کالم

جمہوریت کا نقصان

”بلا“ اور بلے باز کی تاریخ تو بڑی پرانی ہے اس نے کرکٹ کے میدانوں میں ملکوں ملکوں پاکستان کی فتح کے جھنڈے گاڑے ہیں گلیمر اور شہرت کی بلندیوں کو چھوا درمیان میں جب کرکٹ چھوڑ کر ریٹائرمنٹ لے لی تو ایوان صدر میں سابق فوجی حکمران ضیاالحق نے اس کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد کی اور اس سے خود یہ اپیل کی کہ وہ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ واپس لے اور ملک وقوم کے لئے کرکٹ کھیلتا رہے وہ میدان میں یہ اعادہ کرکے دوبارہ نئے جذبے کے ساتھ اترا اس کا اب ہدف بڑے مقابلے میں بڑی جیت تھی مصمم ارادے کے ساتھ اپنے ملک کو 92 ورلڈ کپ کا پہلی بار انگلینڈ کو شکست دے کر فاتح بنایا ۔قوم میں خوشی کی لہر دوڑ گئی پاکستان کی دنیا میں بلے بلے ہو گئی، وہ پاکستان کی پہچان بن گیا پھر اس نے پہلا انڈیپنڈیٹ ورلڈ کلاس شوکت خانم کینسر ہسپتال تعمیر کیا ،جہاں آج بغیر سفارش اور رشوت کے میرٹ پر 70 فیصد غریبوں کا مفت علاج ہوتا ہے۔ عالمی معیار کی عالمی معیار کی نمل یونیورسٹی قائم کی جس کو برطانیہ کی بریڈفورڈ یونیورسٹی سے منسلک کروایا، یاد رہے کہ اس کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا ہے کہ وہ بریڈفورڈ یونیورسٹی کا چانسلر بن گیا یونیورسٹی کی جانب سے جب تنخواہ کی آفر کی گئی تو اس نے تنخواہ لینے کے عوض نمل یونیوسٹی کیساتھ بریڈفورڈ یونیورسٹی کو انٹرلنک کرنے کا معاہدہ کرلیا اور یونیورسٹی انتظامیہ کے سامنے موقف اختیار کیا کہ اس کے ملک کے نوجوان بہت غریب پس منظر رکھتے ہیں، برطانیہ جاکر تعلیم حاصل کرنے کے اخراجات افورڈ نہیں کرسکتے انہیں بھی بریڈفورڈ کے سٹینڈرڈ کی معیاری تعلیم اور ڈگری پاکستان میں ہی ممکن ہو جائے اور پھر ایسا ہی ہوا اور ابھی تک ہورہا ہے اس نے متوسط طبقے کے لوگوں جس میں زیادہ تر نوجوانوں اور خواتین کی اکثریت ہے ان کے لئے ایک ملک گیر نئی سیاسی پارٹی کی بنیاد رکھی جو پاکستان کی وحدت اور وفاق کی علامت کی حامل بڑی جماعت بن گئی جسکا نام ہی رول آف لا یعنی انصاف کی عملداری ہے پھر اللہ کے اذن سے وہ ملک کا وزیراعظم بھی 22 سال کی محنت سے بن گیا ملک کے غریبوں کو ہیلتھ کارڈز جاری کیا سڑکوں پر سونے والوں کے لئے پناہ گاہیں بنائیں احساس پروگرام شروع کیا اپنی زبان اپنا کلچر مذہب اور نظریہ پاکستان کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا اپنے ملک کی داخلہ اور خارجہ پالیسی کو وضع کیا کشمیر اور فلسطین کے معاملے پر ایک دوٹوک موقف اپنایا اور اپنے فیصلے خود کرنے اور بیرونی ڈکٹیشن نہ لینے کا اعلان کیا اور اقوام متحدہ میں جاکر دنیا کے سارے خداں کو اللہ تعالیٰ وحدہ ولا شریک کی حاکمیت و واحدیت پر ایمان کامل یقین اور مقدم رکھنے کا عزم دوہرایا۔ پاکستان اسلام اور مسلمانوں کی بھرپور ترجمانی کی اور نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناموس کے بارے میں بتایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے دل کے کتنے قریب ہیں ،یہ بلے باز جب پاکستانی قوم کے دلوں میں خوب رچ بس گیا تو اس کی حکومت اپنوں اور غیروں کی سازشوں کا شکار ہوگئی وہ غیر روایتی سیاست دان اور حکمران تھا جسے منافقت دھوکہ دہی نہیں آتی تھی وہ قوم کے پاس اپنا مقدمہ لے کر گیا قوم نے لبیک کہا۔ اس کا ایک ہی مطالبہ تھا صاف اور شفاف الیکشن کروائیں یہ آئینی اور قانونی جائز مطالبہ تھا وہ بری طرح Hurt ہوا تھا اس کے فیصلوں طرز سیاست ردعمل اور انداز پر اعتراض اور اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن ڈیمانڈ ساری آئینی اور قانونی تھیں ،اس کو یہ الیکشن کا حق نہیں دیا گیا اس کی جائز ڈیمانڈ پوری نہ کرکے ماورائے آئین ملک چلایا گیا الیکشن کے میدان میں بھی اس کا مقابلہ نہیں ہوسکتا تھا ،ضمنی انتخابات سارے جیت گیا، اس پر گولیاں برسائی گئیں جان سے مارنے کی کوشش کی گئی پھر بھی عوام میں اسکی مقبولیت میں اضافہ ہوتا رہا اسی دوران بدقسمتی 9 مئی کا سانحہ ہوگیا اس کو گرفتار کرلیا گیا پوری پارٹی میں توڑ پھوڑ کردی گئی ۔ساری لیڈرشپ مقدمات بھگت رہی ہے کچھ چھوڑ چکے ہیں کچھ جیلوں اور روپوش ہیں۔اب انٹر پارٹی الیکشن کی آڑ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالت لگائی جنابِ عیسی کے انصاف کے چرچے سن رکھے تھے لیکن اس دفعہ انکے انصاف نے انتخابی نشان پر کلہاڑا ہی چلا دیا، اس عدالت نے بلے باز کا تو کچھ نہیں بگاڑا لیکن یہ فیصلہ ہمارے پورے نظام اور خاص طور پر ملک کے نظام انصاف پرسوالیہ نشان کھڑا کر دیا۔ ہماری تاریخ میں جنرل ضیاالحق جنرل پرویز مشرف جنرل کیانی جنرل باجوہ وغیرہ نے تو ایسے ہی فیصلے کروائے ہیں اسی لیے جمہوریت جڑیں نہ پکڑ سکی ملک میں سیاسی استحکام نہ آسکا نااہل کو اہل اور اہل کو نااہل قرار دلوایا جاتا رہا ہے۔ مانا کہ عمران خان کے دور میں چیف جسٹس کےخلاف ریفرنس آیا تھا لیکن اتنے بڑے منصب پر بیٹھ کر پورے انصاف کے نظام کو زمین بوس کر دینا، جمہوریت اور انصاف کا کھلا ظلم ہے ۔ججوں کے تو فیصلے بولتے ہیں جج صرف مقدمہ سنتے ہیں۔ظلم جبر گرفتاریوں پکڑ دھکڑ کے موجودہ دور میں جب پارٹی ہی زمین بوس ہے کسی جگہ لوگ اکٹھے نہیں ہوسکتے پارٹی کے الیکشن کا ویننیو جگہ ہال اور اشتہار شائع کرنا کیسے ممکن تھا۔ آپ بلاول بھٹو کی چیئرمین شپ کو بھی دیکھ لیں مارک سیگل کے بریف کیس سے کیسے برآمد ہوئی تھی شریفوں کے بڑے بھائی کی صدارت چھوٹے بھائی کو چلی گئی ،بیٹی سینئر نائب صدر بن گئی،2024کے الیکشن جو پہلے سے ہی متنازعہ نظر آرہے تھے،اب پہلے سے زیادہ متنازعہ بن گئے ہیں، یہ وقت گزر جائے گا کلاک ٹک ٹک کررہی ہے اس میں بلے باز یا اس کی ٹیم کا نقصان تو ہے ہی لیکن ملک اور قوم اور جمہوریت کا بڑا نقصان ہوا ہے ایسے الیکشنوں کی کیا ساکھ رہ گئی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے