کالم

تخلیقی صلاحیت

ہم اکثر اپنے معاشرے کی بے راہ روی کا ماتم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ لیکن ماتم کرتے وقت ہم اس بے راہ روی کے ہونے کی وجوہات ڈھونڈ نے کی صلاحیت کو کھو دیتے ہیں، کیونکہ کسی بھی مشکل یا مسئلے کا حل ڈھونڈنے کےلئے جذباتی عمل سے نکل کر سکون کے لمحے میں آنا بہت ضروری ہوتا ہے۔یہاں ہمیں یہ بات دیکھنی ہوگی کہ ایک معاشرے کی بناوٹ کس طرح سے مکمل ہو پاتی ہے۔ ہم اکثر معاشرے میں تبدیلی کو کہیں درمیان یا اوپر سے شروع کرنا چاہتے ہیں لیکن ایک اہم بات بھول جاتے ہیں کہ معاشرے کی بنیاد کسی گھر میں پیدا ہونےوالے ایک بچے سے شروع ہوتی ہے۔بچہ جب بڑا ہوتا ہے تو وہ معاشرے کا نمائندہ بن جاتا ہے ۔ اس لیے ہمیں معاشرے کے اصولوں کے ساتھ ساتھ اس کی بناوٹ کو اپنی نظر میں رکھنا نہایت ضروری ہے ۔ کسی بھی چیز کی بناوٹ کےلئے بنیاد سب سے اہم ہے ۔ کسی عمارت کی تعمیر ہی کو دیکھئے کہ اس کی بنیاد کتنی اہم ہے ، جس قدر اس کی بنیاد مضبوط اور گہری ہوگی اسی قدر یہ عمارت مضبوط اور بلند و بالا ہوگی بالکل اسی طرح ہم معاشرے کی تعمیر میں بچوں کو جس گہرائی اور گیرائی سے تربیت دیں گے معاشرہ اسی قدر خوبصورت اور پائیدار بنے گا۔ اس سے ثابت ہوا کہ کسی معاشرے کی تعمیر میں سب سے اہم عنصر ایک گھر میں پیدا ہونے والا بچہ ہے جسے ہم معاشرے کا ایک نمائندہ بناکر معاشرے میں بھیجتے ہیں ۔ اس کی بناوٹ میں والدین ، بھائی بہن اور خاندان کے دوسرے رشتے دار ، اسکول ، کالج ، ارد گرد کے پڑوسی اور دوستوں کا بہت عمل دخل ہوتا ہے ۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک شخص کی مکمل تعمیر میں کئی لوگ شامل ہوتے ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود ایک بچے کو معاشرے کا ایک نمائندہ بنانے میں جو سب سے اہم کردار ہے وہ والدین کے بعد اسکول کا ہے ۔ لیکن ابتدا بہرحال گھر سے ہی ہوتی ہے ۔ جس دن بچہ جب اپنی ماں سے یا اپنے باپ سے ایک معصوم سا سوال کرتا ہے جو بظاہر والدین کےلئے ایک بالکل بے کار محسوس ہوتاہے، بس یہیں سے یہ بناوٹ کسی اور سمت جانے لگتی ہے اس لیے جو سب سے اہم بات ہے وہ یہ ہے کہ اس معصوم اور آپ کی نظر میں جو اہم نہیں ہے اس سوال کا جواب درست دیا جائے۔ یہ اتنا اہم ہے کہ اگر غور کریں تو یہیں سے معاشرہ کی بنیاد رکھی جاتی ہے اب آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ بنیاد سیدھی رکھیں یا اسے ٹیڑھی کردیں ۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ گھر میں پلنے والا بچہ مستقبل میں معاشرے کا نمائندہ ہے اور اس کی جسمانی تربیت کے ساتھ ساتھ ذہنی تربیت نہایت ہی اہم ہے ۔ اس لیے یہ ہمارا فرض ہے کہ بچے کے ہر سوال کو اہمیت دیں اور ہر سوال کا درست اور تحمل سے جواب دیں ۔ اگر کوئی بچہ آپ سے پوچھتا ہے کہ چھت پر لگا پنکھا کیسے گھوم رہا ہے تو آپ یہ سمجھ کر کہ بچہ ابھی کیا سمجھے گا ان باتوں کو اس کے سوال کو نظر انداز نہ کریں بلکہ اس کے پوچھے جانے والے سوال پر خوشی محسوس کرتے ہوئے بچے کی ذہنی سوچ کا اندازہ لگاتے ہوئے اسے درست جواب دے کر سمجھائیں ، ہوسکتا ہے کہ وہ اس وقت فوری طور پر نہ سمجھ پائے لیکن آپ سوچیں کہ آپ کے درست جواب نے بچے کو سوچنے کے ایک مثبت عمل میں ڈال دیا اوربچے کا یہ عمل ایک معاشرے کی مثبت بنیاد رکھنے میں پہلا قدم ثابت ہوتاہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ کسی معاشرے کی مثبت بناوٹ کےلئے بچوں کے سوچنے کے عمل کو تیز اور مثبت جانب موڑنا ہی ایک کامیاب معاشرے کے بنیادی اصول میں شامل ہے ۔ ہم اپنے معاشرے کو بہتر ،مضبوط اور مثبت بنانے کےلئے اسکولوں میں دی جانےوالی تعلیم اور اس کے طریقے میں ایک بہت اہم اور انقلابی تبدیلی لائیں۔ بچوں کو طوطامینا کی طرح پوری کتاب رٹوانے کے بجائے سمجھ اور سوچ کے ساتھ پڑھنے پر توجہ دی جانی ہوگی ۔ بچوں کو رٹانے کے عمل میں ڈال کر ہم بچوں سے سوچنے کی صلاحیت چھین لیتے ہیں جو ایک معاشرے کےلئے بہت مہلک عمل ہے ۔ میں نے پرائمری اسکول کے ایسے بھی بچے دیکھیں ہیں جنھیں طوطے کی طرح سبق رٹا دیا جاتا ہے لیکن جب ان سے پوچھو کہ یہ لفظ کہاں لکھا ہے تو وہ نہیں بتا سکتے ہیں ۔ اس کی وجہ کیا ہے ؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے بچوں سے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ختم کرکے اسے رٹو طوطا بنا دیا ہے جو اس جانب توجہ دیتا ہی نہیں ہے کہ یہ لفظ کیا ہے ، اس کا تلفظ کیوں ایسا ہے اور اس کے کیا معنی ہیں ؟ بچوں کو یہ نہ سکھایا جائے کہ دو اور دو چار ہوتے ہیں بلکہ اسے بتایا جائے کہ وہ یہ جانے کے دو اور دو چار کیوں ہوتے ہیں؟ جب آپ بچوں کو سکھائیں گے کہ کسی بس میں جب سفر کرو تو بجائے اس کی سیٹ پر لگے گدے کو نقصان پہنچانے کے یہ سوچو کہ اس بس کو مزید دلکش، مزید آرام دہ، مزید بہتر کیسے بنایا جاسکتا ہے تو پھر وہ اسی سوچ میں ایک دن بڑا ہوکر اس سے اچھی اور آرام دہ بس بنانے کے قابل ہوجائے گا ۔ روزمرہ کے طور طریقے اور فیصلے تخلیقی قوت میں اضافہ کرنے کا باعث بنتے ہیں ۔ ایک بچہ اگراپنی صلاحیت کسی کام میں زیادہ دکھاتا ہے تو دوسرا بچہ اس کام میں تھوڑا کم ہوسکتا ہے ۔ یہ کسی حد تک اس بات پر منحصر ہے کہ بچوں کو کتنی تخلیقی صلاحیت پر عمل پیرا ہونے کیلئے سہولیات موجود ہیں یا میسر ہیں ۔ تاہم سب سے بڑھ کر ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے بچوں میں پائی جانےوالی صلاحیتوں کا خیال رکھتے ہوئے باقاعدگی سے ایسی تربیت کریں کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو اصل طریقے سے انجام دینے کےلئے اپنی مکمل ہمت کو استعمال میں لائیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ تخلیقی صلاحیتوں کے بغیر اور تخلیقی سوچ رکھنے والے لوگوں کے بغیر مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ دوسرے لفظوں میں تخلیقی صلاحیتوں کے بغیر دنیا ساکت کھڑی رہے گی یا کم از کم صرف بہت آہستہ، غیر موثر اور غیر عملی طور پر کام کریگی۔ ایک ایسی دنیا میں جو تیزی سے بدل رہی ہے اس کےلئے تخلیقی صلاحیت بھی بہت اہم ہے تاکہ اپنے آپ کو ثابت کیا جا سکے اور نئی چیزوں کو آزمانے اور تبدیلی کی ہمت پیدا کرنے کے قابل ہوا جاسکے۔جرمنی کی بچوں کی ماہر نفسیات خاتون محترمہ انا وولف ملر میرے اوپر تحریر کردہ بیان کی تصدیق اپنے الفاظوں میں یوں کرتی ہیں کہ نفسیات میں جادوئی مرحلہ ہماری سوچ کے ڈھانچے کی نشوونما کے ایک عمل کو بیان کرتا ہے، جس کا تجربہ 3سال سے لے کر 6 سال کی عمر میں ہوتا ہے، بعض اوقات ابتدائی اسکول کی عمر تک۔ اس مرحلے کی یہ خصوصیت ہے کہ بچے حقیقت کا ادراک کرتے ہیں، لیکن اس کی تکمیل فرضی خیالات سے تعمیرکرتے ہیں۔ جادوئی مرحلے میں، وہ حقیقت اور تصور کے درمیان لائن نہیں کھینچتے ہیں۔ ان کے خیالات کی دنیا میں سب کچھ ممکن ہے اور یہ اپنی "جادوئی منطق” سے سوچتے ہیں۔ ایک ہی وقت میں بچہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے اعمال اس کے ارد گرد کی دنیا کو متاثر کر سکتے ہیں۔ اس کے طرز عمل سے اردگرد جو کچھ ہو رہا ہے اس کا سبب وہ خود ہے ۔ جادوئی مرحلے میں، بچے پہلے سے ہی کچھ حقیقی عمل اور ان کاکنکشن جانتے ہیں اور انہیں شعوری طور پر سمجھتے ہیں۔ لیکن اس وقت ان میں ایک بڑا خلا موجود ہوتا ہے اور اس خلا کو والدین یا اساتذہ اپنی درست اور مکمل وضاحتوں سے بھرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کو معاشرے کا ایک مضبوط اور مثبت نمائندہ بننے میں مدد کرتا ہے ۔
٭٭٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri