کالم

بے نظیر سے میری بے نظیر نسبت و عقیدت

ستمگر ستمبر گزرا اور اکتوبر بھی مگر اس بار تو مجھے نومبر میں ہی 27 دسمبر اور شہید رانی بے نظیر کی یاد آنے لگی تھی اور رُلانے لگی تھی۔ میں نے بی بی بارے کہا تھا:
اپنے خون سے امر کیا ہے حق کی تاریخ کو تُو نے
ضیا ظُلمت کٹی کیسے راستہ پایا خوشبو نے
عورت کی تُو عظمت تھی، حُرمت تھی سیاست کی
تُو نے سچ کی راہ پہ چل کر سچ پوچھو عبادت کی
رہنا تو اس جہاں میں کسی نے نہیں، سب مسافر ہیں سب نے چلے جانا ہے لیکن جگ میں جینے کے، زمین پر رہنے کے اور پھر چلے جانے کے انداز بھی تو اپنے اپنے ہیں۔ اٍبن جوزی نے امام غزالی رح کے بھائی احمد کی زبانی نقل کیا ہے کہ”دو شنبہ کے روز صبح کو میرے بھائی (معروف اسلامی مفکر، صوفی و عالم) ابو حامد نے وضو کر کے نماز پڑھی اور کہا کہ کفن لا¶۔ پھر کفن ہاتھ میں لے کر چوما، آنکھوں سے لگایا اور کہا شاہ کے حضور چلنے کو تیار ہوں، پھر قبلہ رو لیٹ گئے، ابھی صبح کا کچھ دھندلکا باقی تھا کہ روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی، تب امام غزالی رح کی زبان پر یہ اشعار تھے کہ میرے دوستوں سے پوچھو مجھے مردہ سمجھ کر نالہ و بقا کر رہے ہیں، کیا تم سمجھتے ہو کہ میں مر گیا؟ میں زندہ ہوں واللہ میں نہیں مرا بس ایک دوسرا روپ اختیار کر لیا ہے“۔ پھر صدیاں گزر جانے کے بعد اسی ضمن میں شاعر مشرق اقبال ایسے مرد قلندر رح نے کہا تھا کہ:
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامٍ زندگی
ہے یہ شام زندگی، صبح دوامٍ زندگی
27 دسمبر2007 کو ٹی وی سکرینوں پر ساری دنیا نے دیکھا سُنا جو شہید بی بی رانی نے کہا، آخری بے نظیر تقریر کی ایک جھلک: ”کل بھی بھٹو زندہ تھا، آج بھی بھٹو زندہ ہے، خیبر سے کراچی تک عوام کہہ رہے ہیں، ویلکم ویلکم، بے نظیر ویلکم، کراچی میں بم دھماکہ کر کے پی پی قیادت کو ختم کرنے کی کوشش ہوئی مگر مارنے والے سے بچانے والا بڑا ہے، راولپنڈی میں ہم نے خوشیاں دیکھیں اور دکھ بھی بہت دیکھے، یہ دھرتی آپ کو پکار رہی ہے یہ دھرتی مجھے پکار رہی ہے اس لیے میں اس تاریخی لیاقت باغ آئی ہوں“۔
بولن بول تے سراں تے تول دیندے
بولےصٍدق سنگ جنہاں دےبول ہوندے
دےکےجان وی کدی جو ڈولدے ن?یں
عبدٍ حق اُوہ ہیرے انمول ہوندے
کسی نے ”ایویں“ ہی نہیں یہ بول دیا ہے کہ وہ لڑکی لعل قلندر تھی اور زندہ ہے بی بی زندہ ہے۔ میں نے اس ضمن میں کہا تھا کہ:
کون کہتا ہے صرف سیاست و اقتدار کی بات کرتی تھی ،وہ نداقلندر تھی خلق خدا سے پیار کی بات کرتی تھی ،لوگوں کو مبارک ہوں تخت و تاج و حکومت کی باتیں ،وہ شہید کی بیٹی پھانسی اور دار کی بات کرتی تھی۔
کسی کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ہی اس کی اہمیت و منزلت کا اندازہ ہوتا ہے، بے نظیر بی بی کے جانے کے بعد ملک و قوم کو اس طرز و لیول کا لیڈر ہی نہیں ملا۔ شاید ہمیں اس چیز کی بھی کوئی پہچان اور قدر نہیں ہے کہ مفاہمت کے کنگ شیروں کے شکاری سابق صدر آصف زرداری سب پہ بھاری ہی نہیں ہیں بلکہ وہ عصرٍ حاضر کی سیاست کے بہت تجربہ کار و سر بلند، مدبر و دبنگ اور وضع دار و لجپال لیڈر ہیں جو جمہوریت اور ملک و قوم کی ترقی کی خاطر سب کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں لیکن اس کے باوجود عہد موجود کی سیاست کا یہ سردار آصف ستم رسیدہ ہے اور نم دیدہ بھی۔ اس ضمن میں بھی میرا اپنا ہی ایک شعر ہے کہ:
چین چاہتا ہوں وفا اور پیار کی بات کرتا ہوں
میں پت جھڑ خزاں میں بھی بہار کی بات کرتا ہوں
پنجاب کا جیالہ آج پریشاں حال اور فکر مند ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ بلاول بھٹو اور صدر زرداری کو یہ سوچنا ہوگا کہ ایسا کیوں ہے، کیونکہ آپ دونوں اُس بھٹو اور بی بی شہید کے وارث ہیں جن کی تمام تر طاقت و تعلق غریب عوام سے ہی رہا لہٰذا قیادت کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ پاکستان اور پیپلز آف پاکستان کے ساتھ ہی قدم ملائیں کسی پاور اور پی ڈی ایم کے ساتھ نہیں، بس یہی ایک راستہ ہے جو پی پی قیادت کو پھر سے پکڑنا پڑے گا نہیں تو تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔ میں سچائی اور بھلائی کی بات بتلا رہا ہوں ”بھاویں“ آپ کو بُرا لگے۔ کاش کوئی جاننے ماننے پہچاننے والا قدردان ہو کاش کوئی مُرشد اعتزاز احسن ایسا سخن فہم اور فکر شناس ہو، میں ہر سال 27 دسمبر کو سوچتا ہوں بے نظیر پارٹی میں شامل ہو کر کام کروں، پھر یہ سوچ کر رک جاتا ہوں کہ پہلے سے موجود ”پٍپلیوں“ کو تو کوئی پوچھتا نہیں ہمیں کون پوچھے گا لیکن کوئی بات نہیں میں بصورت اشعار آپ سے پوچھتا رہوں گا کہ:
کون ہے حق، باطل کون ہے
بے نظیر کا قاتل کون ہے
شہید بھٹو اور بے نظیر سے میری بے نظیر محبت و عقیدت ایک طویل داستان ہے،احترام و ھمدردی کا یہ رشتہ ہمیشہ بےلوث رہا بلکہ بے مثال اور لازوال بھی، بس ایک پُر درد کہانی ہےجسے میں نے منظوم تو کیا ہےلیکن کتابی شکل میں شائع نہیں کیا، کتاب کا مسودہ آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔بلا شبہ بھٹو خاندان سیاست کے جس کرب و بلا سے گزرا ہے اسے دنیا کی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔آخر میں بھٹو اور بی بی کے حوالے سے میرے متفرق اشعار:
سولی چڑھ کے شیر بھٹو حق کا نعرہ بول گیا
فکر وہ اپنی آفاقی سچ میزان پہ تول گیا
آج بھی سارے عالم میں ڈنکے تیرے ہی بجتے بیں
فخرٍ ایشیا قائدٍ عوام القاب تُجھی کو سجتے ہیں
تُجھ سے عزم جواں ہیں ان کے تُجھ سے ان کے قدم رواں
جیالے پھر پرواز پہ مائل اگرچہ پر شکستہ ہے
قلم کا تُجھ کو خراج ہے میرا حرفوں کے نذرانے بھی
تیری خاطر چلا ڈالیں گے دو چار جو تیر سنبھالے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے