یوم استحصال کشمیر کے موقع پر عظیم حریت رہنما سید علی گیلانی مرحوم و مغفور (نشان پاکستان) کو شاندار خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ سید علی گیلانیؒکشمیر کی تحریک آزادی میں ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ جیل میں گذارا۔ وہ واحد رہنما ہیں جو کشمیر کو پاکستان کا حصہ سمجھتے تھے اور اس کےلئے جدوجہد کرتے رہے۔ بزم اقبال لاہور، نظریہ پاکستان ، جماعت اسلامی و دیگر اداروں و تنظیموں نے اس موقع پر ملک بھر میں مذاکروں و مجالس کا اہتمام کیا۔ تما م بڑے شہروں میں جلسے و جلوس منعقد ہوئے جس میں مقررین نے 5 اگست 2019 کوکشمیر میں غیر قانونی اور یکطرفہ بھارتی اقدامات بھرپور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے کشمیریوں کا سپیشل اسٹیٹس چھین کر انسانیت کے خلاف جرم کیا اور کشمیری قوم کی شناخت ختم کرنے کی سازش کی۔کشمیر میں بھارتی اقدام کو چار سال ہوگئے ہیں اس دوران کشمیریوں پر بے انتہا ظلم و ستم ڈھائے گئے۔ کشمیریوں کی اکثریتی آبادی کو بے دخل کر کے غیر کشمیریوں کو وادی میں بسایا جا رہا ہے جس سے کشمیری مسلمان اقلیتی حیثیت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ بزم اقبال کے زیر اہتمام مذاکرے میں ڈائریکٹر بزم اقبال ڈاکٹر تحسین فراقی نے مسئلہ کشمیر کا پس منظر اور تحریک آزادیِ کشمیر کے سلسلے میں حکومت ہند کے مظالم کا بالتفصیل تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے ہم سفارتی سطح پر متحرک ہوں۔ سفارت خانوں میں ان لوگوں کا تقرر کیا جائے جو ان ممالک کی زبانیں جانتے اور ان کے تمدن سے بخوبی آگاہ ہوں اور تحریک و تخلیق پاکستان کے محرکات اور مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم کے ضمن میں انسانی حقوق کی تنظیموں کو آگاہ کرسکیں نیز پاکستان کے بارے میں پھیلائی گئی غلط فہمیوں کا رد کر سکیں۔ مذاکرہ میںماہر اقبالیات ڈاکٹر وحید الزمان طارق نے اقبالؒ اور کشمیر کے تعلق پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ حضرت علامہ اقبال ؒ کا تعلق محض اس لیے کشمیر سے نہیں تھا کہ خطہ کشمیر، ارض خداوندی پر ایک جنت نظیر وادی ہے، بلکہ علامہ ؒکے اجداد بذات کشمیری تھے اور یوں ا±ن کی رگوں میں رواں رہنے والا خون خالص کشمیری ہی تھا۔ کشمیر سے اپنے تعلق پر اقبالؒ ہمیشہ فخر کرتے اور کشمیرسے جدائی کا احساس رکھتے تھے ۔علامہ اقبالؒ نے کشمیر کی اس جداگانہ شناخت کو بحال رکھنے اور منوانے کے لیے، بذات خود پنجاب کے شہر لاہور میں تب کے کشمیریوں کی قائم کردہ ” انجمن کشمیری مسلمانان ” کے ابتدائی دنوں ہی میں شمولیت کی اور جلد ہی ا±ن کو انجمن کشمیری مسلمانان کا سیکریٹری جنرل بنادیا گیا۔اقبالؒ کا مطالبہ تھا کہ زبر دستی بے وطن اور بے گھر کر دیئے گئے کشمیریوں کوریاست میں اپنے گھروں کو واپس جانے، وہاں آباد ہونے اور اپنی املاک کے خود مالک ہونے کا حق دیا جائے۔ریٹائرڈ میجر آفتاب احمد نے تحریک آزادی کشمیر کے ایام کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ قوم کی کردار سازی اور تحریک آزادی کے لیے عملی قدم اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔ ممتاز صحافی سجاد میر نے بتایا کہ ہندوستان کے مظالم کی دنیانے مذمت نہیں کی۔ دنیا سے منوانے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہم اپنے آپ کو مضبوط بنائیں کیونکہ پاکستان کے استحکام کے ساتھ کشمیر کی آزادی وابستہ ہے۔ڈاکٹر انجم رحمانی نے کہا کہ ضروری ہے کہ ہم سفارتی محاذ پر متحرک ہوں خاص طورپر ہندوستان کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تشہیر کی جائے۔کشمیر کی تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے راقم الحروف نے بتایا کہ عظیم سکالر، صحافی، مفسر قرآن علاّمہ محمد اسد لکھتے ہیں کہ جب آزادی کشمیر کی جدوجہد اپنے عروج پر تھی تو لاہور میں میری ملاقات میجر جنرل حمید سے ہوئی۔میں ان کے ساتھ کشمیر کے محاذ پر گیا۔جیپ میں سوار جہلم سے مشرق کی جانب جا رہا تھا۔ ہماری سڑک کشمیر کے صوبہ پونچھ تک جاتی تھی اور موصولہ اطلاعات کے مطابق وہاں تقریباً ایک لاکھ ہندستانی فوجی قبضہ جمائے بیٹھے تھے۔پنجاب اور کشمیر کی برائے نام سرحد عبور کرتے ہی ہم پاکستانی فوج کے پڑاو¿ پر جاپہنچے۔ یہاں سیکڑوں خیمے نصب تھے اور پیدل فوج کی خاصی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔یہاں سیکٹر کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل یعقوب خاں سے ملاقات ہوئی جو بعد میں پاکستان کے وزیر خارجہ بھی رہے۔ دھر ا±دھر فوجی ٹولیوں میں سڑک کے کنارے بیٹھے وقت گزار رہے تھے۔ دائیں جانب د±ور فاصلے پر میں نے ایک گھنا جنگل دیکھا، لیکن وہاں بھی کوئی چلتا پھرتا نظر نہیں آتا تھا۔ میجر جنرل صاحب نے میری طرف منہ پھیرا اور پوچھا: ”کیا آپ نے اس جنگل میں کوئی دلچسپ چیز دیکھی؟“ میں نے جواب دیا: ”کچھ خاص نہیں، صرف درخت ہی تو ہیں“۔میجر جنرل حمید مسکرائے: ”آپ کو دیکھنا چاہیے تھا۔ اس چھوٹے سے جنگل میں پاکستان کے توپ خانے کا نصف حصہ چھپا بیٹھا ہے۔ جو سڑک پونچھ اور اس سے آگے جاتی ہے، وہ مکمل طور پر ہماری زد میں ہے اور جب ہم کل حملہ کریں گے، پونچھ میں مقیم ہندوستانی فوجوں کا دونوں اطراف سے رابطہ منقطع ہوجائے گا۔ چونکہ ہمارا توپ خانہ ان سے بدرجہا بہتر ہے، اس لیے وہ مزاحمت نہیں کرسکیں گے۔ وقت کی کمی کے باعث انھیں کمک بھی نہیں پہنچ سکے گی۔ ہم نے اب اپنے تمام فوجی دستوں کو یہاں تعینات کر دیا ہے۔ ان حالات میں ہندستانی فوج ہتھیار ڈال دے گی یا تہس نہس ہوجائے گی۔ اس کے بعد ہم سری نگر کی طرف پیش قدمی کریں گے، ان شاءاللہ۔ ہمارے لیے اب یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے“۔ ہندوستان کی اعلیٰ فوجی کمان کو جونہی پاکستانی فوج کے اس متوقع حملے کا پتا چلا، اس نے فوراً اپنے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کو تمام صورتِ حال اور اس کے مضر اثرات سے آگاہ کردیا۔ پنڈت صاحب نے اسی وقت برطانوی وزیراعظم کلیمنٹ اٹیلی سے فون پر رابطہ قائم کیا اور ان پر زور دیا: ”پاکستان کو ہرقیمت پر اس حملے سے روکنا ہوگا، کیونکہ اتنے مختصر وقت میں ہندستان کے لیے بذریعہ جہاز پونچھ کمک پہنچانا ممکن نہیں ہے۔ اگر انھیں پاکستانی افواج سے ہزیمت ا±ٹھانا پڑی تو وہ احتجاجاً دولت مشترکہ کی رکنیت چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں گے (کہیں اور کا اشارہ اشتراکی روس کی جانب تھا)۔ اگر پاکستان کو اپنا حملہ منسوخ کرنے پر آمادہ کرلیا جائے تو وہ اگلے سال کشمیری عوام کو استصواب رائے کا حق دے دیں گے“۔تمام رات نئی دہلی اور لندن کے درمیان ٹیلی فون کی تاریں بجتی رہیں۔ وزیراعظم اٹیلی کو ہندوستان جیسا بڑا ملک ہاتھ سے نکلتا دکھائی دینے لگا۔ اس نے فوراً لارڈ ماو¿نٹ بیٹن سے مشورہ کیا اور کہا کہ برصغیر کے امورمختلفہ کے تجربہ کار ماہر کی حیثیت سے وہ نہرو کی تشویش د±ور کرنے کی کوشش کریں اور اس مقصد کے حصول کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کریں۔ چند گھنٹوں بعد لارڈ ماو¿نٹ بیٹن نے پاکستان کے وزیرخارجہ سر ظفراللہ خاں کو فون کیا اور انھیں بتایا کہ پنڈت صاحب نے کشمیری عوام کو حق رائے دہی کا یقین دلایا ہے اور برطانوی وزیراعظم اٹیلی نے بھی اس حملے کی منسوخی کے لیے ذاتی طور پر درخواست کی ہے۔ اس وقت وزیراعظم لیاقت علی خاں سوئے تھے۔ ظفراللہ نے انھیں جگاکر یہ پیغام پہنچایا اور انھیں اٹیلی کی معروضات پر خصوصی توجہ دینے کی استدعا کی۔ وزیرخارجہ سرظفراللہ خاں جماعت احمدیہ کے سرگرم رکن تھے۔سرظفراللہ خاں باصلاحیت وزیرخارجہ تھے۔ مزید یہ کہ وہ کشمیر میں استصواب رائے کرانے کے بارے میں نہرو کے وعدہ پر پختہ یقین رکھتے تھے۔ یہی سوچ کر انھوں نے پاکستانی افواج کو پونچھ سے ہٹاکر بین الاقوامی سرحد پر بھجوانے کا حکم دے دیا۔ لیکن یہ خطرہ ٹلتے ہی بھارتی وزیراعظم نہرو فوری استصواب رائے کرانے کے وعدے سے منحرف ہوگیا اور یہ مسئلہ کشمیر غیرمعینہ عرصہ کے لیے معرض التوا میں ڈال دیا گیا۔یہ اتنا بڑا قومی المیہ تھا کہ جس کی تلافی نہیں ہوسکتی تھی۔ پونچھ میں ہندستانی افواج نے خود کو مضبوط کرلیا، جب کہ پاکستان نے ایک نادر موقع کھو دیا، جو قوموں کی زندگی میں کبھی کبھار آتا ہے۔