زمانہ ¿ قدیم سے لفظ تابوت کا استعمال ہورہا ہے ۔تاریخ کی کتب میں سب سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تابوت ِسکینہ کا لفظ استعمال کیا۔اس تابوت کے اوپر بادل سایہ کیے ہوئے رہتے تھے اور اس میں خاص تبرکات رکھے ہوئے ہوتے تھے۔ تقریباً چارہزار سال سے وہ تابوت زبانِ زد عام ہے ۔اس کے علاوہ دودھ پیتے کلیم اللہ کو تابوت میں ڈا ل کر دریاکے حوالے کرنے کاذکربھی موجود ہے۔ بعدازاں سلطنت عثمانیہ کا تصور پیش کرنے والے ارطغرل غازی نے بھی غداروں اور منگولوں سے ایک تابوت چھین کر اسے ہلاکوخاں کے ہاتھ لگنے سے بچا لیا تھا جس میں سلطنت کے وفاداروں کی لسٹ تھی ۔فرنگیوں کے ایک سیاسی سائنسدان نیوٹن کے حرکت کے اصولوں میں لکھا ہے کہ اگر کوئی بیرونی یا اندرونی قوت نہ لگے تو جسم کی حرکت میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی یعنی رکا ہوا ہو تو رکا ہی رہے گا اور اگر چل رہا ہے تو ہمیشہ اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہے گا۔ اگر کوئی بہت بڑا جسم ہواور کوئی قلیل سی قوت ہوتو اس کی حرکت یا سکون میں مخل نہ ہوگی بلکہ صرف کوشش ہی ہو سکے گی۔ پہلے اصول کے مطابق اگر کوئی آدمی اپنے دماغ کو استعمال نہ کرے تو اس کا وزن کم ہو جائے گا اور بیرونی قوت روح اس کے دماغ پر قبضہ کرلے گی کیونکہ اس صورت میں اس کا ایمان بھی کمزور ہو جاتا ہے جیسے بھیڑیااُس وقت تک کسی بھیڑ کاشکار نہیں کرسکتا جب تک بھیڑ کا ایمان مضبوط ہو ۔ جب کسی گاڑی کا ایندھن ختم ہوجائے تو اسے منزل پر پہنچانے کیلئے دو چار لوگ دھکا لگاتے ہیں اور ڈرائیور صرف فرضی کاروائی ہی کرتا ہے ۔سر آئزک نیوٹن کے ایک اورقانون کے مطابق کوئی بھی فورس بھاری جسم میں کم اور ہلکے جسم میں زیادہ حرکت پیدا کرتی ہے ۔ جب کوئی جسم تنکے یا روئی کی طرح بے وزن ہو جائے تو اسے تو ہوا کی قوت بھی اپنی مرضی سے جدھر چاہے اُدھر گھما پھرا سکتی ہے۔ اس طرح اس جسم کی کوئی مرضی نہیں ہوتی بلکہ ماحول اور حالات اپنی مرضی سے اسے کنٹرول کرتے ہیں۔ جیسے کہ اشاروں پر چلانا یا ریموٹ سے کنٹرول کرنا وغیرہ۔ لندن کے اس سائنسدان کے مطابق تیسرا اور آخری رول یہ ہے کہ ایکشن اور ری ایکشن برابر ہوتے ہیں لیکن ان کی سمت مخالف ہوتی ہے۔ اگر بد قسمتی سے کسی جسم کا ردِ عمل بالکل ہی ختم ہو جائے تو پھر صرف اور صرف عمل کی سمت میں ہی حرکت جاری رکھتا ہے ۔ جیسے آسمان سے گرتی ہوئی کوئی چیز زمین کی طرف تیزی سے گرتی ہے اور رکنے کا نام ہی نہیں لیتی ہے۔جب کسی قوم ،فرد یا پارٹی میں یہ تینوں صلاحیتیں پیداہوجائیں یعنی کہ ایمان ختم ہو جائے اور دماغ پر اغیار کا قابو ہو ۔اور اپنی حیثیت کو ختم کرکے بے وزن ہو جائے اور ہوا کے رُخ بہکتا پھرے ۔اور Yes Man بن جائے اور Absolutely Not کا خیال بھی نہ آئے اور تیزی سے تنزلی کی طرف جارہاہو یعنی بزدلی کی وجہ سے غلامی پر راضی ہو جائے تو اسے عرف عام میں تابوت میں پڑا ہوا جسم کہتے ہیں۔ہم نے اپنے گذشتہ کالم میں” استعارہ “تابوت استعمال کرلیا تھا جس کا مطلب نظر سے عاری ، باطن سے نا آشنااور ضمیر سے خالی ایک انسان نماہستی کا سات سمندر پار سے وطن عزیز کچھ کندھوں پر سوارکرکے لانا تھا۔اسٹیبلشمنٹ ،عدلیہ ،میڈیا اور نیب نے اسے اٹھا کر لانچ کرنا تھا اور ناظرین نے 33دسمبر کی وضاحت بھی مانگی ،مجھے خوشی ہے کہ میری تحریر کو پڑھا جاتا ہے اور حق تنقید بھی استعمال کیا جاتا ہے۔میں کوئی ڈکٹیٹر یا الیکشن مینج کرنے والا نہیں جو مناسب وقت تک تاخیر کرتا رہوں۔بطور صحافی فوراًجوابدہ ہوں اپنے محسنین ناظرین کا۔آپ نے سنا ہو گا کہ وقت کبھی رکتا نہیں ہے اور ساری کائنات کا نظام قاعدے اور قانون پر چل رہا ہے ۔سورج ،چاند ،ستارے اور دن رات او رموسم سب اپنے اپنے وقت پر آتے ہیں ۔جب چڑیاں کھیت چُگ جائیں ۔جب کارتوس چل جائے۔جب میڈیسن ایکسپائرڈ ہو جائے یا جب امتحان کا وقت گزرجائے پھر پچھتائے سے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ زمانہ قدیم سے مائیں اپنے بچوں کو ”چاند “اور بچے اپنی ماں کی شفقت کو” چاندنی“ سے تشبیہ دیتے آئے ہیں۔میرے قلم سے جو دسمبر کی کوئی تاریخ لکھی گئی تھی وہ بھی کوڈ ہی تھا جبکہ وقت پر کام 31دسمبر تک ۔۔۔32دسمبر کا مطلب ہے تاخیر سے اور 33دسمبر کا مطلب زیادہ ہی تاخیر سے یعنی Too Late۔ پارٹی دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے ۔ایک فریق کہتا ہے کہ بیشک ہم ختم ہو چکے ہیں ،عوام کو دھوکہ دینے کیلئے کہہ دیتے ہیں کہ لندن سے کوئی سرجن آرہا ہے جو پارٹی کو وینٹی لیٹر سے اُتارے گا حالانکہ جو خود تابوت میں آئے وہ بھلا دوسرے کو کیا شفاءدے گا بس اب تو جنازے کا اہتمام کرنا چاہیے کیونکہ سال میں 365دن ہوتے ہیں اور کبھی کبھار 366بھی ہو سکتے ہیںلیکن وہ بھی فروری کے 29 ناکہ دسمبر کے 32 اور بیس پارٹیاںبھول جائیں کہ بانظر ،باضمیر اور باطنی قوتوں سے پُر انسان باخدا ، مرد ِ واحد کامقابلہ کرسکیں گے۔اب چاہے ہیگزاگونل (چھ پہلو) چارپائی لے کر نیچے پانچوں اور چھٹا کندھا بھی بڑھا دیں تو 367واں سورج نہیں نکلنے والا۔ اب تو الٹاسورج ہی نکلے گا ۔زنجیریں ٹوٹیں گی ،زندان بھاگیں گے کیونکہ طوفان اب جھوم کے اٹھا ہے ۔