ایک بار پھر فلسطین جنگ آزادی میں مصروف ہے۔یہ جنگ اسرائیل کی سرحد غزہ میں ہو رہی ہے، فلسطینی تنظیم حماس کی قیادت میں لڑی جانے والی اس جنگ آزادی نے اسرائیل کو بھی حیرت زدہ کر دیا ہے۔اقوام متحدہ کے سائے تلے دنیا بھر کے یہودی اکٹھا ہو کر فلسطینیوں کو ان کے وطن سے بے دخل کر وہاں صیہونی ریاست قائم کر رہے تھے۔ بے چارے فلسطینی اپنا گھر بار چھوڑ کر اردن، مصر، شام اور لبنان جیسے پڑوسی عرب ممالک میں پناہ گزیں خیموں میں پناہ لے رہے تھے۔ تب سے اب تک تقریباً 75 برس گزر گئے لیکن فلسطینیوں کی جنگ آزادی جاری ہے۔ افسوس یہ کہ وہ جب جب آزادی کی جنگ لڑتے ہیں، اسرائیل تب تب ان کی بچی کھچی زمین پر قبضہ کر لیتا ہے، جبکہ فلسطینیوں کو موت کا جام پی کر آزادی تو درکنار غلامی کے اندھیروں میں پھر زندگی بسر کرنی پڑتی ہے۔ لیکن آزادی کے متوالے فلسطینی پھر بھی ہر قسم کی قربانی دے کر ایک بار پھر اپنی آزادی کی جنگ چھیڑ دیتے ہیں اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔قلم کاروان،اسلام آبادکی ادبی نشست میں مسئلہ اسرائیل کے حوالے سے "فلسطین پریہودی قبضے کے اسباب و اثرات”کے موضوع پرڈاکٹریاسر حسین ستی الخیری نے اپنے مقالے کا آغاز بنی اسرائیل کے انبیاءاور بیت المقدس کی تاریخ سے کیا۔ حضرت عمرفاروق ؓ کے دست مبارک پر شہرکی چابیوں کے حصول کاتذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا مسیحی قبضے کے دوران صدیوں سے یہودیوں کا داخلہ یہاں بندتھا،فتح اسلام کے بعدبنی اسرائیل یہاں بعدازمدت دراز داخل ہوئے ۔سلطنت عثمانیہ کے دورزوال میں یہودی سازشوں کاتفصیل سے بتاتے ہوئے بیسویں صدی کے آغازسے قیام اسرائیل تک پوری تاریخ بیان کی۔اپنے مقالے کے آخرمیں انہوں نے اسرائیل کی موجودہ دہشت گردی پر بھی تفصیلی روشنی ڈالی جس میں ہزاروں معصوم بچے،خواتین اور بہت بڑی شہری آبادی لقمہ اجل بنی اور ابھی یہ قتل عام جاری ہے۔ غزہ کے مجاہدین حماس بدترین حالات میں بھی اپنے موقف پراستقامت سے ڈٹے ہیں۔ پاکستان کے ایٹمی دھماکے پر سب سے زیادہ خوشیوں کااظہار فلسطینی مسلمانوں نے کیا تھا تواب ان کاقرض چکانے کاوقت آن پہنچاہے اور پاکستان انہیں تنہانہیں چھوڑ سکتا۔ قیام فلسطین میں ہندوستانی بھی برابرکے ذمہ دار ہیں ،انہوں نے پہلی جنگ عظیم کے دوران ہندوستانی فوجیوں کے اس کردارکاتذکرہ کیاجو برطانوی فوج کاحصہ بن کر سلطنت عثمانیہ کے سقوط میں اداکیاگیا۔ جب ظلم حدسے بڑھ جاتاہے تو خدائی فیصلے نافذہونے لگتے ہیں۔ دنیا اسرائیل کی اس قتل وغارت گری کوسیاسی رنگ دیتی ہے حالانکہ یہ مذہبی جنگ ہے۔ اہل مغرب کے اسلحہ ساز کارخانوں کو دنیاکاامن برداشت نہیں ہے۔وہ اپنے امن کی قیمت پرایشیاء میں آگ لگائے رکھتے ہیں ۔ اسلام ، یہودیت اور مسیحیت جس دن آسمانی ہدایت کی اصل پر متفق ہوگئے وہ دن کرہ ارض کے لیے یوم آشتی ہوگا۔ چاروں طرف یہی سوال پوچھا جا رہا ہے کہ آخر اس جنگ کا حشر کیا ہوگا! اس کا جواب وہی ہے جو اس سے پہلے ہونے والی فلسطینی اور اسرائیلی جنگوں کا حشر ہوا۔ یعنی فلسطینی موت کے گھاٹ اتارے جائیں گے، غزہ پٹی کی تمام فلسطینی آبادی آب و دانہ کےلئے ترس جائے گی، غزہ پٹی کی نہ جانے کتنی عمارتیں زمیں دوز ہو جائیں گی۔ امریکہ کی قیادت میں اقوام متحدہ حماس کو لعنت ملامت بھرا ایک اور ریزولیشن پاس کر دے گی۔ عرب اور دیگر مسلم ممالک فلسطینیوں کے حق میں فضول زبان خوری کرتے رہے ہیں۔ جنگ بند ہونے کے کچھ عرصے بعد حماس کےلئے ہمدردی کی زباں خرچی بھی بند ہو جائے گی اور وہی سب کچھ ہوگا جو فلسطینیوں کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔اسی اقوام متحدہ بارے قائد اعظمؒ نے فرمایا تھا کہ میں عرب قائدین کو ایک انتباہ کرسکتا ہوں کہ اگر وہ مجوزہ گول میز کانفرنس میں شرکت کا فیصلہ کر لیں تو وہ اپنی پسند کے نمائندے بھیجیں جو عربوں کے اعتماد اور احترام کے حامل ہوں اور یہ دیکھیں کہ کانفرنس اس کہانی کا روپ نہ دھار لے جس میں ایک بندر لڑاکا بلیوں کے درمیان انصاف کرتا ہے-“ (قائد اعظم دستاویزات) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوتریس کا فلسطینیوں کی حمایت میں بیان اسرائیل کو ایک آنکھ نہ بھایا ۔ اسرائیلی وزیرخارجہ ایلی کوہن نے انتونیو گوتیریس سے ملاقات سے انکار کردیا ہے جبکہ اقوام متحدہ میں اسرائیلی مندوب نے انتونیوگوتیریس سے مستعفی ہونے کا بھی مطالبہ کیا۔اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے مشرق وسطیٰ پر ہونے والے سہ ماہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا کہ حماس کے حملے خلا میں نہیں ہوئے، فلسطینیوں کو 56 سال حبس زدہ قبضے کا شکار بنایا گیا ہے۔ غزہ میں بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزیوں پر گہری تشویش ہے، ایسے نازک لمحات میں اصولوں کا واضح ہونا ضروری ہے۔ حماس حملوں کو فلسطینیوں کو اجتماعی سزا دینے کا جواز نہیں بنایا جاسکتا،غزہ میں بھیجی جانے والی امداد ضروریات کے سمندر میں ایک قطرے کے برابر ہے، امداد پابندیوں کے بغیر بھیجی جانی چاہیے۔ شہریوں کی حفاظت اور احترام کے بنیادی اصولوں سے اس کا آغاز کیاجائے۔ گزشتہ 24 گھنٹوں میں اسرائیلی حملوں میں 182 بچوں سمیت مزید 704 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جس کے بعد 7 اکتوبر سے اب تک شہید فلسطینیوں کی تعداد 5 ہزار 800 سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔زخمیوں کی تعداد 15 ہزار سے زائد ہوچکی ہے جنہیں ہسپتالوں میں دواو¿ں اور ایندھن کی قلت کے باعث مزید مشکلات کا سامنا ہے۔