امت مسلمہ پراس وقت کٹھن دور گزر رہا ہے ،چھپن اسلامی ممالک پر مشتمل اےک ارب کے قرےب مسلمان رسوا کےے جا رہے ہےں ،قتل عام جاری ہے ،قےادت کا فقدان ہے ،قوم بے حسی کاشکار ہے ،خود امرےکہ اور مغربی ممالک کے عوام اس ظلم پر اٹھتے ہےں اور سڑکوں پر نکل کر احتجاج کر تے ہےں ،روزانہ ٹی وی پر آگ و خون اور اموات کے کربناک مناظر دےکھنے کو ملتے ہےں ،معصوم بچوں کا خون بہتا دےکھتے ہےں بے گناہ انسانوں کا قتل عام ہو رہا ہے جن کو ےہ بھی نہےں معلوم کہ ہمےں کس جرم مےں مارا جا رہا ہے ۔لاشوں کے انبار ہےں اور ہم خاموش تماشائی ےہ دلدوز مناظر دےکھنے اور بے بسی کے آنسو بہانے پر مجبور ۔غزہ کے رہائشی علاقوں کو اسرائےل نے نےست و نابود کر دےا ہے ۔پناہ گزےن کےمپوں پر بھی تابڑ توڑ حملے کےے جا رہے ہےں ۔اسرائےلی بمباری سے اب تک اکےس ہزار سے زائد فلسطےنی شہےد ہو چکے ہےں جن مےں صحت کے عملے کے تےن سو سے زائد افراد بھی شامل ہےں ۔غزہ مےں ےتےم ہونے والے بچوں کی تعداد تو معلوم نہےں لےکن اےسا دکھائی دےتا ہے کہ ےہ جنگ غزہ مےں بچوں کے خاتمہ کےلئے ہی شروع کی گئی کےونکہ سب سے زےادہ بچے ہی اس جنگ کی زد پر ہےں ۔اےک رپورٹ کے مطابق ہر گھنٹے مےں 6فلسطےنی بچے شہےد ہو رہے ہےں ۔ساڑھے پچپن ہزار سے زائد فلسطےنی زخموں سے چور چور ہےں ۔شہداءکو اجتماعی قبروں مےں دفن کےا جا رہا ہے ،ظالم انسانےت نے درندگی کو بھی مات کر دےا ہے ۔غزہ مےں مسلمانوں کی تارےخ کی بدترےن صورتحال اور امت مسلمہ کی بے حسی دےکھ کر ہر مسلمان کا دل خون کے آنسو رو رہا ہے ۔ےونےسف کی اےک حالےہ رپورٹ مےں اعتراف کےا گےا ہے کہ غزہ کے اےک ہزار سے زائد بچے اےک بازو اور اےک ٹانگ سے محروم ہو چکے ہےں ۔آگ اور دھوےں کے بادلوں نے غزہ کو اپنی لپےٹ مےں لے لےا ہے ۔متعدد اسپتال اور صحت مراکز ناکارہ بنا دئےے گئے ہےں ۔کےمپوں مےں پناہ گزےن پچاس ہزار سے زائد حاملہ خواتےن پانی ،خوراک ،اور ضروری ادوےات سے محروم ہےں ۔دنےا کی تارےخ مےں ےہ مظالم کی بد ترےن مثال ہے ۔اقوام متحدہ اور مسلمانوں کا عالمی ادارہ ”اوآئی سی “ بھی بے حسی کی تصوےر بنے ہوئے ہےں ۔غزہ کی پٹی 60کلومےٹر لمبی اور22کلومےٹر چوڑی ہے جس مےں 22لاکھ انسان بستے تھے ۔اسرائےل ےہاں کے مکےنوں کو ان کے گھروں سے پناہ گاہوں کی طرف دھکےل چکا ہے ۔تمام عالمی جنگی قوانےن کو بھی اسرائےل نے اپنے پاﺅں تلے روند دےا ہے اور ثابت کر دےا ہے کہ عالمی قوانےن صرف اور صرف کمزور کےلئے ہوتے ہےں ،طاقتور کےلئے کوئی قانون نہےں ہوتا ،طاقتور کا ہر اےکشن ہی قانون ہوتا ہے ۔سوشل مےڈےا پر وائرل ہونے والی خوف زدہ ،معصوم ،سہمے ہوئے بچوں کی وےڈےوز کے کربناک مناظر دےکھ کر کوئی بھی درد مند انسان اپنے جذبات پر قابو نہےں رکھ سکتا ۔اےسے المےوں پر آنکھوں مےں نمی کا آنا فطری امر ہے ۔ان پھولوں کی شہادت پر ماﺅں کے دلوں سے شدت کرب سے دھاڑےں نکلتی ہےں لےکن پوری دنےا اور مسلمان امہ کے حکمران خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہےں ۔اسرائےلی بمباری مےں شہےد ہونے والے بےٹے کے اےک دل شکستہ باپ کی وےڈےو نے پتھر دلوں کو بھی رلا دےا ۔خدا کرے کوئی باپ اےسا منظر نہ دےکھے ۔والد فلسطےنی زبان مےں ،چہرے پر آنسوﺅں کا سےلاب لئے اپنے بےٹے کو پکارتے ہوئے کہتا ہے کہ ”مےرے پےارے بےٹے!ےہ مےں تمہارے لئے لاےا تھا ،ےہ اپنے ساتھ جنت مےں لے جانا ۔“ باپ گرےہ کرتے ہوئے اپنے بےٹے کے ہاتھ اور بسکٹ کو کفن کے نےچے رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ”مےں اسے ےہاں رکھ لےتا ہوں ،اسے اپنے پاس رکھو ۔“ جب فلسطےنی ماں باپ کو معصوم بچوں کو کفن پہنائے ہوئے قبروں مےں اتارتے دےکھتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے ۔وہ بچہ ذہن سے محو نہےں ہوتا جو سجدے مےں لےٹ کر اپنے بڑے بھائی کو کہہ رہا ہے کہ بھائی لا الہٰ پڑھ لو ،مرنے پر درد نہےں ہو گا ۔غزہ مےں ملبے سے نکالی گئی بچی اپنے انکل سے پوچھ رہی ہے کہ کےا وہ مر گئی ہے اور اسے قبرستان لے جاےا جا رہا ہے ۔اقوام متحدہ کے امدادی اداروں کے مطابق غزہ بچوں کا قبرستان بن چکا ہے ۔امدادی امور کےلئے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر کے سربراہ مارٹن گرفتھس نے سوشل مےڈےا کے پلےٹ فارم پر لکھا ہے ”جب آٹھ سالہ بچہ آپ کو بتائے کہ وہ مرنا نہےں چاہتا تو کوئی بھی ماےوس ہوئے بغےر نہےں رہ سکتا “۔ےونےسف کے ترجمان جےمز اےلڈر نے مطالبہ کےا ہے کہ غزہ مےں بدترےن مصائب کا سامنا کرے والے 11لاکھ بچوں کی خاطر فوری جنگ بند کی جائے اور انسانی امداد کی فراہمی کےلئے تمام راستے کھولے جائےں ۔غزہ مےں پانی کی قلت کے باعث بچوں کی اموات کا اندےشہ بڑھ رہا ہے ۔اےک بچہ اپنے تباہ شدہ گھر کے ملبے پر کھڑا زاروقطار رو رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ کاش ےہ خواب ہو ۔لندن مےں اےک فلسطےنی نوجوان احمد کی نوکری لگتی ہے ۔وہ اپنے خاندان کے 15بچوں کو ساحل سمندر پر ٹرےٹ کرنے کےلئے پےسے بھےجتا ہے ۔بچے انتہائی خوش وےڈےو کال پر اپنے ماموں سے خوش گپےاں کرتے دکھائی دےتے ہےں مگر اگلے روز ان کے گھر پر اسرائےلی بمباری سے تمام کے تمام پھول مسل دئےے جاتے ہےں ۔غزہ مےں تباہ حال کثےرالمنزلہ عمارت کے سامنے اےک تباہ شدہ فٹ پاتھ پر دو کمسن بچے بےٹھے ہےں جن کی عمرےں چار اور پانچ سال کے قرےب ہےں ۔دونوں حقےقی بھائی ہےں ان کے والدےن ،بہن بھائی سب کے سب اسرائےلی بمباری سے جام شہادت نوش کر گئے ہےں ۔ان کی لاشےں لاشوں کے ڈھےر مےں رکھی ہےں ۔اچانک اسرائےلی طےارے دن مےں چھٹی مرتبہ آتے ہےں اور بمباری شروع کر دےتے ہےں ۔طےارے بمباری کر کے چلے جاتے ہےں تو چھوٹا بھائی پوچھتا ہے ،کےا ہم بھی کسی دن اسرائےلی طےاروں کی بمباری کی زد مےں آ کر کسی وقت بھی دوسرے لوگوں کی طرح مارے جائےں گے ،دوسرا بھائی چھوٹے کو تسلی دےتے ہوئے کہتا ہے ،نہےں ،ہم شہےد ہو جائےں گے اور اﷲ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اس کی راہ مےں شہےد ہونے والوں کو بوقت شہادت اتنی بھی تکلےف نہےں ہوتی جتنی چےونٹی کے کاٹنے سے ہوتی ہے ۔چھوٹا بھائی ےہ سن کر مطمئن ہو جاتا ہے اور اس کی زبان سے ورد شروع ہو جاتا ہے ۔غزہ کی گلےوں کا اےک منظر ہے ۔کمسن بچوں کے کفن مےں لپٹے ان گنت لاشے اےک جگہ رکھے ہےں ۔اےک ادھےڑ عمر فلسطےنی پاس کھڑے ہو کر انہےں پےغام دےتے ہوئے کہتا ہے ،مےرے پےارے بچو ِ مےرے جگر کے ٹکڑو ،تم بعد از شہادت اب جنت کے سفر پر روانہ ہونے والے ہو ۔جنت مےں پہنچ کر جب سردار انبےاءحضرت محمدﷺکی خدمت اقدس مےں پہنچو تو انہےں بعد از سلام ہمارا پےغام دےنا کہ ہر قسم کے وسائل سے مالا مال امت مسلمہ ہمےں ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے نہےں بچا سکی ۔بچے اےڑےاں رگڑ رگڑ کر شہےد کئے جا رہے ہےں ۔اﷲ کے بندے اپنے ہی لہو سے وضو کر رہے ہےں ،وحشت و بربرےت و درندگی کا راج ہے ،لاشوں کے دفنانے کو موسم غزہ کے ہر آنگن مےں اتار دےا گےا ہے ۔منظر نامہ آہوں ،سسکےوں اور اشکوں سے تحرےر ہو رہا ہے ۔ےہ مناظر دےکھنے والوں کی آنکھوں مےں بے بسی کے آنسو چھلک رہے ہےں ،مسلم ممالک کے بے بس عوام رونے دھونے کے علاوہ کےا کر سکتے ہے ۔ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قےامت کا فراز ،ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مرجائے گا ۔آنسوﺅں نے مےرے آنسوﺅں کو پرسہ دےا کہ اپنی بے حمےتی کا جنازہ اٹھانے کا وقت آ گےا ہے لےکن مسلم ممالک کے اکابرےن قوم کے سمندر مےں ہلکا سا ارتعاش بھی پےدا نہےں ہو رہا ،تموج کے آثار تو دور کی بات ہے کوئی کنکر بھی لہروں کے سکوت کو نہےں توڑ رہا ۔ہم معجزوں کے انتظار مےں ہےں لےکن اس حقےقت کو فراموش نہےں کرنا چاہئےے کہ بے ےقےن اور کم ہمت قوموں کےلئے آسمان سے فرشتے نہےں اترتے ۔ کہتے ہےں کہ ظلم کو طاقت سے نہ روکا جا سکے تو زبان سے ہی اس کی مذمت کرنے نکلنا چاہئےے ۔اگر ہم ےہ بھی نہےں کر سکتے کہ اخلاقی طور پر ظلم کے خلاف آواز اٹھائےں اور ظالم کا ہاتھ روکنے مےں اپنا کردار ادا کرےں تو پھر ہم سب مل کر اپنی بے بسی پر آنسو بہائےں اور سرخرو ہو جائےں کہ جو کچھ ہمارے اختےار مےں تھا ہم نے کر لےا ۔ےہ بھی سننے مےں آتا ہے کہ مظلوموں کی آہےں ،ان کے آنسو ہوتے ہےں ،ان کے نالے آسمان چےر جاتے ہےں ۔