ویسے تو شروع سے ہی لیکن اب تو زندگی اور بھی ناپائید ہو چکی ہے دکھوں غموں مجبوریوں بیماریوں حسرتوں اور ایسی ہی دیگر چیزوں کو جمع کرلیں تو اسے زندگی کہا جا سکتا ہے بہرحال خوشی ہو یا غم قید حیات کو گزارنا تو ہے سو گزار رہے ہیں گزشتہ دو سالوں کے دوران اچانک مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر طویل دورانیئے کی بیماریاں بھگتنے کا تجربہ خوفناک ہونے کےساتھ ساتھ خوشگوار بھی تھا مجھے بیماری میں اللہ تعالی سے باتیں کرنے دکھ سکھ بیان کرنے اور غیبی مدد سے شفا یابی کے تجربے بھی ہوئے لاہور میں ائی ہیلتھ کیئر نام کا فیس بک پر اشتہار دیکھا ڈاکٹر لطیف صاحب یہ ادارہ چلا رہے ہیں فون پر انہیں اپنی بیماری بتائی ویڈیو لنک پر انہوں نے معائنہ کیا میری انکھوں کے پٹھے یا اعصاب متاثر ہوئے تھے کمال کی بات یہ تھی کہ ڈاکٹر لطیف ان چند ڈاکٹرز میں شمار ہوتے ہیں جو اس بیماری کے ماہر ہیں ورنہ کراچی یا اسلام اباد میں ہی ایسے دو تین ڈاکٹرز ہیں ڈاکٹر لطیف سے فون پر پہلی ملاقات میں ان کی اعلی ظرفی نے میری ادھی بیماری کم کر دی ڈاکٹر لطیف نے مجھے دوائی پارسل کی جسے ایک ڈیڑھ ہفتہ استعمال کرنے کے بعد میں کافی حد تک ٹھیک ہو چکا تھا میرے تندرست ہونے کے بعد ڈاکٹر لطیف نے بتایا کہ انکھ کے پٹوں کو فالج ہوا تھا پھر انکھوں کے علاج کےلئے میرے دیرینہ دوست سابق میڈیکل سپرنٹنڈنٹ،پرویزالٰہی انسٹیٹیوٹ اف کارڈیا لوجی ڈاکٹر قاضی غلام مرتضی نے مجھے ڈاکٹر اظہر مرزا ائی سپیشلسٹ گجرات کا بتایا اور ساتھ ڈاکٹر اظہر کو فون پر میرا تعارف بھی کرا دیا تب ڈاکٹر اظہر سیشن کورٹ گجرات کے مین گیٹ کے سامنے مرزا ائی ہسپتال چلاتے تھے وہاں پہنچا تو سڑک اور فٹ پاتھ سے لے کر اندر ہسپتال تک مریضوں سے بھرا ہوا تھا ڈاکٹر اظہر کے اسسٹنٹ کو اپنے بارے میں بتایا تو ڈاکٹر اظہر نے کمرہ خاص میں مجھے بٹھانے کو کہا اور اس دوران دو مرتبہ ایک ڈاکٹر صاحب نے میری انکھوں میں وقفے وقفے سے ڈراپس ڈالے اور پھر مجھے اپریشن تھیٹر پہنچا دیا گیا مجھ سے پہلے ڈاکٹر اظہر ایک میجر جنرل کی انکھوں کا معائنہ کر کے فارغ ہوئے تھے جدید مشینوں پر ڈاکٹر اظہر نے میری انکھوں کا معائنہ کرنے کے بعد مجھے ڈاکٹر لطیف والی بات بتا دی اور ساتھ یہ بھی سمجھا دیا کہ علاج ممکن ہے پریشانی کی کوئی بات نہیں ڈاکٹر اظہر وزیر اباد کے سپوت ہیں اور ملک کے بڑے سرکاری ہسپتالوں میں بطور سربراہ خدمات انجام دے چکے ہیں کل پرسوں خبر پڑھی کہ انہوں نے ڈسٹرکٹ کونسل گجرات کے عقب میں اپنا نیا ہسپتال بنا لیا ہے سوچا ان کی مہربانیوں شفقتوں کا شکریہ ادا کرنا لازم ہے ڈاکٹر اظہر کے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ نے شفا رکھ دی ہے وہ لوگوں کو اندھیروں سے اجالوں میں لے جانے کا مقدس فریضہ انجام دے رہے ہیں اور اب تک لاکھوں مریضوں کی زندگی میں اجالے لا کر روشنیاں پھیلا رہے بالکل اسی طرح بیماری کے دوران میرے پڑھنے چاہنے اور پیار کرنے والے عرصہ دراز سے ہالینڈ میں مقیم پاکستان پیپلز پارٹی ہالینڈ کے صدر اور جامعہ مسجد ہالینڈ کے نائب صدر کرامت علی چوہدری میری بیماری کے دوران میرے ساتھ فون رابطے میں رہے انہوں نے اپنے پرانے دوست ڈاکٹر ظہیر رضوی کو فون پر میری بیماری کا بتایا اور خود ہالینڈ سے پاکستان ائے اور اپنے ساتھ ڈاکٹر ظہیر رضوی کے پاس سیالکوٹ لے گئے ان دنوں ڈاکٹر ظہیر اسلامیہ کالج کے سامنے اپنا بہت بڑا ہسپتال چلا رہے تھے جس میں کئی ڈاکٹرز کو اپنے ساتھ رکھا ہوا تھا ڈاکٹر ظہیر رضوی کمال کے روحانی انسان ہیں میری پہلی ملاقات ان سے شناسائی میں بدل گئی انہوں نے ایک ٹیبلٹ لکھی اور کہا کہ انشااللہ چند روز میں فرق واضح ہو جائے گا اور قسم سے ایسا ہی ہوا ڈاکٹر ظہیر رضوی نے بھی گزشتہ ماہ سیالکوٹ میں اپنا نیا ہسپتال بنایا ہے میں اس کے افتتاح میں تو نہ پہنچ سکا لیکن ان کی محبتوں شفقتوں پیار پر ان کا احسان مند تھا سوچا ان کو بھی نیا ہسپتال بنانے پر مبارکباد پیش کروں سو ڈاکٹر ظہیر رضوی کو انسان اور انسانیت کی خدمت کے اس نئے سفر پر مبارکباد اور ساتھ کرامت علی چوہدری کو بھی مبارک باد کہ جو میری بیماری کے حوالے سے پاکستان آئے اور مجھے ڈاکٹر رضوی جیسی خوبصورت شخصیت سے تعارف کرایا اس موقعے پر میں اگر کینیڈا میں مقیم برادرم افتاب احمد اور یو کے میں مقیم ان کے بھائی ڈاکٹر نوید اور ان کی لیڈی ڈاکٹر بھابھی کا شکریہ ادا نہ کروں تو یہ بڑی نا انصافی ہوگی کہ جنہوں نے نہ صرف مجھے ادویات بلکہ دعاں سے نوازا صحافیوں کی ازادی خود مختاری سچ لکھنے سچ بولنے سچ دکھانے کیلئے اسانیاں پیدا کرنے اور صحافیوں سے اپنا پیار محبت دکھانے کیلئے پنجاب اسمبلی سے پاس کردہ اس سنہرے قانون کی موجودگی میں تو اب یہی کچھ لکھا جا سکتا ہے اس لیے کہ طویل بیماریوں کے بعد شفا یابی کے فورا بعد اب میں کسی مہم جوئی کا متحمل نہیں ہوں۔