سوشل میڈیا شتر بے مہار ہے تو دوسری طرف علم و آگہی کا پیکر بھی ہے بات بس سمجھنے والے کی ذہنی بصارت کی ہے کہ وہ مزاحیہ انداز میں کی ہوئی بات سے بھی کوئی نہ کوئی سبق حاصل کرتا یا پھر سنجیدہ تحریر کو بھی مزاح کے پیرائے میں لیتا ہے ہرانسان کا ذہن دوسرے سے مختلف ہے بعض انپڑھ افراد ایسی بات کرجاتے ہیں جو مدتوں یاد رکھی جاتی ہے اور بعض اعلی تعلیم یافتہ ساری عمر کوئی تخلیقی بات نہیں کرپاتے آجکل سوشل میڈیا کا دور ہے جو کسی کے کنٹرول میں نہیں ہر انسان اپنی حیثیت اور ذہنی صلاحیت کے مطابق کچھ نہ کچھ لکھتا رہتا ہے کیونکہ اس پر کوئی روک ٹوک نہیں اور پھر جو بات دل کو لگتی ہے وہ وائرل بھی ہوجاتی ہے اسلامیہ یونیورسٹی میں جو سکینڈل زیر گردش ہے اس میں بہاولپور کے ایم این اے اور وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کے بیٹے کا نام بھی سر فہرصت ہے اور ابھی اس سکینڈل میں اور بھی بہت سے پردہ نشینوں کے نام آئیں گے میں سمجھتا ہوں وہ بھی صرف سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر کیونکہ ہمارا سرکاری میڈیا اس حوالہ سے کوئی بات نہیں کریگاخیر میں بات کررہا تھاسوشل میڈیا کی جس نے ہمیں ٹیلی ویژن اور اخبار سے دور کردیا ہے ہر خبر بروقت سوشل میڈیا پر دستیاب ہوتی ہے اور اس پر لوگوں کے ریمارکس بھی کھل کر آتے ہیں آپ کسی بھی سیاسی شخصیت کے ٹویٹر اکاﺅنٹ کو چیک کرلیں جہاں سے کچھ پوسٹ کیا وہیں پر اسکے حق اور مخالفت میں تحریریں آنا شروع ہو جاتی ہے حالیہ دنوں کیا بلکہ آئے روز بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تو کسی سعودی عرب میں مقیم ہیڈ راجکان کے رہائشی غضنفر کا میسج پڑھنے کو ملا کہ بجلی کے بلوں میں آئے روز ہونے والے اضافہ سے بعض اوقات تو ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ بارشوں میں گرجنے والی آسمانی بجلی کا بھی بل ہمارے بلوں میں شامل نہ کردیا جائے ہم تو اپنے بل نہیں دے سکتے آسمانی بجلی کا بل کیسے جمع کروائیں گے ایک جگہ اور تحریر تھا کہ پاکستان کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے خزانہ خالی ہاتھوں میں ہے انصاف کمزور ہاتھوں میں ہے اور عوام چوروں
کے ہاتھوں میں ہے طارق بشیر چیمہ کا بیٹا گرفتار نہ ہوسکا لیکن یہاں غریب انسان پورے ٹبر سمیت گرفتار ہو جاتا ہے منفی سوچ ” غلط نمبر کی عینک ” کی طرح ہوتی ہے جس سے ہر منظر دھندلا ہر راستہ ٹیڑھا اور ہر چہرہ بگڑا ہوا نظر آتا ہے سعودی عرب میں مقیم گگو منڈی کے رہائشی طلعت محمود کا ایک خوبصورت میسج پڑھنے کو ملا کہ سمجھ نہ آیا زندگی تیرا فلسفہ ایک طرف کہتی ہے صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے دوسری طرف کہتی ہے وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا کبھی کبھی ٹھوکریں اچھی ہوتی ہیں ایک تو راستے کی رکاوٹوں کا پتہ لگ جاتا ہے اور سب سے بڑھ کر سنبھالنے والے ہاتھوں کا پتا چل جاتا ہے قاری خالد محمود نے لکھا کہ پاکستان کے دو آئین ہیں ایک قرآن اور دوسرا 73 کا متفقہ آئین اگر ہم ان کو مان لیں تو ہمارے سارے مسائل دور ہوسکتے ہیں موجودہ سیاست دان ایک میدان میں ایک ساتھ ہر گیم کھیل رہے ہیں جب نواز شریف کو اقتدار سے نکالا گیا تو اس نے کہا کہ مجھے کیوں نکالا جبکہ عمران خان کہتا ہے کہ مجھے پتہ ہے مجھے کیوں نکالا گیا مائنس کسی کو بھی کردیں مگر عوام کو کسی صورت مائنس نہیں کیا جاسکتا عدلیہ اور ادھوری قومی اسمبلی کے درمیان اختلافات سے ملک کابہت نقصان ہوچکا ہے اس وقت ہم آئین کو مان نہیں رہے ہیں کاشف کشمیر ی لکھتے ہیں کہ ملک کی موجودہ صورت حال انتہائی تکلیف دہ ہے ہر شخص پریشانی کا شکار ہو رہا ہے ملک کے سیاست دانوں کی ناکامی ہے کہ وہ ایک ہی میدان میں ہر گیم کھیل رہے ہیں ملک کی 14سیاسی پارٹیاں ایک جانب اور ایک پارٹی ایک جانب کھڑی ہے ہر پارٹی اپنی مرضی کا گیم کھیل رہی ہے ایک ہی پلے گروانڈ میں تمام پارٹیاں کھیلنے میں مگن ہیں لوگوں کو کپتان کی باتیں سچ لگنے لگیں ہیںپی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کی بد سلیقی اور نالائقی اقتدار میں آنے کے بعد عوام پر آشکار ہو چکی ہے اور مہنگائی سیکنڈوں کی بنیاد پر بڑھ رہی ہے ریٹائر زندگی گذارنے والے محمد اکبر نے لکھا کہ جاپان جسے لامذہب ملک کہا جاتا ہے یہاں 97 فیصد آبادی کسی بھی مذہب کی پیروکار نہیں مگر جہاں ڈسپلن اخلاقیات کردار اور معاملات کی بات آئے تو دنیا میں انکا کوئی ثانی نہیں ہمارے ہاں ہر پانچویں گلی میں مسجد، ہر دسویں گلی میں مدرسہ ہر محلے کا اپنا مزار اور مردے بخشوانے کےلئے کرائے پر تھوک کے حساب سے مولوی، ہر شہر قصبے میں لاتعداد مفتی اور عالم اورجب بات دیانتداری اخلاقیات معاملات اورڈسپلن کی ہو تو دنیا میں 160 ویں نمبر پر اور پارسائی کا ڈھنڈورا پہلے نمبر پر کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے،مال روڈ لاہورکے تاجر فاروق آزاد لکھتے ہیں کہ 2108 سے 2022 کے دور میں کاروبار اچھے تھے مارکیٹوں میں رش بھی تھا لیکن ناجائز منافع خور دکاندار 10 کی چیز 30 کی بیچتے اور تمسخر اُڑا کر کہتے تھے تبدیلی آگئی ہے بھئی اب وہی دکان دار سارا دن بیٹھ کر آپس میں باتیں کرتے ہیں رات گئے منہ لٹکا کر گھر واپس ہو جاتے ہیں اور گھر میں ان کی بیگمات نے بھاری بھرکم بجلی گیس کے بل سودے کی لسٹیں پہلے سے تیار رکھی ہوتی ہیں جسکو دیکھ کر وہ مزید پاگل ہو جاتے ہیں کوئی مانے یا نا مانے یہ ناشکری قوم اپنے گناہوں کی سزا بھگت رہی ہے آخر میں ٹاﺅن شپ کے رہائشی شیخ محمد حسین کی تحریر جنکا کہنا ہے کہ ہوش و حواس اور بنا کسی دباو¿ کے یہ حلفیہ بیان دیتا ہوں کہ میرا پاکستان تحریک انصاف یا اس کے عہدہ داران سے کوئی تعلق نہیں اور دانستگی یا نادانستگی میں تحریک انصاف یا عمران خان کے حق میں کوئی بات کی ہو تو میں ان سے برات کا اعلان کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ مقتدر حلقے بھی درگزر سے کام لیں گے۔
کالم
بھاری بھرکم بجلی گیس کے بل
- by web desk
- اگست 11, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 235 Views
- 2 سال ago