کالم

بے نظیر بھٹو شہید وطن کی بہادر لیڈر کو سلام ِ!

پاکستان کی سیاسی زندگی میں خواتین کا کردار قیام پاکستان کی جدوجہد آزادی میں ہماری سیاسی تاریخ کا روشن باب ہے ۔خواتین نے جس طرح قائداعظم ؒ کے شانہ بشانہ ایک الگ ریاست کیلئے جدوجہد کی وہ ایک الگ تاریخ ہے ۔سیاست میں فاطمہ جناح کا کردار ہمیشہ کے لیے قوم کو یاد رہے گا کہ کس طرح اُنہوں نے جمہوریت کی جنگ ایک آمر کے ساتھ لڑی ۔پھر بھٹو شہید کے بعد اِن کی بیوی نصرت بھٹو مرحومہ اور بے نظیربھٹو شہید نے جس ہمت ،حوصلہ ساتھ جبر وطاغوتی طاقتوں کا مقابلہ کیا اور پھر ایک ایسا وقت بھی آیا جب گیار ہ سالہ جلاوطنی کے بعد قوم نے والہانہ استقبال کیا اور جمہوریت کی جیت ہوئی اور بے نظیر بھٹو شہید نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اِسلام کی پہلی خاتون مسلم وزیر اعظم بن گئی ،وہ 21جون 1953ءکوکراچی میں پیدا ہوئیں ۔بے نظیر بھٹو شہید نے عملی سیاست میں حصہ لینے سے قبل ہارورڈ یونیورسٹی اورآکسفورڈ یونیورسٹی میں تعلیم مکمل کی۔آکسفورڈ یونیورسٹی میں وہ آکسفورڈ یونین کی صدر بھی تھیں۔بے نظیر بھٹو تعلیم مکمل کرنے کے بعدپاکستان آئیںجب اِس کے والد پاکستان کے وزیر اعظم تھے مگر پھر چند ہی ماہ میں اِن کے والد کے اقتدار کاتختہ اُلٹ دیا اورپاکستان میں مارشل لاءضیا الحق نے لگا دیا۔ایک سیاسی گھرانہ جس میں اِن کو وراثت میں ذوالفقار علی بھٹو شہید اور اپنی والدہ نصرت بھٹو کی سیاست ملی جب اُنہوںنے تعلیم مکمل کرنے کے بعد سیاست کے خاردار راستوں میں اُس وقت کے حالات کے مطابق آنا پڑا۔ان کے والد کو پھانسی دے دی گئی تھی۔گیارہ سالہ جلاوطنی کی زندگی اِن کو اوران کی والدہ کو گزارنی پڑی اورسیاسی بحران کی وجہ جلاوطنی میں زندگی گزارنی پڑی ۔وہ اپنی والدہ ساتھ دوبئی شفت ہوگئیں ۔ اُنہوںنے دُوسرے مُلک میں رہ کر جماعت کومتحرک کیا اور بھٹو شہید کے جیالوں اورپارٹی کی ساری قیادت کے ساتھ رابطہ میںرہیں۔ وہ1986 میں وطن واپس آئیں اور قوم نے ان کا لاہور ایرپورٹ پر والہانہ استقبال کیا۔ اگست 1988ءکوضیا الحق کے طیارے حادثہ بعد جنرل اسلم بیگ نے مُلک کی قیادت سنبھالی اور عام انتخابات کا اعلان کیا۔وہ اُس وقت کی برطانیہ کی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر (کنزرویویٹو پارٹی کی لیڈر) کی تھیچرائٹ اکنامکس سے متاثر تھیں اِس لیے الیکشن سے قبل ہی اُنہوں نے پی پی پی کے پلیٹ فارم کو ایک سوشلسٹ سے لبرل میں بدل دیاتھا۔الیکشن میںبے نظیر کی جماعت کو اکثریت ملی اور وہ پاکستان کی پہلی خاتون وزیرا عظم 2دسمبر1988ءکو بنی ۔اُن کو دُنیا کی پہلی مسلم خاتون وزیراعظم بننے کا بھی اعزاز حاصل ہوگیا۔اِن کی حکومت کو بدعنوانی سمیٹ دیگر چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا۔اُس وقت کے صدر غلام اسحاق خان مرحوم نے بیس ماہ بعد ہی اِن کی حکومت کواپنے آئینی اختیارات جو کہ اِن کو آٹھویں ترمیم کی وجہ سے ملے تھے اِن کی طاقت پر مختلف الزامات اقرباءپروری ،بدعنوانی وکرپشن الزام لگا کر برطرف کردیا۔1990ءسے 1993ءتک میاں نواز شریف کی حکومت رہی اور پھر انہیں بھی صدر غلام اِسحاق خان نے کرپشن کی بنیاد پر فارغ کردیا اور پھر الیکشن ہوئے اور پھر سے پاکستان پیپلز پارٹی کی جیت ہوئی اور بے نظیر بھٹو دوُسری بار مسند اقتدار پر آگئیں۔اپنے دونوں اقتدار میں اُنہوں نے عوام کی فلاح وبہبود پر کام کیا۔پاکستان پیپلز پروگرام لانچ کیا گیا ۔بے نظیرنے غربت،بے روزگاری اورسماجی عدم مساوات کو دُور کرنے کے لیے عوامی پروگرام شروع کیا اِس پروگرام کا مقصدمعاشرے کے پسماندہ طبقات کوتعلیم، صحت اوررہائش جیسی بنیادی سہولیات فراہم کرنا تھا۔ویمن ڈیویلپمنٹ پروگرام کے تحت اپنے دور میںخواتین کے لیے بھی ترقیاتی پروگرام کا آغاز کیا جس میں خواتین کو تعلیم،صحت کی دیکھ بھال اور روزگار کے مواقع فراہم کرکے اِن کی سماجی و اقتصادی حیثیت کو بہتر بنانے پرتوجہ مرکوز کی گئی۔ہیلتھ وایجوکیشنل ریفارمز کے حوالے سے صحت اورتعلیمی شعبے میں بہتری کے لیے مختلف اقدامات کیے گئے۔ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کو اَپ گریڈ کیا گیا اوراِن ضروری خدمات کے مجموعی معیار کو بڑھانے کی کوشش کی گئی۔اکنامکس ریفارمز پر توجہ دی گئی اورمعاشی پالیسیوں پر کام کیا گیا اِس میں سرمایہ کاری کو راغب کرنے اورمعاشی استحکام کوفروغ دینے کے لیے صنعتی اورمالیاتی شعبوں میںاِصلاحات شامل تھیں۔غربت کے خاتمے کے لیے بھی مختلف پروگرام متعارف کروائے ۔جن میںدیہی ترقی پر توجہ دی گئی اِس میں زراعت کے بنیادی ڈھانچے کو جدید طریقے سے بنانے کے لیے فیصلے کیے گئے اودیہاتی علاقوں میں لوگوں کے معیار زندگی کو بہترن بنانے کے لیے فیصلے کیے گئے ۔ اپنے دُوسرے دور اقتدار میںاُنہوں نے معاشی نجکاری کی بھی نگرانی کی ۔1995ءکی ایک ناکام بغاوت بے نظیر حکومت کے خلاف کی گئی ۔اِن کی اپنی ہی جماعت کے دیرینہ کارکن جو ساری جدوجہد میں بے نظیر بھٹو شہید کے ساتھ رہے ۔اِن کو جب پارٹی نے اِن کی خدمات کے عوض صدر پاکستان کا عہدہ دیا تو یہی فاروق لغاری نے جماعت پر الزامات لگا کر اپنی ہی حکومت کو فارغ کردیا۔تین سال کا یہ دور تھا ۔پھر 1997ءکا الیکشن جماعت ہار گئی اور پھر بے نظیر بھٹو میں وہ خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرلی اورلندن اوردوبئی میں اپنا وقت گزارا۔اُس وقت کے صدرپرویزمشرف کے ساتھ امریکہ کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کے بعدوہ 2007ءمیں 2008ءکے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے پاکستان واپس آئیں تو پھر عوام نے اپنی آنکھیں بے نظیر بھٹو شہید کے راستے میں بچھائیں۔اِس کے پلیٹ فارم نے فوج کی سویلین نگرانی اورمُلک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی مخالفت پر زور دیا اور دینی اسلامی انتہا پسند طاقتیںجو پاکستان اور بیرونی دُنیا میں اِسلام کا امیج دُوسرے مذاہب پر مثبت نہیں دے رہی تھیں اُن پر بھی کھل کرتنقید کی۔اورپھر 27دسمبر کولیاقت باغ کے میدان میں جلسہ ختم ہونے بعد جب وہ ایک جم غفیر کے ساتھ واپس جارہی تھیں اِن کو گولیوں سے چھن کردیا گیا ۔ اِن کو زخمی حالت میں جنرل ہسپتال مری روڈ لایا گیا مگر وہ زخموںکی تاب نہ لاسکیں اور زندگی کو خداحافظ کہہ گئیں ۔سلفی جہادی گروپ القائد ہ نے بعد میں اِس کی ذمہ داری قبول کر لی مگر تاحال بے نظیر کے قاتلوں کو سزا نہ مل سکی۔آج بھی جماعت کے جیالے ورکرز اور کارکن یہ نعرہ ہر جلسے میںلگاتے ہیں©©”بی بی ہم شرمندہ ہیں تیرے قاتل زندہ ہیں“۔ایک لیڈرجو ایک نظریے جمہوریت کے ساتھ پاکستان کی مٹی سے مخلص تھا جس نے ساری زندگی جمہوریت کی بقاءکی جنگ لڑتے ہوئے گزارہ وہ لیڈر ظالموں نے اِس قوم سے چھین لیا۔جس کا پوراخاندان جمہوریت پر قربان ہوگیا ،جس کی وجہ سے آج بھی بین الاقوامی دُنیامیں بے نظیر بھٹو کی پہچان سے پاکستان کو جانا جاتاہے کہ وہ پاکستان کی ایک بہترین لیڈر تھیں۔وہ اپنے ورکرز کو اپنا قیمتی اثاثہ سمجھتی تھیں اورہر خوشی غمی میں ،مشکل میں اِن کے ساتھ اقتدار میں ہوتے ہوئے اور اقتدار سے باہر بھی جب ہوتی تھیں وہ موجودہوتی تھیں ۔اِس مُلک کی بیٹی کو وہ بے نظیر بنا چاہتی تھیں ۔وہ ہربچے کو بلاول جیسا مستقبل دینے کاخواب دیکھتی تھیں ۔روٹی کپڑا مکان ہر ایک کی دسترس میں عملی طور پر ممکن بنانے کا خواب وہ پُور ا کرکے اپنے باپ کے نعرے کو عملی جامہ پہنانا چاہتی تھیں ۔ وہ کہتی تھیں بے شک جمہوریت بہترین انتقام ہے اوراِس نے زندگی میں طاغوتی ،ظلم وجبر کے بُت پاش پاس اپنے اِسی فلسفے ونظریے سے کیے اوراپنے باپ کا مشن عوامی کی خدمت کا جاری رکھا۔اللہ تعالی ٰ بے نظیر بھٹو شہید کو جنت میں بلند درجہ عطا فرمائے (آمین)۔
سوچتاہوںکہ ڈھلیں گے یہ اندھیرے کیسے
لوگ رخصت ہوئے اور لوگ بھی کیسے کیسے
٭٭٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے