کالم

بے بس،لاچار اور بیمار

a r tariq

اقتداربھی کیاچیزہے کہ آدمی سمجھتاہے کہ اب شایدمیں ہی سب کچھ ہوںدوسراکوئی نہیں ہے۔اقتدارکے نشے میں دھت ہوئے اسے کچھ نظر نہیں آتا ہے۔وہ اپنی رعونت وتکبر میں ہرچیزکو انتہائی حقارت سے روندتا چلا جاتاہے اور پیچھے مڑکرنہیں دیکھتا ہے کہ وہ کیا کر رہاہے۔کو ن سے فعل سرانجام دے رہا ہے ۔ اقتدارپاکر ایک وقت اس پر ایسا آتاہے کہ ملک وقوم کے خزانے پر اپنا حق سمجھتے اسے ناحق کھانے لگتاہے۔لوٹ مار اور مارڈھار کی انتہاءکرتے خودبھی اس خزانے پر بُری طرح پل پڑتاہے اوراپنے ساتھیوںکو بھی اس میں سے برابرنوازتاہے۔خود اور اپنے ساتھیوں کو نوازے باہم شیروشکرکیے سمجھتاہے کہ اب وہ اس جنگل کابادشاہ ہے ۔کون ہے جو اس کے خلاف پربھی مارے۔اس کی طرف اٹھتی نگاہوں سے دیکھے۔وہ ایسے میں سمجھتا ہے کہ ملک کا حکمران وہ ہے جیسے چاہے اس کا خزانہ لوٹے،کھائے اورنوچے ۔کوئی کون ہوتاہے اسے پوچھنے والا۔وہ اقتدار واختیار پاکر کرپشن کی تمام حدوں کو پارکرجاتاہے اور وہ کچھ کرجاتاہے جو اسے نہیں کرنا چاہیئے تھا۔وہ ملک وقوم کا خزانہ لوٹ لیتاہے اور خزانے کی تجوری خالی کردیتاہے۔ بعدازاں اقتدار پر بھی فائز رہتاہے اور ملک کا خزانہ خالی کے نام پر انٹرنیشنل اداروں اور آئی ایم ایف سے قرض لیتاہے اور ملک کااصل خزانہ انتہائی مہارت اور صفائی سے ہڑپ کیے قرض کی مد میں ادھار لیے پیسوں سے اپنے ملک کو چلانے اوراپنی قوم کو بہلانے لگتاہے۔اپنے اقتدار کو طول دینے کی خاطر ملک کو قرضوں کی دلدل میںبری طرح دھنسا دیتاہے۔ملک وقو م کے ساتھ ساتھ اس ملک کی آنے والی اگلی نسلوں کو بھی مقروض بنادیتاہے۔ملک کا سب کچھ ہوتے ہوئے اس ارض وطن کی تقدیر اور سلامتی سے بھی کھیلنے لگتاہے۔غیروں پرکرم اور اپنوںپرستم ڈھانے لگتاہے۔آخرمیں کیا ہوتاہے ۔مکافات عمل ہے کہ جو بیجوگے اسے ہی کاٹنا پڑتاہے۔اپنے اعمالوں کے نتیجے میں اللہ کی پکڑ میں آئے اقتدار واختیار سے محروم ہوجاتا ہے۔ساری عزت جاتی رہتی ہے ۔ ملک کو بیدردی سے لوٹنے کے جرم میں سزا پاتا ہے۔وہ جواپنے وقت میںاپنے آپ کو زمین کا خدا سمجھتاتھا ۔اپنی باتوں اور دعووں سے سمجھتا تھاکہ شاید سورج زمین پر اس کی مرضی سے نکلتا ہے۔وہ جو زمینی خدابنے اپنے آپ کو نجانے کیا کیا سمجھتاتھا۔اپنی میںاور اُس کے غرور کے ہاتھوںمارا کسی کام کانہ رہتاہے ۔ اقتدار گیا ،اختیار گیا،وقار گیااور اب صحت بھی بس ڈانواں ڈول سی،جسم وروح کا صحیح ساتھ نہ دینے والی۔ خداایسی صورتحال سے کسی دشمن کوبھی دوچار نہ کرے۔افسوس یہ اقتدار والے آدمی کی کہانی ہمارے ملک کی ہے ۔یہ ہمارے لیڈروں کی ہی داستان ہے جس کا اوپر ذکر کیاہے۔ہمارے خیر خواہوں کا ہی ذکر ہے ۔ یہ وہ لیڈر صاحبان ہیں کہ جو کسی تعارف کے محتاج نہیں ہے۔ساری دنیا میں جانے پہنچانے ہیں۔اس ملک کے نادار، غریب اور بے بس رعایا کے ”مسیحا“ ہیں ۔ ساری پاکستانی قوم کا” درد“ اِن میں سینے میں ہے۔قوم کے معمولی سے درد پر قوم کی ساری تکلیفیں ان کے سینے میں جاگ جاتی ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ ٹھیسیں پیداکر دیتیںہیں تو بے جاءنہ ہوگا ۔ آج کل عوام کے وسیع فائدے میں سب قربانیاں دئیے دیار غیر میں عوام کی ”بے لوث“ خدمت کے صلے میں” سزائیں“کاٹ رہے ہیں اور عوام ہے کہ ان کی ”جدائی“ میں نڈھال ہوئے انہیں پکارے ہوئے یہاں ”مزے“ لوٹ “رہے ہیں۔ان کے دنیا بھر کے بنکوں میں موجود پیسے تو ان کی طرف سے ”عوام کی خدمت“ کرنے کا اعزازیہ ہے۔ ان کے متعلق غلط ملط قسم کی باتیں اور بیہودہ خطاب ان کے دشمنوں کی ایک سازش ہے اور ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے والی باتیں ہیں ۔ان کی ”جمہوریت کےلئے طویل جدوجہد“کے نتیجے میں ملنے والی ”سزا“کو کرپشن کی ”سزا“ کہنا ان کے ساتھ سراسر زیادتی والی بات ہے ۔ افسوس یہ سب باتیں باہر کے لوگ تو کرتے ہی ،مسنداقتدار پر موجوداپنے” دوست“ بھی کررہے ہیں جو کسی بھی طرح قرین انصاف نہیں ہے۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ آج اس دبی ہوئی چنگاڑی اور بھولی ہوئی مشہور ومعروف ملکی و بین الاقوامی داستان پھر سے ہمیں جگتیں مارتے کوئی سنا گیاہے۔اس بارے سارے ”بند ابواب“کو ہوا دے گیا ہے ۔یہ کوئی اور نہیں ہے ہمارے ہی حکمران ہیں۔بے بس،لاچار اور بیمار۔۔۔شاید کچھ اور بھی ۔ایک دیار غیر میں ”عوامی محبت “میں خود کو پگھلارہاہے اور ایک یہاں پر ہی بیٹھا ”عوامی خدمت“میں کپکپارہاہے۔ ”عوامی فلاح و بہبود “کےلئے پریشان وہ بھی ہے اور ٹینشن میں یہ بھی ہے ۔ سیاست نام ہی کس چیز کا ہے”عوامی ٹینشن “کااور یہ فریضہ یہ طبقہ بمع اہل وعیال خوب نبھارہاہے اوریہ کہ ”عوامی خدمت کیسے کی جاتی ہے ان سے بہتر کون جانتاہے کہ ایک دیار غیر میں ”عوام “کےلئے ”بے چین “ہے تو دوسرایہاں ”قوم“کا ”ٹینشن“کھائے ہوئے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے