کالم

جنریٹر نہیں ایٹمی بجلی گھر

رحمت عالم ، شافع محشر ، شاہ امم آنحضرت محمد رسول اللہﷺ کی ایک حدیث کا مفہوم بار بار میرے دل پہ دستک دے رہا ہے کہ مسلمان گنہگار تو ہو سکتا ہے لیکن جھوٹا نہیں ہو سکتا۔مگر افسوس ہم اپنے گریبانوں میں جھانکیں تو سار امعاملہ ہی برعکس نظر آتا ہے۔ تین بار وزیر اعظم اور بار بار وزیر اعلیٰ رہنے والے ان شریفوں نے ایک بار نہیں کئی ایک بار ملک و قوم سے جھوٹ بولے ، دھوم دھڑلے سے بولے ۔ انھوں نے ہمیشہ ووٹر اور ووٹ کی بجائے نوٹ کو ہی عزت دی مگر بیانیہ یہ بنایا کہ ووٹ کو عزت دو۔ میاں مفرور یو کے میں اپنے گھر ایون فیلڈ سے باہر آتے ہوئے بھی گھبراتے اور کتراتے ہیں ، جب چھپ چھپ کر باہر نکلتے ہیں تو لوگ ان پہ اور ان کی اولادوں پہ بھی آوازیں کستے ہیں ، چور چور کہتے ہیں اور گالیاں بکتے ہیں مگر شرم ان کو پھر بھی نہیں آتی، بس جھوٹ ہی ان کی صبح ہے اور جھوٹ ہی ان کی شام۔ کوئی خوف خدا نہیں کہ کل کو مرنا ہے ،قبر میں جانا ہے ، سوالوں کا جواب دینا ہے ، میدان حشر میں اللہ کو حساب دینا ہے اور وہاں کوئی قطری خط کام آئے گا نہ سعودی شہزادے بچائیں گے اور نہ ہی اللہ کی اُس سب سے بڑی عدالت سے آپ کسی سورس وسیلے سے بھی برطانیہ بھاگ پائیں گے ۔ کسی کورٹ کا فیصلہ ، کوئی سازش ، آےین سازی و ترمیم یا کسی بھی قسم کا کوئی بھی سمجھوتہ سابق وزیر اعظم اور قائد مسلم لیگ ن میاں محمد نواز شریف کو عوام کی عدالت میں کسی اقامہ اور پانامہ سے سرخرو اور بری نہیں کر سکتا ،سوائے منی ٹریل کے ۔ ٹی وی پہ یہ شریف کیا کچھ کہتے رہے ، پارلیمان میں جا کر ایک نئے جھوٹ کا پل باندھ ڈالا اور پھر جب وقت آیا خود کو حقیقی معنوں میںسچا ثابت کرنے کا تو یہ اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ یعنی قطری خط عدالت لے آئے۔
خلیل الرحمن قمر کہتے ہیں کہ :
قاضی نے روزحشر سے ڈرنا تو ہے نہیں
کیونکہ نواز شریف نے مرنا تو ہے نہیں
تالے ان عدالتوں کو لگا دیجئے حضور
اب عدل کو یہاں سے گزرنا تو ہے نہیں
جس میں قدم قدم پہ ہو سودا ضمیر کا
اس دیس کا نصیب سنورنا تو ہے نہیں
برادرم و محترم قمر جی نے عدل و عدالتوں کا ذکر فرمایا ہے تو مجھے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو بہت ہی یاد آ رہے ہیں جن کے حوالے سے میں نے کہا تھا کہ :
سولی چڑھ کر شیر بھٹو حق بیان بول گیا
فکر وہ اپنی آفاقی سچ ترازو پہ تول گیا
حافظہ رخسانہ بشیر پیپلز پارٹی کی ایک اہم اور متحرک جیالی ہیں جو راولپنڈی بھٹو دی جھگی سے مجھے اپنی سیاسی سرگرمیاں ، بھٹو اور بی بی کی تصاویر وتقاریر بھیجتی رہتی ہیں ، گزشتہ دنوں رخسانہ بنت بشیر نے بھٹو کا ایک تاریخی واقعہ شیر کیا کہ بھٹو جب فرانس کے دورے پر گئے تو وہاں انھوں نے ایک جنریٹر کو بغور دیکھا اور اس کی کارکردگی اور انجن کے بارے میں سوالات پوچھے ، ان دنوں جنریٹر عام نہیں ہوا کرتے تھے ، بھٹو کی اس توجہ اور دلچسپی کو دیکھتے ہوئے فرانسیسی صدر اسکارڈ اسٹینگ نے کہا کہ جناب PMایسا ہی ایک جدید جنریٹر آپ کے ساتھ پاکستان جائے گا جو میری طرف سے آپ کی فیملی کے لیے ایک تحفہ ہو گا ، بھٹو نے شکریہ کہہ کر کہا کہ جناب میں ایک غریب ملک کا وزیر اعظم ہوں ، میرے ملک میں بجلی کی کمی کی وجہ سے انڈسٹری نہ ہونے کے برابر ہے ، روشنی نہیں اس لیے کی مریضوں کے بر وقت آپریشن نہیں ہو سکتے تو وہ مر جاتے ہیں ، ٹیوب ویل نہ ہونے کی وجہ سے فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں ، ان حالات میں میرے گھر میں اگر اس تحفے سے روشنی ہو گی تو یہ میرے عوام کے ساتھ سخت زیادتی ہو گی ، صدر اسٹینگ نے کہا تو پھر میں آپ کے ملک کی کیا خدمت کر سکتا ہوں ، بھٹو بولے جناب آپ میرے ملک میں ایک ایٹمی ریکٹر لگا دیجیے جس سے میرے ملک میں بجلی کی کمی نہ رہے اور چہارسو اجالے ہو جائیں ، اسٹینگ بولا جناب وزیر اعظم ٹھیک ہے یہ ایٹمی ریکٹر فرانسیسی عوام کی طرف سے پاکستانی عوام کی زندگی میں روشنی لانے کا استعارہ ہو گا ۔ دوسری صبح جو کام سب سے پہلے ہوا وہ اس منصوبے کے معاہدے پر دستخط تھے ۔ الغرض یہ ایٹمی بجلی گھر بھٹو نے ایک ذاتی جنریٹر کے تحفے کے بدلے میں لیا تھا جو کراچی میں قائم ہوا ۔ لوگ ایویں ہی تو نہیں کہتے کہ جئے بھٹو جئے عوام ۔ اس ضمن میں میرا اپنا ہی ایک اور شعر ہے کہ :
آج بھی سارے عالم میں ڈنکے تیرے ہی بجتے ہیں
فخرایشیا،قائد عوام القاب تجھی کو سجتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے