عام طور پر لوگ اپنے اچھے حکمرانوں کی تکریم اور اطاعت کرتے ہیں،رعایا عام جنتا ہوتی ہے اور اعمال وہ طبقہ خاص جسے۔۔حکمرانی۔۔ جیسی اہم ترین مسند پر بٹھایا جاتا ہے۔ حکمران چاہے سلطان صلاح الدین ایوبی جیسا مرد مجاہد ہو یا عیش کوش کا دلدادہ محمد شاہ رنگیلا، ہوتے یہ سب حکمران ہی ہیں اور یہ الگ بات ہے کہ تاریخ بعد میں انکو کس نام سے یاد رکھتی ہے۔ اسلام کی تعلیمات بھی یہی ہیں کہ وقت کے حکمران کی اطاعت کرو لیکن جب حکمران خود چور اچکے بدمعاش اور گلی کے چوکیداروں کی ملی بھگت اور سازش سے آپ کے سروں پر آن مسلط ہوں، انہوں نے بددیانتی اور بے ایمانی سے کسی اور کے کندھوں پر چڑھ کر اقتدار حاصل کیاہو، ظالم اور عوام کش پالیسیاں لیکن ہر وقت اپنے خزانے بھرنے کے چکروں میں ہوں تو میری ناقص رائے میں ان حکمرانوں کی۔۔اطاعت۔۔نہیں انکے خلاف ۔ ۔ بغاوت۔۔ بنتی ہے؛ پروٹوکول۔۔ نہیں انکی۔۔چھترول۔۔ بنتی ہے۔ کیونکہ غلاظتوں کا مقدر کوئی وسیع وعریض صدر یا وزیراعظم ہاوسز نہیں،کوڑے کے بڑے بڑے ڈھیر یا ڈرم ہوتے ہیں۔ لہٰذا عزت و تکریم اسی کی ہوتی ہے جو عام لوگوں کو عزت دے، جنتا کا خیال رکھے، عدل کرے اور جو ایماندار ہو۔
اب آتے ہیں جمہوری نظام حکومت کی تو یہ عفریت ہمارے ملک میں بھی گزشتہ کچھ دہائیوں سے اپنے پنجے پوری طرح گاڑھ چکی ہے، کہا جاتا ہے کہ ”جمہوریت اک ایسا نظام حکومت ہے کہ جس میں۔ بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں جاتا”
سیدھی سادھی سی بات ہے ایک طرف نو پڑھے لکھے عالم فاضل لوگ اور دوسری طرف دس بارہ چور اچکے،، انتخابات میں اس نظام حکومت میں کامیابی یا حق حکمرانی اسے ہی حاصل ہو گا جسے پڑھے لکھے علماءکے مقابلے میں دس بارہ چور اچکوں نے ووٹ ڈالا ہو گا کیونکہ عددی برتری سے وہی منتخب ہو گا اور وہی حاکم بنے گا جسے ووٹ زیادہ ملے۔ اور بے ایمانی ناانصافی کا اتنا بڑا طوق ہم سالوں سے گلے میں ڈالے اسی جمہوریت کے ہی اردگرد گھومتے گھامتے نظر آتے ہیں۔ صاف ستھرے لوگوں کو ہم آگے آنے نہیں دیتے اور اگر کبھی کوئی آ بھی جائے تو ملک کے۔۔۔اصلی مامیں۔۔ اسے زیادہ دیر برداشت نہیں کرتے، کبھی کہیں مکروفریب کے گورکھ دھندےکبھی عدم اعتماد اور کبھی طاقت کے بل بوتے پر، یہ طاقتور لوگ ہمیشہ جمہوریت کی گاڑی انہی چوروں بدمعاشوں کے زریعے ہی چلواتے ہیں جو صرف انکا سگنل انکا اشارہ سمجھیں انکی مرضی پر چلیں م۔ دوسرے الفاظ میں جمہوریت کے اس نظام میں یہاں کسی ایوبی، غوری،ٹیپو کی کوئی گنجائش نہیں یہاں ہمیں صرف نوکروں، جوکروں اور غلاموں جیسے اعمال کی ضرورت ہوتی ہے جو آقا کے اشارے پر ہمیشہ سر تسلیم خم ہی رکھتے ہوں۔
ہمارے ملک میں ۔۔جمہوریت ایکسپریس ۔۔ کی باگ دوڑ آجکل کچھ عارضی ٹھیکیداروں کو دے دی گئی ہے جن کا عوام کے ساتھ ڈائریکٹ کوئی تعلق نہ واسطہ ہے، بس فرمان شاہی جاری ہوا اور یہ۔۔بچے جمہورے۔۔ رعایتی پاس قرار دے کر ان سے کام شروع کروا دیا گیا۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ نہ انکا کوئی نام ہے نہ کام یا کسی کام سے کوئی کام، مرضی ہو تو راتوں رات مہنگائی دگنی کر دیں، اگر کام نہ کرنا ہو تو مینڈیٹ کا بہانا۔ یعنی من حرام تے حجتاں ڈھیر۔ بھائی یہ کسی کی آنکھ کا تارا تھے، سو چن لئے گئے۔ لیکن چن چن کر صرف انکو سامنے لایا گیا جو عام عوام کی سب سے بڑی ہر دلعزیز شخصیت کے کٹر مخالف۔ مثال کے طور پر نگران وزیر اطلاعات۔ سولنگی۔کا نام ہی کافی ہے۔ زرا ان نگرانوں کی بے حسی ملاحظہ فرمائیں: پوچھا گیا، جناب ملک کے حالات بہت خراب ہیں، لوگ مایوس ہو کر دھڑا دھڑ باہر جا رہے ہیں۔۔۔جواب دیا۔۔۔ تو پھر کیا ہوا؟ اگلے دن صحافیوں نے پوچھا! جناب پورا ملک سراپا احتجاج اور مہنگائی پر سینہ کوبی کر رہا ہے، بجلی اتنی مہنگی کر دی گئی ہے کہ لوگوں نے بل جلا کر نافرمانیاں شروع کر دی ہیں، پہیہ جام ہونے کو ہے تو آپ جناب نے پھر سے مکمل۔۔سپاٹ چہرے۔۔ سے جواب دیا، ٹھیک ہے مہنگائی ہے لیکن اتنی بھی نہیں ہے جتنی سوال کرنے والے نے بڑھا چڑھا کر پیش کی ہے۔ پھر سوال پوچھا گیا، بجلی کے بل اتنے زیادہ ہیں کہ عام آدمی کا بل بھرنا ناممکن ہو چکا ہے تو۔۔۔بے حسی۔۔ سے پھر سے کورا سا جواب دے دیا کہ بل تو آخر بھرنا ہو گا۔ جناب یہ ہیں اس جمہوریت کے ثمرات، نگران ٹھیکیداروں کی بے حسی اس انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ انکی نظر میں عام آدمی کا کوءمسئلہ انکی نظر میں کوئی مسئلہ ہی نہ ہے۔ ریلیف کے نام اجلاس پر اجلاس اور نتیجہ صفر۔ یار اگر ریلیف نہیں دے سکتے تو اسطرح ہمارا مذاق اڑا کر ہمیں مزید تکلیف تو نہ دو۔
کاکڑ صاحب فرماتے ہیں کچھ لوگ ویسے ہی خوا مخواہ بے چینی پھیلا رہے ہیں، کوءاتنے بھی حالات خراب نہیں کہ لوگ پہیہ جام ہڑتال کر دیں۔ واہ سبحان اللہ۔ محترم نگران وزیراعظم کسی بڑے حادثے کسی بڑی گھٹنا کے بغیر سرے سے ماننے کو تیار ہی نہیں کہ عوام مہنگائی اور بجلی کے بلوں سے تنگ آ کر اکا دکا خودکشیوں پر بھی مجبورہو چکی ہے۔ کیا کسی سو پچاس جنازوں کا انتظار ہے آپ جناب کو پھر آپ مانیں گے کہ لوگ یہاں پریشان ہیں؟؟؟۔ جناب آپ کا قصور نہیں آپ کونسا ووٹ لے کر آئے ہیں کہ عوام آپکو پوچھے گی کہ اس ملک کا جتنا بیڑا غرق پچھلے سولہ ماہ والے کر گئے تم نے تو بھاءسولہ دن بھی نہ نکالے عوام کے ”کڑاکے” نکالنے میں اور اوپر سے تنز کے تیر کہ جو پوچھو جواب! کہ پھر کیا ہوا؟
آج بروز اتوار ملک بند ہے، جمعہ کو بھی وسیع پیمانے پر احتجاج ہوا لیکن آج تو گلی محلوں کی دوکانیں بھی سنا ہے بند رہیں۔ کاکڑ صاحب اگر جان کی امان پا¶ں تو اگر آپ میں زرا بھی شعور ہوتا تو پہلے اجلاس ہی میں پندرہ بیس فیصد ریلیف اگر دے دیتے تو آج بند کاروبار کی وجہ سے کروڑوں روپے خزانے میں آنے سے نہ رکتے۔ لیکن آپ کا کیا، نہ آپ نے عوام کو خوش کرنا ہے نہ تاجروں دکانداروں کو، آپ نے تو خوش کرنا ہے اپنے آقا¶ں کو جو خود بھی کچھ نہیں سمجھتے اور نہ ہی کسی کی بات کو وہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔