کالم

جشن آزادی۔ پاکستان میں سبز ہلالی پرچموں کی بہار

14 اگست یوم آزادی کے موقع پر پاکستان میں ہر طرف سبز ہلالی پرچموں کی بہار ہوتی ہے ایوان صدر سے لیکر تمام اہم سرکاری اور غیرسرکاری عمارتوں پر قومی پرچم سربلند کیا جاتا ہے کیونکہ کسی بھی ملک کا پرچم اس کا امتیازی نشان اور عظمت کی علامت ہونے کیساتھ ساتھ قومی اتحاد اور حب الوطنی کی علامت بھی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 14 اگست یوم آزادی پر تمام شہروں کی بڑی عمارتوں کو بڑے بڑے سائز کے قومی پرچموں اور رنگ برنگی روشنیوں سے سجا کر عوام حب الوطنی کا اظہار کرتے ہیں۔ ہمارا قوم پرچم قائداعظم محمد علی جناح کی ہدایت پر امیرالدین قدوانی نے ڈیزائن کیا جس کی منظوری 11 اگست 1947 کو دی گئی اس دن سے آج تک ہمارا قومی پرچم سربلند ہے اور انشااللہ رہتی دنیا تک سربلند رہے گا۔ قومی و صوبائی دارالحکومتوں میں پرچم کشائی کی پروقار تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے جہاں بچے وطن کے خوبصورت ملی نغمے جھوم جھوم کر گاتے ہیں اور خوب داد پاتے ہیں۔ پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں موجود پاکستانی سفارتخانوں میں بھی جشن آزادی کی تقریبات کا انعقاد بڑے جوش و جذبہ سے کیا جاتا ہے تقریبات میں پاکستانی کمیونٹی کے بچے, بوڑھے جوان سبھی جھنڈیاں لہرا لہرا کر اور پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعرے لگا کر وطن سے والہانہ محبت کا اظہار کرتے ہیں – پاکستانی سفارتخانوں میں یوم آزادءپاکستان کی تقریبات میں قومی ترانے کی دھن کیساتھ پرچم کشائی کا خوبصورت منظر اور سبز ہلالی پرچموں کی بہار قابل دید ہوتی ہے۔14 اگست کو پاکستان کے گلی محلے اور شہروں کو رنگ برنگی جھنڈیوں اور قمقمہوں سے سجایا جاتا ہے رات کو یہ جگمگاتی روشنیاں خوبصورت منظر پیش کرتی ہیں جنہیں دیکھنے کے لیے عوام کی بڑی تعداد موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں پر قومی پرچم لہراتے اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے دور دور سے آتے ہیں اور جشن آزادءپاکستان مناتے ہیں۔یاد رہے جس وطن عزیز کی آزادی کا جشن ہم ہر سال بڑی دھوم دھام سے مناتے ہیں اس کی بنیادوں میں اینٹیں نہیں لاکھوں مسلمانوں کی ہڈیاں اور پانی کی جگہ خون بہایا گیا۔ یہ وہ عظیم لوگ تھے جنہوں نے اپنی آنے والی نسلوں کی آزادی کی خاطر اپنے خوبصورت گھرلہلاتے کھیت, جان, مال,اولاد, کاروبار, عزتیں سب کچھ نچھاور کر دئیے۔ ان عظیم جانثاروں کی قربانیوں سے 14 اگست 1947 بروز جمعرات 27 ویں رمضان المبارک کو پاکستان آزاد ہوا۔ 3 جون 1947ءوہ تاریخی دن تھا جب انگریز وائسرائے لارڈ ماﺅنٹ بیٹن نے ہندوستان کو دو آزاد مملکتوں میں تقسیم کرنے کا تاریخی اعلان کیا۔ یہ اعلان آل انڈیا ریڈیو کے دہلی اسٹیشن سے کیا گیا۔ اس سے پہلے حکومت برطانیہ کی جانب سے لارڈ ماﺅنٹ بیٹن نے تقریر کی۔ اس کے بعد کانگریس کی جانب سے جواہر لال نہرو، آل انڈیا مسلم لیگ کی جانب سے قائداعظم محمد علی جناح اور سکھوں کے نمائندے کے طور پر سردار بلدیو سنگھ نے تقریریں کیں اوراس منصوبے کو قبول کرنے کا اعلان کیا۔ قائداعظم کی تقریر پاکستان زندہ باد کے تاریخی الفاظ پر اختتام پذیر ہوئی اور کوئی ڈھائی ماہ بعد پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک آزاد و خودمختار اور سب سے بڑی مسلم مملکت کے طور پر معرض وجود میں آیا۔ مورخین لکھتے ہیں کہ اس اعلان سے کہیں آزادی کی خوشی منائی گئی اور کہیں ہندوستان کی تقسیم پر غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔ لیکن آنے والے دنوں میں یہ خوشی اور غصہ نفرت اور وحشت کی آگ میں تبدیل ہوتا گیا جس نے دونوں ملکوں کے قیام کے وقت ہونے والے فسادات میں لاکھوں انسانوں کو نگل لیا۔ہندو یہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ پاکستان آزاد ہو گا۔ پاکستان کی علیحدگی کا اعلان ہندووں پر ایٹم بم سے کم نہ تھا لہذا بدمست ہاتھی کی طرح مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ ہندووں اور سکھوں نے مسلمانوں پر مظالم کے وہ پہاڑ توڑے کہ انسانیت رہتی دنیا تک اِس پر ماتم کناں رہے گی۔ چن چن کر مسلمانوں کو شہید کرنا شروع کر دیا گیا۔ مسلمان اکثریتی علاقوں میں بھی کشت و خون ہوا مگر زیادہ نہیں البتہ جہاں مسلمانوں کی آبادی کم تھی وہاں اسلام اور پاکستان کے نام لیواوں کے لاشے سنبھالنے والا کوئی نہ تھا – 10لاکھ سے زائد مسلمان مردوں،عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو شہید کیا گیا، لاکھوں زخمی اور معذور ہوگئے۔ کم و بیش ڈیڑھ لاکھ کے قریب جوان مسلمان لڑکیاں اور عورتیں اغوا کرلی گئیں جنہیں بعد میں لونڈیاں بنا کر گھروں میں رکھ لیا گیا۔ چادر اور چاردیواری ہونے کے باوجود عزتیں محفوظ نہ رہیں سینکڑوں پاکدامنوں نے اپنی عزتیں بچانے کے لیے کنووں اور نہروں میں چھلانگیں لگا دیں۔ پڑوسی تعلق دار ہندووں اور سکھوں نے مسلمانوں کے گھربار لوٹ لیے ان کی جائیدادوں پر قبضے کر لیے, کئی گھروں کو آگ لگا دی گئی آسمان کو چھونے والے آگ کے شعلوں کے ساتھ ساتھ جلتے ہوئے بچوں بوڑھوں اور جوانوں کی چیخ و پکار ساتویں آسمان تک جا رہی تھی مگر نہ جانے کیوں” نہ آسمان گرا اور نہ زمین پھٹی”,افراتفری کے عالم میں سینکڑوں بچے والدین سے بچھڑ گئے اسطرح زندگی بھر نہ بچوں کو والدین ملے اور نہ والدین کو بچے مل سکے, ان پھول کلیوں کا غم سینے میں لے ماں باپ دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ہر طرف خوف و ہراس کا عالم تھا۔ گھر گھر صف ماتم بچھ گئی۔ حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں نے اپنے گھر بار اور مال واسباب سب کچھ چھوڑ کر خالی ہاتھ اپنی جانیں بچانے کیلئے پاکستان کی طرف ہجرت کرنا چاہی تو ہندوﺅں اور سکھوں نے انہیں دوران ہجرت کرپانوں، برچھیوں سے خون میں نہلا دیا۔ ایسی بھیانک صورتحال میں پاکستان کی طرف ہجرت کا سفر آسان نہیں بہت کٹھن تھا رات کی تاریکی میں قافلے ریلوے اسٹیشن کےلئے نکلتے کوئی خوش قسمت قافلہ بخیروعافیت ریلوے اسٹیشن پہنچ جاتا اور کوئی ہندو بلوائیوں کے ہتھے چڑھ جاتا جن پر یہ بلوائی وحشیوں کی طرح ٹوٹ پڑتے انہیں نہ معصوم بچوں پر ترس آتا اور نہ بوڑھوں کا خیال سب کو خون میں نہلا دیتے جو زندہ بچ جاتے خون آلود جسم کیساتھ لڑکھڑاتے قدموں دوبارہ چل پڑتے اور جو اللہ کو پیارے ہو جاتے انہیں وہیں بے گوروکفن چھوڑ دیتے۔ آزادی کی قدر ان سے کوئی پوچھے, آزادی کی قیمت کوئی ان سے پوچھے۔ میں اور آپ آزادی کی قدروقیمت کیا جانیں ہمیں تو آزادی پلیٹ میں ملی ہے۔ مختصر یہ کہ لٹے پٹے قافلے خون کے دریا پار کر کے لاہور پہنچے جہاں سہمے ہوئے چہرے خوشی سے کھل اٹھے۔ لاہور پہنچ کر بھی کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا چونکہ مہاجرین کی تعداد لاکھوں میں تھی اس لیے نومولود ملک کےلئے اتنے وسیع پیمانے پر انتظامات کرنا آسان نہ تھے پاکستانی بھائیوں نے اپنے مہاجرین بھائیوں کی دل کھول کر مدد کی۔ کہتے ہیں سکون کی نیند کانٹوں کی سیج پر بھی آ جاتی ہے لہٰذا یہاں کی مشکلات کے باوجود مہاجرین کو سکھ کی نیند نصیب ہوئی۔ خزاں کے بعد بہار اور دکھ کے بعد سکھ ملتا ہے اللہ تعالی کے فضل و کرم سے دکھ کے بعد سکھ کا آغاز ہوا تمام مہاجرین اپنے اپنے گھروں میں آباد ہو گئے ان کی زندگیاں پھر سے رواں دواں ہو گئیں مگر قیامت خیز خونی منظر وہ زندگی بھر بھلا نہ پائے۔ کیا ہم ان لاکھوں شہیدوں اور غازیوں کو یاد کیے بغیر ان کی قربانیوں کا ذکر کیے بغیر ان کو خراج عقیدت و تحسین پیش کیے بغیر جشن آزادی مناتے ہوئے اچھے لگتے ہیں۔ ہرگز نہیں, ہونا تو یہ چاہیے جشن آزادی کے موقع پر وطن عزیز کے حصول کےلئے جنہوں نے تن من دھن قربان کیا ان کی داستان غم کی ویڈیوز گلی گلی محلے محلے شہر شہر دکھائی جائیں, تصویری نمائش کا اہتمام کیا جائے اور تمام الیکٹرانک میڈیا پر دن رات ان کی قربانیوں سے نئی نسل کو روشناس کرایا جائے تاکہ موجودہ نسل کو معلوم ہو سکے کہ یہ پیارا وطن پاکستان پلیٹ میں نہیں ملا بلکہ لاکھوں لوگوں کی قربانیوں کا ثمر ہے۔ جو قومیں اپنے محسنوں کو بھول جاتیں ہیں انہیں نہ ملک کی قدر ہوتی ہے نہ قوم کا احساس پھر وہ وہی کچھ کرتے ہیں جو آجکل ہم لوگ اپنے وطن کے ساتھ کر رہے ہیں۔ ”1947ءکے مظالم کی کہانی خود مظلوموں کی زبانی“میں حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی ایک مظلوم عورت کے ساتھ ہونے والا واقعہ رقم کرتے ہیں کہ ”قیام پاکستان کے اعلان کے فورًا بعد شمالی ہندوستان کے طول و عرض میں ہندومسلم فساد پھوٹ پڑے۔ انسانی اور اخلاقی قدریں محض قصہ ماضی بن کر رہ گئیں۔ سالہا سال سے اکٹھے رہنے والے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے۔ ان حالات میں میرے والد نے گاﺅں کے دوسرے لوگوں سے مشورے کے بعد پاکستان کی طرف ہجرت کا فیصلہ کیا، لیکن ہندوﺅں اور سکھوں کو یہ بات بھی گوارا نہ تھی اور عین ہماری روانگی کے وقت آس پاس کے گاﺅں سے مسلح جتھے وہاں پہنچ گئے اور چشم زدن میں تمام مردوں کو تہِ تیغ کردیا۔ نوجوان لڑکیوں کو ان کی ماﺅں کے سامنے اجتماعی ہوس کا نشانہ بنایاگیا۔ آج بھی جب میں ان دلخراش منظر کوچشم تصور سے دیکھتی ہوں تو یقین نہیں آتا کہ ابن آدم ذلت کی ان گہرائیوں تک بھی جاسکتا ہے۔ میرا معصوم بھائی باقی بچوں کی طرح ڈرا سا کھڑا تھا۔ جب اس نے چند حیوانوں کو میری طرف بڑھتے دیکھا جن پر میری منت سماجت کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا تو بھاگ کر میرے سامنے آگیا اور مجھے اپنی پناہ میں لے لیا۔ تبھی ایک ہندو نے اپنی کلہاڑی کا زوردار وار اس معصوم کی گردن پر کیا جس سے اس کا سر تن سے جدا ہو کر دور جا پڑا۔ اس پر اس ظالم نے شیطانی ہنسی ہنستے ہوئے کہا اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تمہاری گردن اتنی کمزور ہے تو اپنی کلہاڑی تمہارے گندے خون سے بھرشٹ (ناپاک) نہ کرتا۔ اب مجھے اپنی کلہاڑی گنگاجل سے دھو کر پوتر (پاک) کرنی پڑے گی“ یہ کہہ کر وہ بھی شیطانی کھیل میں شامل ہوگیا۔ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود زمین پھٹی نہ آسمان ٹوٹ کر گرا۔ تمام بوڑھی عورتوں کو قتل کرنے کے بعد سب لڑکیوں کو وہ ایک حویلی میں لے گئے اور سب قطار بناکر کھڑے ہوگئے اور باری باری اپنے ”اشرف المخلوقات“ ہونے کا ثبوت فراہم کرتے گئے۔اس عمل میں، میں زندہ بچ جانے والی چند خوش نصیب یا بدنصیبوں میں بھی شامل تھی۔ اس کے بعد میں ایک کے ہاتھوں سے دوسرے تک پہنچتی رہی۔ آخر سوہن سنگھ نے مجھے اپنے گھر ڈال لیا اور شادی بھی کرلی۔ سات سال بعد سوہن سنگھ سورگباش ہوگیا تو اس کے چھوٹے بھائی مہندر نے مجھ سے شادی کرلی۔ایک واقعہ اُس وقت ایک مشہور جریدے میں شائع ہوا ”ہوشیار پور کی وہ رات بے حد طویل تھی جس رات چوک سراجاں پر حملے میں پچاس مسلمان نوجوان شہید ہوئے۔ دوسرے روز ساٹھ، ایسے میں مسلمان بھی بھرپور جوابی کاروائی کے لیے میدان میں آ گئے۔ عصر کے وقت سے دست بدست لڑائی ہورہی تھی۔ ایک مسلمان نوجوان گرا، خون کے فوارے نکل رہے تھے۔ اس نوجوان کا گھر لڑائی کے میدا ن کے بالکل سامنے تھا۔ گھر کا ایک چھوٹا بچہ یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ خواتین کو ہوش نہ رہا اور بچہ ابا ابا کہتے ہوئے دروازے سے نکل کر ہندوو?ں اور سکھوں کی طرف بھاگا۔ سکھوں نے بچے کو پکڑ لیا اور چلاّ چلّا کر اعلان کیا، دیکھو ہم آج مُسلے کے بچے کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔ مسلمان دم بخود تھے کہ یہ بچہ وہاں کیسے پہنچ گیا۔ سکھوں نے بچے کو اوپر اُچھالا اور نیچے سے نیزے پر اسے لے لیا۔ بچے کی چیخ اس قدر دلدوز تھی کہ آسمان تک لرز اٹھا۔ اُ س نے تڑپ تڑپ کر وہیں جان دے دی۔ آخر میں اتنا کہوں گا جشن آزادی پاکستان ضرور منائیں دھوم دھام سے منائیں, رنگ برنگی جھنڈیوں اور قمقموں سے شہروں اور گھروں کو بھی سجائیں مگر ان لاکھوں شہیدوں کے ایصال ثواب کےلئے قرآنی خوانی بھی کریں انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کےلئے ان کے گیت اور نغمے گائیں ان کے نام کی شمعیں جلائیں کیونکہ یہ وطن اور آزادی انہی کی قربانیوں کا ثمر ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے