کالم

بھارت کیساتھ آبی معاملات پر ہماری غیر سنجیدگی

riaz chu

عالمی یوم آب یا پانی کے بین الاقوامی دن کا مقصد لوگوں میں پانی کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ صاف پانی ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور ا س لیے ہر اس ممکن طریقے سے فائدہ اٹھانا چاہیے کہ جس کے ذریعے غریب سے غریب تر افراد تک یہ سہولت پہنچائی جا سکے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ پینے کے صاف پانی ہر فرد تک پہنچانا بے حد ضروری ہے۔ دنیا میں 1,1 ارب انسانوں تک صاف پانی کی رسائی نہیں ہے۔ 2,6 ارب انسانوں کو نکاسی آب کی مناسب سہولیات میسر نہیں ہیں۔ ہر روز 5 ہزار بچے عدم صفائی کی وجہ سے ہلاک ہو رہے ہیں۔ بھارت کے ساتھ پاکستان کے آبی تنازعات چل رہے ہیں۔ بھارت پانی کو پاکستان کے خلاف آبی دہشت گردی کیلئے استعمال کرتا ہے۔ مون سون میں پانی چھوڑ کر پاکستان کو سیلاب میں ڈبونے اور فصلوں کو پانی کی ضرورت کے دنوں میں دریاﺅں کے رخ موڑ کر پاکستان کو خشک سالی سے دوچار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مون سون میں شہر کے شہر پانی میں ڈوبے نظر آتے ہیں۔ ہمارے پاس آبی ذخائر ہوں تو برسات کا پانی اور دریاﺅں میں طغیانی اور سیلاب کے پانی کو بھی ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔ آبی قلت اور سیلابوں سے محفوظ رہنے کیلئے بڑے چھوٹے ڈیم بنانے کی ضرورت ہے۔ کالاباغ ڈیم کی سب سے زیادہ ضرورت ہے جو بیک وقت وسیع سطح پر پانی ذخیرہ کرنے کے ساتھ وافر مقدار میں بجلی بھی پیدا کرسکتا ہے۔ہمیں اپنی آبی ضروریات کے لیے آبی ذخائر کی اشد ضرورت ہے۔ ہر سال پانی کو ذخیرہ کرنے کے نامناسب انتظام کی وجہ سے 28ملین ہیکٹر پانی سمندر برد ہو جاتا ہے جس سے پاکستان کو سالانہ 180ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ اس خطرناک صورت حال کے باوجود ہمارے ادارے اور حکومت اس مسئلہ پر توجہ نہیں دے رہے۔ پاکستان میں ضرورت کے مقابلے میں آبی ذخائر نہ ہونے کے برابر ہیں جو دو (تربیلا اور منگلا) ڈیم پاکستان میں بنے ہیں وہ بھی آج مٹی سے بھرنے کی وجہ سے اپنی استعداد سے کم کام کردے رہے ہیں۔ دنیا بھر کے ممالک میسر آبی وسائل کا 30سے 40فی صد محفوظ کیا جاتا ہے جب کہ ایک پاکستان ہے جو صرف 10فی صد پانی کو محفوظ کرتا ہے اور اس کا دشمن اس کی لاپروائی کا فائدہ ا±ٹھاتے ہوئے اس کے پانی سے مستفید ہو رہا ہے۔پاکستان آبی معالات پر اس طرح سنجیدگی نہیں دکھا رہا جس کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو بھارت کی آبی جارحیت کے خلاف پوری دنیا میں آواز بلند کرنی چاہئے تاکہ پاکستان کی زراعت اور معیشت تباہ ہونے سے بچ سکے۔کہتے ہیں کہ آئندہ جنگیں پانی پر ہونگی۔ پاکستان کی حد تک تو یہ بات بڑی حد تک ٹھیک ہے کیونکہ ایٹمی و زرعی پاکستان کو بھارتی آبی جارحیت کا سامنا ہے۔ بھارت سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہر سال دو ہائیڈرو پراجیکٹ مکمل کررہا ہے اور ہم خاموش بیٹھے ہیں۔ اب جبکہ خدا خدا کر کے دو سال بعد آبی مسائل پر مذاکرات شروع ہوہی رہے ہیں تو ہماری طرف سے دانستہ غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف بھارت کا یہ حال ہے کہ وہ 2022ء تک مقبوضہ کشمیر میں دریاو¿ں سے 23ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ ابھی تک بھارت نے 330میگاواٹ کا دلہستی ہائیڈرو پاور پراجیکٹ، 450 میگاواٹ کا بگلیہار پراجیکٹ مکمل کرلیا ہے اور کشن گنگا تکمیل کے مراحل میں ہے جبکہ ریٹل پراجیکٹ بھی شروع ہو گیا ہے۔ بھارت نے دریائے نیلم پر بھی جو پاکستان میں دریائے جہلم سے ملتاہے یوری I ،یوریII ہائیڈرو پراجیکٹس مکمل کرلیا ہے۔ اس نے مقبوضہ علاقے میں نیمو بازگو اور چٹک ہائیڈرو پاور پراجیکٹس بھی مکمل کرلیے ہیں۔ پاکستان نے کشن گنگا اور ریٹل کے علاوہ بھارت میں دریائے چناب میں بنائے جانے والے دوسرے تین پراجیکٹس پر بھی اپنی تشویش ظاہر کی ہے جن میں پاک دل 1000میگاواٹ، میار 120میگاواٹ اور لوئر کالنائی 48میگاواٹ شامل ہے۔ پاکستان اپنے نیلم جہلم ہائیڈرو پاور منصوبے کو بچانے میں ناکام ہوگیا اب اس منصوبے کی بجلی پیدا کرنے کی استعداد 8فی صد کم ہوگئی ہے۔ اس منصوبے پر بات ختم نہیں ہوئی اور نہ ہی بھارت کا یہ آخری متنازع منصوبہ ہے۔ بھارت دریائے نیلم جہلم کے علاوہ چناب اور سندھ پر بھی کئی ڈیم بنا رہا ہے جو پاکستان میں آبی قلت پیدا کرنے اور زمینیں بنجر کرنے کی مکمل سازش ہے۔ دریائے سندھ پر بھارت کارگل ڈیم کے نام سے دنیا کا تیسرا بڑا ڈیم تیار کررہا ہے یہ منصوبہ 2028 تک مکمل ہوگا۔ قابل افسوس بات یہ ہے پاکستان کی حکومت اور ادارے اس جانب طرف توجہ نہیں دے رہے۔ دشمن کی سازشوں کا کوئی توڑ نہیں نکال رہے حالاں کہ ان دریاو¿ں کے پانی سے استفادہ کرنے کا ہمارا پہلا حق ہے لیکن اس کے باوجود ہماری حکومت اور ادارے لاپروائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کو آبی قلت کے شکار بنا رہے ہیں جس کا عملی ثبوت یہ ہے کہ پاکستان میں گزشتہ 40سال میں کوئی بڑا ڈیم نہیں بنا۔ پاکستان ایک طرف کشمیریوںکی جنگ آزادی کا حامی ہے تو دوسری طرف کشمیر سے گزرنے والے دریاو¿ں کے پانیوں کی حفاظت کرنا بھی اس کا حق ہے۔ انہی بنیادوں پر پاکستان بھارت چار جنگیں لڑ چکے ہیں۔ بھارت پاکستانی دریاو¿ںپرڈیمز تعمیر کر پانیوں پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ پانی روک کر پاکستان کو اکھنڈ بھارت کا حصہ بننے پر مجبورکر سکے۔ جہاں ڈیمز نہیں بن پارہے وہاں سرنگوں کی مدد سے ہمارا پانی چوری کیا جا رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri