کالم

جینے کا حق

پنجاب حکومت نے غریب عوام پر احسان فرماتے ہوئے قبرستان میں دفن ہوتے وقت کی فیس معاف کردی ہے تو دوسری طرف حکمرانوں نے مہنگائی کو آسمان تک پہنچاکر لوگوں سے جینے کا حق چھین لیا ہے بجلی کے نرخوں میں اضافے کے بعد حکومت نے آئی ایم ایف کے احکامات پر گیس کی قیمتوں میں زبردست اضافہ کرنے کے ساتھ ہی پٹرول کی قیمتوں میں بھی بے تحاشا اضافہ کردیا اوپر سے ’منی بجٹ‘ کے ذریعے 300 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کا عمل بھی جاری ہے ایسا لگتا ہے کہ مخلوط حکومت کی بے سمت پالیسیوں نے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے اور اس وقت ملک کی موجودہ معاشی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے مہنگائی بڑھ رہی ہے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر ملکی تاریخ کی کم ترین سطح پر ہیں پٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں اوران میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے صنعتیں اور کارخانے پہلے ہی بندش کا شکار ہیں کاروباری شعبہ تباہ ہو چکا ہے پاکستان میں کبھی بھی مہنگائی14 فیصد سے زیادہ نہیں ہوئی لیکن موجودہ حکومت نے مہنگائی کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے ہیں گندم کی کم پیداوار کی وجہ سے ہمیں اگلے سال5ملین ٹن گندم درآمد کرنا پڑے گی اور اسے منگوانے کےلئے حکومت کے پاس پیسے بھی نہیں ہیں دنیا کاکوئی ملک اورمالیاتی ادارہ حکومت پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں پچھلے ایک سال میں پیاز 506 فیصد مہنگا ہوا ہے بجلی جو پہلے ہی عوام کی پہنچ سے دور ہے اب مزید 70 سے 80 فیصد مہنگی ہونے جارہی ہے اور ملک میں80فیصد مہنگائی بجلی اور خوراک سے متعلق ہے آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد کے بعد آنے والے دنوں میں مہنگائی مزید بڑھے گی حالانکہ دنیا میں آئل اور دالوں کی قیمت کم ہوئی اور پاکستان میں انکی قیمت بڑھتی جارہی ہے ہے لوگوں کی خوراک خریدنے کی استعداد ختم ہوتی جارہی ہے لائیو سٹاک اور فیڈ کی پروڈکشن 30فیصد ہو رہی سویا بین کے 200 بلین کے جہاز پورٹ پر رکے ہوئے ہیں یوریاکھاد ہر ہفتے مہنگی ہو رہی ہے آئی ایم ایف پیکج پر عملدرآمد سے زراعت ، ٹیکسٹائل اوربرآمدات کی سبسڈی بند ہو نے جارہی ہے ٹیکسز ، ڈالرز کی اڑان ،آئی ایم ایف کے پیکج اور سپلائی چین متاثر ہونے سے مزید مہنگائی آئے گی 3 کروڑ لوگ مزید بیروزگار ہوں گے اور 2کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے عام آدمی کاذرائع آمدن دن بدن سکڑتا جارہاہے آج بیروز گاری کی شرح 10فیصد تک جا پہنچی ہے ملک بحرانوں کے دلدل میں ڈوب رہا ہے حکمران طبقہ، بگڑا اشرافیہ اپنے مفادات کا اسیر بنا ہوا ہے آئی ایم ایف نے 170ارب کے مزید ٹیکس لگانے کا حکم دیااور حکمرانوںنے تابعداری دکھاتے ہوئے پوری بھی کر دی اور آج صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ عوام کےلئے سانس لینا مشکل ہو گیا آئی ایم ایف سے معاہدہ کوئی پہلا معاہدہ نہیں پہلے بھی 23معاہدے ہوچکے ہیں مگر اس بار تجارت ، زراعت ، صنعت اور کاروباری سرکل جام ہوگیا ہے مہنگائی ، افراطِ زر اور بیروزگاری انارکی کی صورتِ حال کی طرف بڑھ رہی ہے ایسی مہنگائی ہے کہ سفید پوش اور غریب طبقات کےلئے ایک وقت کے کھانے کا بندوبست کرنا بھی ناممکن ہے لوگ اپنے بیمار والدین کا علاج نہیں کرا سکتے یوٹیلیٹی بلز ادا نہیں کر سکتے گاڑی تو کیا موٹرسائیکل چلانا بھی آسان نہیں رہا پٹرول سونے کے بھاﺅ بک رہا ہے پیپلزپارٹی نے پی ٹی آئی کے دور میں کراچی سے راولپنڈی تک مہنگائی مارچ کیا مسلم لیگ (ن)والے روز چیختے تھے لیکن اب یہ سب خاموش ہیں یہ لوگ کرسی اور مفادات کےلئے سیاست کرتے ہیں ان کا مقصد قوم کو بے وقوف بنانا ہے بیرونی دوروں پر غریب عوام کا پیسہ اجاڑنے والوں نے سوا تین کروڑ سیلاب متاثرین کو تنہا چھوڑرکھا ہے بعض اوقات تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے حکمرانوں نے ملک اور اداروں کو یرغمال بنایاہوا ہے یہ چاہتے ہیں کہ ان کے کارخانے چلیں اور جائیدادیں بنیں لوگ بھلے ایک کلو آٹے کےلئے لائنوں میں لگے رہیں ان نااہل حکمرانوں کی وجہ سے آج پاکستان 62ہزار ارب کا مقروض ہو گیا ڈھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں زرعی ملک ہونے کے باوجود زراعت کو تباہ کیاگیا، صنعت برباد کی، کاروبار ٹھپ کیے اور عوام کے ہاتھوں میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی غلامی کی ہتھکڑیاں پہنادیں ہیں جسکے بعد معیشت افواہوں کی زد میں اور عوام غربت کی دلدل میں دھنس ر ہی ہے سیاسی عدم استحکام اور مہنگائی میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس سے عوام کی پریشانی اور بے چینی بڑھ گئی ہے پاکستان کے پاس بجلی پیدا کرنے اور تیل خریدنے کےلئے ڈالرز نہیں ہیں ایک طرف معیشت کی جڑیں ہل رہی ہیں تو دوسری طرف حکومتی ڈھانچے کا بوجھ بڑھ رہا ہے اور مختلف ادارے انحطاط کا شکار ہیں آٹے کے بحران، بجلی اور گیس کے بلوں نے عوام اور کاروباری برادری کی نیند یں اڑا کر رکھ دی ہیں اپنے کپڑے بیچنے والوں نے عوام کو کسی جانب سے کوئی ریلیف نہیں دیا حکمران اتحاد عوام کو مہنگائی بے روزگاری اور مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں دے سکا ہے یہی وجہ ہے کہ لاکھوں افراد خط غربت سے نیچے جا رہے ہیں اور حکومت کی ساری توجہ عوام کی فلاح و بہبود کے بجائے اتحادیوں کے مطالبات پورے کرنے اور اپوزیشن کو چپ کرانے پر مرکوز ہے اشرافیہ کے علاوہ سارا ملک پریشان ہے مگر حکومت کے کان پر جون تک نہیں رینگ رہی ہے ملک میں درجنوں بحرانوں کی موجودگی میں اب آٹے کا شدید بحران ہے جو کسی بھی وقت خطرناک صورتحال اختیار کر سکتا ہے اس پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی کاروبار اور صنعتیں بند ہو رہی ہیں صرف ٹیکسٹائل برامدات میں ماہانہ سوا دو ارب ڈالر کی کمی آ چکی ہے جسکے بعدسے ترسیلات کم ہیںبے روزگاری پھیل رہی ہے اور ملکی خزانہ خالی ہو چکا ہے کوئی ہمیں قرض دینے کو آمادہ نہیں ہے پی ڈی ایم اورپیپلزپارٹی نے مل کر ملک کو معاشی، سیاسی اور سماجی بحران سے دوچار کررکھا ہے عوام مہنگائی سے بلبلا رہے ہیں اور حکمرانوں کو اپنی عیاشیوں سے فرصت نہیں اس وقت 15جماعتیں اقتدار میں ہیں ان کی اقتصادی پالیسی ”قرضہ لو اور ڈنگ ٹپاﺅ” اور ”قومی اثاثے بیچ دو” کے نظریہ کے گرد گھوم رہی ہے اور ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا مگر اقتدار پر قابض قوم کا درد رکھنے والے لیڈروںنے اپنی اپنی سیاسی جماعتوں پربھی خاندانوںاور افراد کا قبضہ جماکر عوام کو یرغمال بنایا ہوا ہے عام شخص اسمبلی تک پہنچنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا اور یہی لوگ خاندانوں کی شکل میں اقتدار سے چمٹے رہتے ہیں حکومت میں آکر خوب پیسا بناتے ہیں اور پھر اسی پیسے سے ووٹ خرید کر اقتدار حاصل کرکے اداروں کو اپنا غلام بنا لیتے ہیں ووٹوں کی خرید و فروخت کی بہت ساری ویڈیو منظر عام پر آئیں مگر کسی طرف سے کوئی ایکشن نہیں لیا گیا اور تو اور الیکشن کمیشن بھی کچھ نہیںکرپایا سوائے عمران خان کو الگ کرنے کے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri