی بھارتی جیلوں میں زندگی گ±زار رہے ہیں۔ 30 قیدی ایسے ہیں جو کہ اپنی سزا پوری کرنے کے باوجود طویل عرصے سے بھارتی جیلوں میں قید ہیں اور ا±ن کی رہائی کے لیے پاکستانی حکام نے بھارتی حکام کے ساتھ رابطہ کیا ہے لیکن ابھی تک بھارت سے کوئی مثبت جواب نہیں ملاسکا۔ جن پاکستانی قیدیوں کو قونصل تک رسائی نہیں ملی ہے ا±ن کے بارے میں بھارتی حکام سے مسلسل رابطے میں ہیں ۔ قائمہ کمیٹی نے وزارت خارجہ سے پاکستان میں موجود بھارتی قیدیوں کی تفصیلات بھی مانگی جو ا±نہوں نے فراہم نہیں کیں اور کہا کہ وہ وزارت داخلہ سے اس کی تفصیلات حاصل کرکے قائمہ کمیٹی کو بتائیں گے۔پاکستان نے بھارتی حکومت سے 1965 اور 1971 کی جنگوں میں لاپتہ ہونےوالے دفاعی اہلکاروں کو قونصلر رسائی دینے اور 56 سول قیدیوں تک خصوصی قونصلر رسائی کا بھی مطالبہ کیا تھا۔ بھارت سے رہائی پاکرآنیوالے 22 پاکستانی شہریوں کو واہگہ بارڈرپرپاکستان رینجرزپنجاب نے خوش آمدید کہا، انہیں ہارپہنائے اورکھانا دیا گیا۔ حکام کے مطابق معمول کی تحقیقات اور پوچھ گچھ کے بعد بھات سے رہا ہوکرآنیوالوں کو ان کے خاندانوں کے حوالے کردیا جائیگا جبکہ ماہی گیروں کو ایدھی فاو¿نڈیشن کی معاونت سے کراچی بھیجا جائیگا۔پاکستان نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں 2003 سے بھارت میں قید شہری ضیا مصطفی کے قتل پر شدید احتجاج کرتے ہوئے نئی دہلی سے وضاحت طلب کی ہے۔یہ پہلی دفعہ نہیں، ماضی میں بھی پاکستانی سویلین قیدی مردہ پائے گئے۔ پاکستان اس ماورائے عدالت قتل کی شدیدمذمت کرتا ہے۔ کشمیر کے ضلع پونچھ میں گزشتہ برس مبینہ طور پر 11 اور 14 اکتوبر کے درمیان سکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے مابین فائرنگ کے تبادلے میں نو سکیورٹی اہلکار اور ’کالعدم لشکر طیبہ کے عسکریت پسند‘ ضیا مصطفی ہلاک ہوئے تھے ۔ مصطفی کو مارچ 2003 میں جموں و کشمیر پولیس نے مبینہ طور پر کشمیری پنڈتوں کے قتل عام کے ماسٹر مائنڈ کے طور پر گرفتار کیا تھا۔ان کی گرفتاری کا اعلان 10 اپریل، 2003 کو جموں و کشمیر کے ڈائریکٹر جنرل پولیس کے سوری نے سری نگر میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے