بھارت کی ہندو قوم پرست حکومت نے نصابی کتابوں سے بھارت کے پہلے وزیر تعلیم اور تحریک آزادی کے رہنما مولانا ابوالکلام آزاد کا نام بھی حذف کر دیا ہے۔ نئی نصابی کتابوں سے مغلیہ تاریخ پر اسباق پہلے ہی ختم کیے جا چکے ہیں۔اسی نصابی کتاب سے بھارت کے ساتھ جموں و کشمیر کے مشروط الحاق سے متعلق حوالے بھی حذف کر دیے گئے ہیں ۔بھارت کے مرکزی وزارت تعلیم کے محکمہ نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (این سی ای آر ٹی) نے سیاسیات سے متعلق 11ویں جماعت کی نصابی کتابوں سے مولانا ابوالکلام آزاد کے حوالہ جات کو حذف کر دیا ہے۔مولانا آزاد بھارت کے پہلے وزیر تعلیم تھے، جو تحریک آزادی کے دوران اپنی جدوجہد کے لیے مشہور ہیں۔ وہ تقسیم ہند کے بھی سخت مخالف تھے اور بانی پاکستان محمد علی جناح کے دو قومی نظریہ کی سخت مخالفت کی تھی۔مولانا آزاد نے 1946 میں آئین کا مسودہ تیار کرنے کےلئے بھارت کی نئی دستور ساز اسمبلی کے انتخابات میں کانگریس کی قیادت کی تھی اور اس میں ایک کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ مسلسل چھ برس تک کانگریس کے صدر کے طور کام کے دوران انہوں نے برطانوی کابینہ مشن کے ساتھ بات چیت کےلئے ایک وفد کی قیادت بھی کی تھی۔سیاسیات سے متعلق نصابی کتاب کے پہلے باب کا عنوان ہے ”آئین، کیوں اور کیسے بنا”۔ اس باب کے ایک سطر میں ترمیم کی گئی ہے اور جہاں دستور ساز اسمبلی کی کمیٹی کے اجلاسوں میں مولانا آزاد کی شمولیت اور ان کے اہم کردار کےلئے ان کا نام کا درج تھا، اب اسے ہٹا دیا گیا ہے ۔ تازہ نظرثانی شدہ لائن اس طرح ہے، ”عام طور پر، جواہر لال نہرو، راجندر پرساد، سردار پٹیل یا بی آر امبیڈکر ان کمیٹیوں کی صدارت کیا کرتے تھے۔” اس سے پہلے اس فہرست میں آزاد کا نام بھی سر فہرست تھا۔اسی نصابی کتاب سے بھارت کے ساتھ جموں و کشمیر کے مشروط الحاق سے متعلق حوالے بھی حذف کر دیے گئے ہیں ۔ کتاب کے دسویں باب میں ‘آئین کا فلسفہ’ کے عنوان میں ایک جملہ حذف کر دیا گیا ہے۔ اب ترمیم شدہ لائن کچھ اس طرح لکھی گئی ہے: ”مثال کے طور پر بھارتی یونین سے جموں و کشمیر کا الحاق، آئین کی دفعہ 370 کے تحت اس کی خود مختاری کے تحفظ کے عزم پر مبنی تھا۔” اس سے پہلے یہ درج تھا کہ اسی شرط پر ہی کشمیر نے بھارت کے ساتھ الحاق کیا تھا ۔ واضح رہے کہ دفعہ 370 کو مودی کی حکومت نے اگست 2019 میں منسوخ کر دیا تھا، جس سے جموں و کشمیر کی خود مختار حیثیت ختم ہو گئی۔ ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومت نے یہ نیا قدم اس تنازعے کے دوران اٹھایا ہے، جب مہاتما گاندھی کے قتل اور آزادی کے بعد انہوں نے کیا کیا، اس سے متعلق حوالہ جات ختم کرنے کے اس کے متنازعہ اقدام پر نکتہ چینی ہو رہی ہے۔بھارت کے بابائے قوم مہتما گاندھی کو سخت گیر ہندو تنظیم آر ایس ایس، جو بی جے پی کی مربی تنظیم ہے، سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے قتل کر دیا تھا، اور اسی لیے آر ایس ایس پر پابندی بھی عائد کی گئی تھی۔ تاہم اب حکومت نے نصابی کتابوں سے اس باب کو ہی ختم کر دیا ہے ۔ مودی حکومت نے نصابی کتاب میں 2002 میں ہونے والے گجرات کے مسلم کش فسادات کا حوالہ نکال دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے اور ہندوو¿ں کی سخت گیر تنظیم آر ایس ایس پر عائد کی گئی پابندی کے اقتباسات کو بھی نصاب سے ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔این سی ای آر ٹی نے 12ویں جماعت کی تاریخ کی نصابی کتابوں سے مغلیہ سلطنت کے بعض ابواب کو ہٹانے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ مغلوں نے ہندوستان پر تقریبا ًچار سو برس تک حکومت کی اور بہت سے مورخ اس بات سے نالاں ہیں کہ آخر حکومت تاریخ کو کیوں مٹا رہی ہے۔اس سے قبل بھارت میں مودی کی زیرقیادت بی جے پی حکومت نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نصاب میں پڑھائی جانے والی پاکستانی اور مصری مصنفین کی کتابوں پر پابندی عائد کر دی تھی۔ ممتاز عالم دین اور مصنف سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒاور مصری اسکالر اور مصنف سید قطب کی کتابیں بھارتی ریاست اتر پردیش کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بی اے اور ایم اے کے طلبا کو شعبہ اسلامیات میں پڑھائی جاتی تھیں۔تاہم مودی حکومت کے حکم پر یونیورسٹی کی انتظامی کمیٹی نے اب نصاب سے دونوں علمائے دین کی کتابوں کو نکال دیا۔بھارت میں دائیں بازو کے سخت گیر ہندو نظریات کے حامل تقریباً دو درجن افراد نے ایک کھلا مکتوب وزیر اعظم نریندر مودی کے نام لکھا تھا۔ اس کا عنوان تھا، ”علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جامعہ ہمدرد جیسے حکومت کی مالی اعانت سے چلنے والے اداروں میں ملک اور قوم کے مخالف نصاب طلبہ کو پڑھایا جاتا ہے“۔اس میں مزید لکھا گیا، ”ہم اس خط پر دستخط کرنے والے تمام، آپ کے نوٹس میں لانا چاہتے ہیں کہ حکومتی مالی اعانت سے چلنے والی مسلم یونیورسٹیوں جیسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،جامعہ ملیہ اسلامیہ اور ہمدرد یونیورسٹی کے بعض شعبوں میں، ڈھٹائی سے اسلامی جہادی نصاب کی پیروی کی جا رہی ہے“۔ندو انتہا پسندوں کو اعتراض اس بات پر تھا کہ ان کتابوں کا مواد جہادی ہے جو تشدد پر اکساتا ہے اس پریونیورسٹی انتظامیہ نے انہیں چیلنج کیا کہ اگر وہ ایسا کوئی ایک جملہ بھی دکھا دیں جو تشدد پر آمادہ کرتا ہو، تو وہ ان کی بات تسلیم کر لیں گے تاہم وہ اس میں ناکام رہے لیکن وائس چانسلر نے حکومتی دباو¿ پر ان کتب کو نصاب سے نکال دیا۔ سیدمودودیؒاور سید قطب کی تعلیمات در اصل جمہوری اقدار پر مبنی ہیں، اوربعض ممالک کی اشرافیہ حکومتیں اسے پسند نہیں کرتیں، اس لیے انہوں نے ایسا کیا ہے۔
کالم
بھارت: درسی نصاب سے ابو الکلام آزاد کا ذکر بھی خارج
- by Daily Pakistan
- اپریل 16, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 456 Views
- 2 سال ago