کالم

بھارتی سرکار کا مسلمانوں سے ناروا سلوک

riaz chu

بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں جن میں غیر قانونی حراست، تشدد اور قیدیوں کی جعلی مقابلوں میں ہلاکتیں ، لوگوں پر کھلے عام حملہ کرنے، ان کے ذریعہ معاش اور بہت سے معاملات میں ان کی عبادت گاہوں کے خلاف وسیع پیمانے مداخلت شامل ہے۔ موجودہ مودی حکومت مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو مزید دبانے کے لیے ہندوتوا کے نظریے کو فروغ دے رہی ہے۔بی جے پی اور اس کی نظریاتی سرپرست راشٹریہ سویم سیوک سنگھ ( ار ایس ایس) نے ہندوو¿ں کو مسلمان اور عیسائی مذہب اختیار کرنے پر خبردار کیا اور بھارت میں ” آبادیاتی عدم توازن” روکنے پر زور دیا۔ اسی وجہ سے بھارت کی آزادی کے بعد سے مسلمانوں کو آئینی تحفظات کے باوجود منظم امتیازی سلوک، تعصب اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔نریندرا مودی کی جماعت بی جے پی کے 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد انتہا پسند ہندوو¿ں کے ہاتھوں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو مسلسل ناروا سلوک کا سامنا ہے حالانکہ بھارت کی ایک ارب 40 کروڑ کی آبادی میں تقریبا 15 فیصد مسلمان اور کم و بیش 80 فیصد ہندو ہیں۔ تمام خصوصی قوانین جو برسوں پہلے بنائے گئے تھے ، پولیس کے ہاتھ میں مسلم نوجوانوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسانے اور بغیر کسی سماعت کے برسوں تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھنے کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں حکام نے ایسے قوانین اور پالیسیاں اپنائی ہیں جن کے ذریعے منظم طریقے سے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا نشانہ جاتا ہے اور حکومت کے ناقدین کو بدنام کیا جاتا ہے۔ حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) آزاد اداروں، جیسے کہ پولیس اور عدالتوں میں مداخلت کر رہی ہے اور وہ قوم پرست گروہوں کو مذہبی اقلیتوں کو دھمکیاں دینے، ہراساں کرنے اور ان پر حملے کرنے پر اکساتی ہے۔ حکومت نہ صرف مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو حملوں سے بچانے میں ناکام رہی ہے بلکہ سیاسی سرپرستی اور تعصب کو تحفظ فراہم کر رہی ہے۔ اگرچہ بھارتی آئین ملک کی سیکولر نوعیت کی بات کرتا ہے لیکن تمام عملی مقاصد کے حوالے سے یہ ایک ہندو ریاست ہے۔ بھارت کی ایک بڑی آبادی مسلمان ہے، تاہم کاروبار اور بیوروکریسی میں ان کی نمائندگی ایک فیصد سے بھی کم ہے اور ان پر مزید جبر کیا جا رہا ہے۔ لہذا اس تناظر میں اگر دنیا یہ سمجھتی ہے کہ ہندوستان ایک سیکولر جمہوری ریاست ہے، لیکن یہ تصور کچھ غلط ہے۔ عالمی برادری کو صورتحال کا نوٹس لینے اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو روکنے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے مطابق کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دلانے کےلئے بھارت پر دباو¿ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ بھارت میں مسلمان کو محدود کیا جارہا ہے۔ بی جے پی کی حکومت میں انہیں پسماندہ اور بے اختیار کیا گیا ہے۔ پوری ریاست ان کو کچلنے کےلئے استعمال ہو رہی ہے۔ کچھ بین الاقوامی ماہرین کا خیال ہے کہ بھارت میں نسل کشی کا عمل فروغ پا رہا ہے۔ مودی نے ملکی سیاست اور بین الاقوامی برادری سے الگ الگ نمٹنے کےلئے دوہرا سیاسی انداز اپن رکھا ہے۔ وہ ملک میں نفرت انگیز تقریروں کے ذریعے فرقہ پرستی کو بڑھاوا دے رہا ہے ، مسلم مخالف بیان بازی پر اپنا سیاسی کیریئر بنا رہا ہے۔ حقائق الفاظ سے زیادہ بولتے ہیں۔لوک سبھا کی 543 سیٹوں میں سے بی جے پی کے پاس 301 سیٹیں ہیں لیکن ایک بھی مسلم ایم پی بی جے پی کا نہیں ہے۔ مودی نے بیرونی دنیا میں ایک اعتدال پسند اور پرامن سیاستدان کے طور پر اپنا تشخص بنانے کی کوشش کی جس نے پرامن بقائے باہمی اور علاقائی روابط کے لیے کام کیا۔آخر کار اس کی حکمت عملی ناکام ہو گئی۔ اس طرح کے دوغلے اور دوہرے چہروں والے سیاسی نقطہ نظر سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ سیکولر ہندوو¿ں کے ساتھ ساتھ غیر ہندو برادریوں کو سماجی اور سیاسی طور پر مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ یا تو ہندوتوا کے اقدار کو اپنائیں یا پھرشہریت کے خاتمے سمیت ہر طرح کے اخراج کا سامنا کریں ۔ مزید برآں، بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط مقبوضہ جموں و کشمیر کے متنازعہ علاقے کو یکطرفہ طور پر مودی کی زیر سرپرستی حکومت نے اگست 2019 میں بھارتی یونین کا حصہ بنا دیا ہے جو بھارت کو ہندوتوا کی بنیاد پر ایک واحد شناخت بنانے پر ہٹ دھرمی کے ساتھ یقین رکھتی ہے۔لہٰذا، کشمیر اور لداخ کو بھارتی ریاستوں کے ساتھ ضم کر دیا گیا تاکہ اکھنڈ بھارت (متحد ہندوستان) کے زیر التواء مذموم ایجنڈے کو مکمل کیا جا سکے۔اس کے جغرافیائی سیاسی اثرات لداخ میں چینی فوج کے ساتھ ہندوستانی فوج کی حالیہ جھڑپ کی صورت میں ظاہر ہوئے۔ مودی کی زیر سرپرستی سیاسی ہندوتوا کی وجہ سے پاک بھارت تعلقات مزید خراب ہو رہے ہیں۔ درحقیقت بہت ہوشیاری سے آر ایس ایس جنوبی ہندوستان میں بھی اپنے تنظیمی اور نظریاتی ایجنڈے کو پھیلانے میں مصروف ہے۔ ہندوتوا کا مقابلہ کرنے اور بھارت کو ایک سیکولر ملک کے طور پر دوبارہ پیش کرنے کے لئے، غیر آر ایس ایس اور بی جے پی گروپوں اور سیاسی جماعتوں کو ان صفوں میں شامل ہونا ہوگا اور تمام محاذوں پر متحد موقف رکھنا ہوگا۔ بین الاقوامی برادری کو بھی مودی سرکار کی طرف سے آر ایس ایس کے آڑ میں کی گئی غلطیوں پر سوال اٹھانے اور اس کا سختی سے نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri